• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے کاروباری طور پر ناکام لوگ بہت اچھے لگتے ہیں۔ یہ اکثرایک سے زیادہ کاروبار شروع کرتے ہیں لیکن ناکام رہتے ہیں۔چونکہ اِن پر کوئی کتاب ’100 ناکام ترین افراد‘ نہیں لکھی جاتی سو یہ گمنام رہتے ہیں۔اِن کی کہانیاں بطور مثال نہیں بطور عبرت سنائی جاتی ہیں۔اِن کی اکثریت اچھی بھلی ملازمت کو ٹھوکرمارکرکسی میرے جیسے سیانے کے کہنے میں آجاتی ہے کہ کاروبارکرناچاہیے۔آپ نے بھی اکثر سنا ہوگا کہ کاروبارملازمت سے بہترہے۔لوگ مثالیں دیتے ہیں کہ فلاں نے ملازمت چھوڑ کر کاروبار شروع کیا اور آج کروڑوں میں کھیل رہاہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ ملازمت کے خلاف ہیں وہ چاہتے ہیں کہ خود تو اپنا کاروبارشروع کریں لیکن وہاں لوگوں کو ملازمت دیں۔تواگر ملازمت پسندنہیں تو دوسروں کوملازم کیوں رکھ رہے ہیں؟اصل میں ہرکام ہرکسی کے بس کانہیں ہوتا۔کچھ لوگ کاروبار بہتر کرسکتے ہیں اور کچھ ملازمت۔ہربندہ کاروبار شروع کردے تو ملازم کہاں سے آئیں گے۔آپ ایک گارمنٹس فیکٹری بھی کھول لیں تو کیا وہ ورکرز کے بغیرچل پائے گی؟ہونا یہ چاہیے کہ زمانے کی رفتار کو دیکھتے ہوئے ملازمت بھی برقرار رکھی جائے اور کوئی ایسا کاروبار کیاجائے جس سے سائیڈ انکم ہوسکے۔یہ کاروبار کیا ہوسکتاہے اس بارے میں ہر بندہ خود بہتر جانتا ہے۔میرے گھر جوصاحب دودھ پہنچاتے ہیں وہ ایک کمپنی میں ساٹھ ہزار تنخواہ لیتے ہیں لیکن صبح سویرے لوگوں کے گھروں میں دودھ بھی پہنچاتے ہیں اور یوں ان کی ماہانہ انکم گزارے لائق ہوجاتی ہے۔اب توکاروبارکے اور بہت سے پلیٹ فارم متعارف ہوچکے ہیں جن میں خواتین بھی گھر بیٹھے محنت کرسکتی ہیں۔میرے علاقے میں ایک خاتون نے سہولت متعارف کروائی ہے کہ وہ لوگوں کے گھروں میں جاکر کھانا بناتی ہیں اوراس کے عوض پانچ ہزار ماہانہ فیس چارج کرتی ہیں۔پچھلے دنوں بتارہی تھیں کہ اب ان کے پاس دس گھروں کی ذمہ داری آگئی ہے۔گویا وہ مختلف انداز میں اپنی محنت سے پچاس ہزار ماہانہ تک کما رہی ہیں۔

٭٭٭٭

جس طرح آم گرمیوں کا بادشاہ ہے اسی طرح سردیوں کی بادشاہی ساگ کے حصے میں آتی ہے۔سخت سردیوں کے موسم میں جی کرتا ہے کہ بندہ کسی کو دعابھی دے تو ’بھاگ لگے رہن‘ کی بجائے’ساگ لگے رہن‘ کہے۔بھنڈیوں کی طرح ساگ بنانابھی کوئی کوئی جانتاہے ورنہ کئی گھروں کا ساگ دیکھ کرافسوس ہوتا ہے کہ اس بے زبان کو توڑا ہی کیوں گیا۔ ساگ ایک بہترین ڈش ہے ”مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ“۔مجھے نہیں پتا کہ کینیڈا کے انگریز بھی ہماری طرح کا ساگ کھاتے ہیں یانہیں، لیکن اگرنہیں کھاتے توایک دفعہ کھاکردیکھیں۔میرا وجدان کہتاہے کہ وہ تھوڑی پس وپیش کے بعد نیاگرا فال کا نام’ساگرہ فال‘ رکھنے پرآمادہ ہوجائیں گے۔ساگ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ سرسوں کا ہو یاپرسوں کا،ہر لحاظ سے قابل قبول ہوتاہے۔توآج ساگ بادشاہ کے حضور پیش خدمت ہیں کچھ زبان زدِ عام الفاظ اور جملے ساگ کے تڑکے کے ساتھ.....’ساگاں والیو!نام جپومولا نام۔تازہ ساگ ہے چاہت اپنی، کاہے کھلائیں تمہیں۔ساگم ساگ۔بے ساگ تبصرہ۔ساگ درباری۔ساگ رات‘۔ میری حکومت سے گزارش ہے کہ متوقع طور پرآنے والی ستائیسویں ترمیم میں ساگ کو کم ازکم سردیوں کی قومی ڈش کا درجہ دے دیا جائے۔بڑی مہربانی، مولاخوش رکھے، ساگ لگے رہن!

٭٭٭٭

پنجاب میں اینٹی سموگ گن نظر آناشروع ہوگئی ہیں۔ یہ واحد’اسلحہ‘ ہے جو سرعام لہرایاجارہا ہے اور عوام خوفزدہ ہونے کی بجائے خوش نظر آرہے ہیں۔آپ گوگل کرکے اس کی تصاویر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک گاڑی پر نصب توپ نما چیزہے اور اِس کااستعمال اُس علاقے میں ہوگا جہاں سموگ حملہ آور ہوگی۔ اس سے سموگ میں سترفیصدکمی واقع ہوگی۔ہرگاڑی میں بارہ ہزارلٹر پانی کی گنجائش ہے۔ توپ کے ذریعے یہ پانی سموگ پرسپرے کیا جاتاہے جس سے فضامیں موجود آلودگی اور مٹی کے ذرات پر مشتمل سموگ بے دم ہوکر زمین پرآگرتی ہے۔ یہ گن 100 میٹراوپر تک پانی کی پھوار پھینک سکتی ہے۔اگر یہ تجربہ شدید سموگ میں بھی اپناکام کرگیاتو بہت بڑی اذیت سے نجات مل جائے گی۔ اب تو سموگ کا لفظ اتنا عام ہوگیا ہے کہ فوگ کہتے ہوئے بندہ پینڈو پینڈو سا لگتاہے۔یہ توپیں اگر سخت گرمیوں میں ہلکی پھلکی بارش بھی برسا دیاکریں تو شائد گرمی کازور بھی کچھ ٹوٹ جائے۔اُمیدہے کہ اِس بار سموگ کی بجائے فوگ دیکھنے کو ملے گی ورنہ ہر دفعہ یہی ہوتاہے کہ بیچارے موٹر سائیکل یاسائیکل سوار جب شدیدسموگ میں گھر پہنچتے ہیں تو اُن پر اتنی دھول اورمٹی جم چکی ہوتی ہے کہ گھر والے نہانے کی بجائے سروس کرانے کا مشورہ دیتے ہیں۔لاہور میں فی الحال یہ پندرہ توپیں مختلف پندرہ مقامات کور کریں گی۔وزیراعلیٰ پنجاب اگر اِن کی تعداد ’21‘ کردیں تو سموگ کوبڑی اچھی سلامی دی جاسکتی ہے۔یاد رہے کہ اکثر لاہوریوں نے ہمیشہ کی طرح اینٹی سموگ گن کو مسترد کرتے ہوئے اِن کا نام ’پانی والی توپ‘ رکھ دیا ہے۔

تازہ ترین