• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں طویل عرصے سے سیاست کا بنیادی محور یہ بن گیا ہے کہ اگر ایک سیاسی جماعت یا اتحاد اقتدار میں آ جاتا ہے تو دوسری سیاسی جماعتیں اسے اقتدار سے الگ کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتی ہیں۔ اس سیاسی کھینچا تانی کےنتیجےمیں عوام کے بنیادی مسائل اور ملک کو درپیش معاشی چیلنجز پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور کاروباری اداروں اور برآمد و درآمد کنندگان کو راستوں کی بندش اور انٹرنیٹ کی فراہمی میں تعطل کی وجہ سے بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی پاکستان نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن بھارت کو فوجی میدان میں شکست فاش سے دوچار کرکے دنیا میں اپنی جنگی مہارت کا لوہا منوایا ہے۔ اس عسکری کامیابی کی وجہ سے ناصرف امریکہ کی نظر میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ برادر اسلامی ملک سعودی عرب نے بھی پاکستان کے ساتھ باہمی دفاعی معاہدہ کرکے پاکستان کیلئے مشرقِ وسطیٰ میں دو طرفہ تعاون کے نئے امکانات روشن کئے ہیں۔ ان حالات میں یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ پاکستان کو دوست ممالک بالخصوص امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ میں برآمدات بڑھانے میں مدد ملے گی۔ تاہم یہ امیدیں پوری ہونے کی بجائے گزشتہ تین ماہ میں برآمدات چار فیصد کم ہو گئی ہیں جبکہ درآمدات میں 14 فیصد اضافہ ہو چکا ہے جس سے تجارتی خسارہ بڑھ کر 34 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ستمبر کے مہینے میں گزشتہ سال کی نسبت برآمدات میں 12 فیصد کمی ہوئی جبکہ برآمدات میں 15 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاکستان ٹیکسٹائل کونسل نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں برآمدات میں کمی پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو پاکستان کی عالمی منڈی میں پوزیشن مزید کمزور ہو گی۔ رپورٹ کے مطابق اگست 2025 میں پاکستان کی مجموعی برآمدات میں گزشتہ سال کی نسبت 12.5 فیصد جبکہ ٹیکسٹائل و ملبوسات کی برآمدات میں سات فیصد کمی ہوئی ہے۔اس پر ستم یہ کہ حکومت انڈسٹری کو درپیش مسائل حل کرنےاور شرح سود میں کمی کی بجائے ٹیکس کی شرح میں مسلسل اضافہ کرتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمت پہلے ہی خطے میں سب سے زیادہ ہے جسکی وجہ سے ایکسپورٹ انڈسٹری کو عالمی منڈی میں مسابقت کے حوالے سے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ اس سے جہاں صنعتکار اور کاروباری طبقہ پریشان ہے وہیں عام آدمی کی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے اور اسکی قوت خرید مسلسل کم ہو رہی ہے جس سے معاشی سرگرمیاں بڑھنے کی بجائے ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ بجلی اور گیس مہنگی ہونے سے جس طرح انڈسٹری کو نقصان ہوا ہے اسی طرح عام آدمی کی زندگی میں بھی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس صورتحال میں زیادہ تر انڈسٹری سولر سسٹم پر منتقل ہو رہی جس سے بجلی کی قیمت مزید بڑھتی جا رہی ہے اور کیپسٹی پیمنٹ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر یہی بجلی انڈسٹری کو مناسب ریٹ پر دیدی جائے تو اس کا استعمال بڑھنے سے قومی خزانے اور صارفین کو پہنچنے والے مالی نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بجلی کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ نیشنل گرڈ سے بجلی استعمال کرنے کی بجائے سولرائزیشن کی طرف جا رہے ہیں۔ ان حالات کے باوجود حکومت برآمد کنندگان کی عالمی مسابقت کو بہتر بنانے کے حوالے سے تاحال کوئی طویل المدت پالیسی تشکیل نہیں دے سکی۔ ایسے میں آئے روز کے احتجاج اور سڑکوں کی بندش سے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ مزید خراب ہو رہی ہے اور بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان کو برآمدی آرڈرز دینے سے ہچکچانے لگی ہیں۔ اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش صورتحال کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ کرسمس سیزن کے باوجود 50 فیصد سے زیادہ انڈسٹری بند پڑی ہے اور زیادہ تر ملز مکمل استعداد پر چلنے کی بجائے جزوی طور پر فعال ہیں۔ ماضی میں کرسمس سیزن کے دوران ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے پاس برآمدی آرڈرز کا تانتا بندھا ہوتا تھا لیکن اب زیادہ تر ایکسپورٹرز کو کوشش کے باوجود برآمدی آرڈرز نہیں مل رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ برآمدی صنعتوں کو علاقائی سطح پر مسابقتی ریٹس پر توانائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ 72 گھنٹے میں ریفنڈز کی پالیسی پر عملدرآمد یقینی بنائے اور ٹیکسٹائل برآمدات بڑھانے کیلئے پانچ سالہ پالیسی تشکیل دی جائے تاکہ عام آدمی کے روزگار کا تحفظ یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ برآمدات میں اضافے کو ممکن بنایا جا سکے۔

تازہ ترین