• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبے اور جامعات 26 اکتوبر کو ایم ڈی کیٹ امتحان کو شفاف طریقے سے منعقد کریں، مصطفیٰ کمال

وزیر صحت مصطفیٰ کمال پی ایم اینڈ ڈی سی ہیڈ آفس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے۔
وزیر صحت مصطفیٰ کمال پی ایم اینڈ ڈی سی ہیڈ آفس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے۔

وفاقی وزیر برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن سید مصطفیٰ کمال نے صوبائی حکام اور جامعات کو ہدایت کی ہے کہ وہ 26 اکتوبر کو ایم ڈی کیٹ (ایم ڈی کیٹ) کے امتحان کو آزادانہ، منصفانہ اور شفاف طریقے سے منعقد کریں۔

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم اینڈ ڈی سی) کے ہیڈ آفس میں منعقدہ پریس کانفرنس میں سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ کل 1,40,129 امیدوار میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ کے لیے رجسٹر ہو چکے ہیں، جو ملک بھر کے سرکاری و نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز و یونیورسٹیوں میں 22,000 نشستوں کے لیے امتحان دیں گے۔ یہ امتحان پورے ملک میں 32 مقامات پر منعقد کیا جائے گا، جن میں ایک بین الاقوامی مرکز ریاض (سعودی عرب) بھی شامل ہے۔

وفاقی وزیر نے اعلان کیا کہ پی ایم اینڈ ڈی سی نے ایک اہم سنگِ میل عبور کرتے ہوئے ایم ڈی کیٹ کے لیے ایک متحدہ قومی نصاب اور 6,000 سے زائد معیاری سوالات پر مشتمل آئٹم بینک تیار کیا ہے۔ یہ نصاب ملک بھر کے وائس چانسلرز اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار کیا گیا۔ جامعات نے اسی قومی آئٹم بینک سے اپنے اطمینان کے مطابق سوالات تیار کیے ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایم ڈی کیٹ کا پرچہ لیک ہوا تو اس کی ذمہ داری متعلقہ صوبائی حکومت اور یونیورسٹی پر عائد ہوگی۔ وفاقی وزیر نے میڈیا سے اپیل کی کہ وہ عوام میں امتحان سے متعلق آگاہی بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے پی ایم اینڈ ڈی سی کے صدر، رجسٹرار اور امتحانی شعبے کو بہترین آئٹم بینک تیار کرنے پر سراہا۔

ایم ڈی کیٹ 2025 پورے پاکستان میں ہر صوبے اور علاقے کی نامزد سرکاری جامعات کے ذریعے منعقد کیا جائے گا۔ امتحان کے انتظام، انعقاد اور نتائج سے متعلق تمام امور متعلقہ جامعات کی ذمہ داری ہوں گے، تاہم یہ تمام کام پی ایم اینڈ ڈی سی کے مقرر کردہ معیار اور فریم ورک کے مطابق انجام پائیں گے۔

پی ایم اینڈ ڈی سی نے مزید وضاحت کی کہ اگر کوئی امتحان لینے والی یونیورسٹی امتحان کے شفاف اور منظم انعقاد میں ناکام رہی، یا اگر پرچہ لیک ہونے، نصاب سے ہٹنے یا شفافیت میں کمی کا کوئی واقعہ پیش آیا، تو تمام تر ذمہ داری اسی یونیورسٹی پر عائد ہوگی۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ امتحان کے بہتر اور موثر انعقاد کے لیے کل مختص رقم کا 50 فیصد پہلے ہی جامعات کو جاری کر دیا گیا ہے، تاہم اگر کسی قسم کی بے ضابطگی یا بدانتظامی پائی گئی تو باقی 50 فیصد رقم روک لی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ شفافیت، علاقائی سہولت اور منظم امتحانی انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ ہر یونیورسٹی اپنے دائرہ اختیار میں امتحانی اتھارٹی کے طور پر کام کرے گی اور پی ایم اینڈ ڈی سی کے طے کردہ قواعد، نصاب اور سیکیورٹی پروٹوکولز پر مکمل عمل درآمد کرے گی۔

پی ایم اینڈ ڈی سی کے مطابق ایم ڈی کیٹ کے نمبرز کم از کم 50 فیصد وزن کے ساتھ سرکاری و نجی میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے شمار کیے جائیں گے، یہ پورے ملک میں قابلِ قبول ہوں گے اور تین سال کے لیے درست رہیں گے۔ جامعات کو امتحان کے پیشگی (pre-hoc) اور بعد از امتحان (post-hoc) تجزیے کرنے ہوں گے تاکہ کوئی بھی سوال غلط یا نصاب سے باہر نہ ہو۔

تمام جامعات کو امتحان کے لیے جامع انتظامات کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، جن میں مناسب امتحانی مراکز کی فراہمی، بیٹھنے، ہوا کی نکاسی، ٹھنڈک/گرمی اور پینے کے پانی کی سہولت ہو۔ الیکٹرانک آلات کو روکنے کے لیے جیمبرز کی تنصیب۔ انٹری اور ایگزٹ پوائنٹس پر واک تھرو گیٹس اور سیکیورٹی عملہ کی تعیناتی۔ امتحانی عملے کی تربیت اور انھیں مناسب معاوضہ ادائیگی۔ پرچوں کی تیاری، طباعت اور محفوظ ترسیل کے شفاف انتظامات۔ والدین کے لیے انتظار گاہ، طلبہ کی تصدیق کے کاؤنٹرز اور دیگر سہولیات کی فراہمی شامل ہیں تاکہ امتحان کا عمل پرسکون اور محفوظ طریقے سے مکمل ہو سکے۔ 

قومی خبریں سے مزید