کیا جنوبی ایشیا میں کبھی مکمل امن قائم ہوگا ،کیا مودی ازم ہی دو ارب سے زیادہ انسانوں کو یرغمال بنائے رکھے گا، اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ یہ دنیا کی کل آبادی کا 25 فیصد ہے۔ یعنی ایک چوتھائی عالمی آبادی سخت گھٹن میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔یہ علاقہ تاریخ میں تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے۔ یورپ کی قومیں اسے سونے کی چڑیا سمجھ کر یہاں لوٹ مار کرنے آتی تھیں۔ ان غیر ملکی لٹیروں سے ہی ہمارے مقامی لٹیروں نے بھی لوٹ مار کے جدید طریقے سیکھے ۔خلعتیں پائیں ۔جاگیریں ملیں لیکن انہوں نے اپنے علاقوں پر ہی ان طریقوں کا اطلاق کیا۔ ضرورت یہ تھی کہ اس خطے کے حکمران مودی ازم کو مسترد کرتے ۔سب مل جل کر ایسی پالیسیاں اختیار کرتے کہ بھارت کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ جمہوریت پرست باشندوں کو مودی جیسےسفاک '،انسان دشمن اور متعصب حکمران سے نجات ملتی۔ لیکن اکثر اسی کی روش پہ چل نکلے۔ حسینہ واجد، سری لنکا، نیپال والوںنے یہی راستہ اختیار کیا مگر وہاں کے لوگوں نے انہیں مزاحمت کر کے ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا میں علاقائی تعاون کی سب تنظیمیں آگے بڑھ رہی ہیں۔ یورپ نے اپنی کرنسی بھی مشترکہ کر لی ہے ۔پاسپورٹ ویزے ختم کر دیے ہیں ۔مشکل یہ ہے کہ ترقی پسند اور ترقی یافتہ لوگ آگے کی سوچتے ہیں ۔ماضی حال مستقبل سب جڑے ہوئے ہیں۔ آج ہم جن خوشحالیوں اور بدحالیوں کا سامنا کر رہے ہیں وہ ماضی کی اچھی بری پالیسیوں کا منطقی تاریخی نتیجہ ہیں۔ پاکستان کی بدقسمتی کہ ہمارے بانی قائد اعظم محمد علی جناح اپنی علالت کے باعث صرف ایک سال ہی اس نئی مملکت کو دے سکے۔ ان کے بعد قائد ملت لیاقت علی خان کو تین سال بعد راستے سے ہٹا دیا گیا۔ پاکستان کے پاس وسائل بےکراں تھے ۔قدرتی معدنی بھی اور افرادی قوت بھی ۔لیکن ہمارے کسی شعبے کی پالیسیوں میں تسلسل نہ رہا ۔چاہے وہ معیشت ہو، خارجہ پالیسی، 'تعلیم 'صحت 'زراعت، آبپاشی، امن و امان یامذہبی رحجانات۔ قائد اعظم کو اپنی مختصر زندگی کا احساس تھا ۔اس لیے انہوں نے ایک سال میں ہی پاکستان کی پیشرفت کیلئے بنیادی خطوط کا تعین کر دیا تھا۔ میں تو جب بھی ان کی ایک سال کی تقریروں کا مطالعہ کرتا ہوں تو ان میں پاکستان کے آنے والے زمانوں کیلئے ایک مربوط نظام نظر آتا ہے ۔بہت رہنمائی ملتی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے کے ان کے بیانات تقاریر اور خطوط کا بھی مطالعہ کیا جائے تو کسی بھی محقق کو ایک آزاد جمہوری مملکت کے خطوط ،حدود اور لائحہ عمل میسر آسکتے ہیں۔تجزیہ کاری آج کل پسندیدہ پیشہ اور شغل بن گیا ہے ۔ایک ہجوم ہے تجزیہ کاروں کا لیکن تجزیے میں جس جامعیت کا اور مستقبل کے ادراک کا تقاضا ہوتا ہے ۔کیا یہ ان تجزیہ کاروں کے ہاں نظر آتا ہے۔ ان میں کتنے ہیں جو آنے والے زمانوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ پاکستان میں آگے کے بارے میں تجزیہ کرنا بہت مشکل کام ہے ۔ آپ ذرا 1947سے اب تک دیکھیں کہ قافلے نے کتنے راستے بدلے ہیں۔ آپ رواں سسٹم کے تناظر میں اس کے منطقی اور تاریخی نتائج اخذ کر رہے ہوتے ہیں لیکن کوئی مسیحا اچانک لاؤ لشکر سمیت افق پر نمودار ہو جاتا ہے پورے سسٹم کو الٹ پلٹ کر دیتا ہے ۔اپنا جمہوری سیاسی معاشی سسٹم لے کر آتا ہے ۔پھر اسی طرح آٹھ دس سال بعد دوسرا مسیحا آ جاتا ہے وہ معزول مسیحا کے سارے دستور معاہدے رد کر ڈالتا ہے۔ منصوبوں پر لگی تختیاں اکھاڑ پھینکتا ہے ۔یہ تو اللہ کا فضل ہے کہ ایک ایٹمی پروگرام ہے جو اس دست برد سے ماورا رہا ہے اسی لیے وہ تکمیل تک بھی پہنچا اور غیر ملکی یلغار کے مقابلے میں ہمیں محفوظ ہونے کا احساس بھی دلاتا ہے ۔لیکن تحفظ کا ایسا احساس کسی دوسرے شعبے میں ہمیں میسر نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے ان شعبوں کیلئے وسائل عطا نہیں کیے یا ان شعبوں میں ہمارے پاس ماہرین نہیں ہیں ۔بے شمار اسکالرزہیں جو دوسرے ملکوں میں جا کر وہاں کی پائیدار ترقی کا سرچشمہ بنے۔ وہ ملک میں بھی اپنی خدمات انجام دینے پر آمادہ تھے ۔مگر انہیں کسی نہ کسی طرح مایوس کر کے ترک وطن پر مجبور کیا گیا۔ اب بھی سینکڑوں نوجوان حالات کی وجہ سے ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔نظر آتا ہے کہ چند خاندان ہیں جو 1951 سے وسائل پر قبضہ کرتے آ رہے ہیں ۔ہرچند خاندان بدلتے رہتے ہیں مگر سسٹم خاندانی ہی رہتا ہے۔ پاکستان میں عوام کی اکثریت کو کبھی یہ احساس اور تسکین نصیب نہیں ہوئی کہ ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے میں انہیں شریک کیا جا رہا ہے۔ یہی طاقتور خاندان سیاسی ہوں یا غیر سیاسی عوام کو تقسیم بھی کرتے رہے ہیں لسانی ،نسلی ،علاقائی ،صوبائی ،فرقہ وارانہ بنیادوں پر تاکہ لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ فیصلہ سازی میں عدم شرکت کا سبب ملک کی پالیسیاں نہیں بلکہ یہ وابستگیاں ہیں ۔دنیا بہت سے حکمرانی کے تجربات کرنے کے بعد جمہوریت کے نظام پر متفق ہوئی۔ چاہے وہ صدارتی نظام ہو پارلیمانی یا ملا جلا کہ اس سے ایک فرد ایک ووٹ کے نظریے میں یہ یقین ہوتا ہے کہ چار پانچ سال میں ایک بار ہر بالغ فرد کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی مرضی سے حکمران منتخب کر سکے۔ جب بھی اس راستے سے انحراف ہوا ،الیکشن روکے گئے ، الیکشن کے نتائج چرائے گئے یا غیر متعلقہ شعبوں کو شامل کار کیا گیا تو ہوا یہی ہے کہ ان شعبوں کی پیشہ ورانہ اہلیت کو نقصان پہنچا ۔پھر ہر بار ایک طویل عرصہ لگتا رہا ہے کہ ان اداروں کی ساکھ مکمل طور پر بحال کی جائے۔ ان اداروں سے اور ملک سے مجموعی طور پر محبت رکھنے والےہی زیادہ مضطرب رہتے ہیں کہ مملکت کی ریاست کا وقار اور عظمت کیسے واپس لائی جائے گی ۔اب آج اکتوبر کے آخری ہفتے میں ہم اگر آگے کی سوچیں کہ ہمارے آئندہ 10/ 15 سال کیسے گزریں گے۔ 25 کروڑ عوام کی معیشت کیسی ہوگی۔ روزگار کے کیا امکانات ہیں۔ ہمسایوں سے تعلقات کیسے ہوں گے ۔ایک پٹی ایک سڑک کا کیا ہوگا۔ ریکوڈک سے سونا ہمارے دن سنہرے کرے گا یا نہیں ۔فی کس آمدنی کیا ہوگی۔ پارلیمنٹ سپریم ہوگی کہ نہیں۔ کیا واہگہ سے گوادر تک پاکستانیوں میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ وہ فیصلہ سازی میں شریک ہیں۔ تو پہلے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ جو سسٹم اس وقت ملک میں حکمرانی کا چل رہا ہے۔ اس کے تناظر میں آئندہ کا تجزیہ کریں یا خالص پارلیمانی سسٹم میں جہاں پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے اور جہاں انتخابی نتائج وہی ہوتے ہیں جو عام لوگوں کی آرزو ہوتی ہے۔ 2047 میں پاکستان کی سنچری ہوگی۔ اس وقت تحریک پاکستان قیام پاکستان کے بعد تکمیل پاکستان کا مرحلہ کس سسٹم کے تحت مکمل ہوگا ۔کیا وہ مملکت قائد اعظم کے اصولوں پر مبنی ہوگی ؟