وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی کا کہنا ہے کہ فیض حمید ایک ادارے کا ملازم تھا، اگر کسی معاملے پر فیض حمید کو سزا ہوئی ہے تو یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔
اپنے بیان میں وزیرِ اعلیٰ کے پی نے کہا کہ صاحبِ اختیار لوگ اگر سمجھتے ہیں تو ہمارے ساتھ مذاکرات کریں، مذاکرات کا اختیار بانی نے محمود اچکزئی اور راجہ ناصر عباس کو دیا ہے، محمود خان اچکزئی کے ہر فیصلے کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
خیال رہے کہ سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی گئی ہے۔ سزا کا اطلاق 11 دسمبر 2025 سے شروع ہوگا۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا یہ عمل 15 ماہ تک جاری رہا، ملزم کے خلاف 4 الزامات پر کارروائی کی گئی۔
آئی ایس پی آر نے کہا کہ الزامات میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال، متعلقہ افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ طویل اور محنت طلب قانونی کارروائی کے بعد ملزم تمام الزامات میں قصور وار قرار پایا گیا، عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کا اطلاق 11 دسمبر 2025ء سے شروع ہو گا۔