جب ہم بیمار پڑتے ہیں اور كسی طبیب كے پاس جاتے ہیں تو وہ مرض كی علامات كی خوب اچھے سے جانچ پڑتال كرتا ہے، مرض كی درست تشخیص کیلئے بہت سے سوال كرتا ہے، ان سوالات میں ایک لازمی سوال ہوتا ہے،’’ کیا یہ مرض آپ کے پُرکھوں میں بھی پایا جاتا تھا‘‘۔ کچھ امراض تو سو فی صد جنیٹک ہوتے ہیں، جیسے سِکل سیل کی بیماری، جیسے عارضہ قلب کی مخصوص اقسام۔ شاید اسی کو تقدیر کہتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک بھی تقدیر کی طرح ہوتے ہیں، جو تقدیر میں لکھ دیے گئے سو لکھ دیے گئے۔ آپ نے وہ معروف فقرہ تو سُن ہی رکھا ہو گا کہ کوئی بھی ملک اپنے دوست تو بدل سکتا ہے مگر اپنے ہمسائے نہیں بدل سکتا۔ اٹل بہاری واجپائی صاحب نے یہ فقرہ 1999 میں لاہور میں پاک-بھارت تعلقات کے حوالے سےبجا طور پر استعمال کیا تھا۔آج یہ جملہ افغانستان کے حوالے سےذہن میں آیا۔ پاکستان اور افغانستان امن سے رہنا چاہتے ہیں یا مسلسل حالتِ جنگ میں، دونوں ملکوں کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا۔ جینا تو بہرحال انہیں ساتھ ساتھ ہی ہے، یعنی،’’ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دے۔‘‘
پاکستان اور افغانستان جس طبیب کے پاس بھی اپنے علاج کیلئے جائیں گے وہ ’’مرض‘‘کی تاریخ پوچھے گا، اور اس کا درست جواب یہی ہے کہ، جی ہاں یہ موروثی مرض ہے۔ جس طرح پاکستان اور ہندوستان کے ڈی این اے میں کشمیر کا مرض ہے، اسی طرح پاک افغان ڈی این اے میں ڈیورنڈ لائن کا مرض ہے، جو نسل در نسل منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ لگے ہاتھ ڈیورنڈ لائن کا قصہ بھی سُن لیجیے۔ یہ جو 2640 کلومیٹر کی لکیر ہے یہ انگریز نے 1893 میں کھینچی تھی۔ یہ درست ہے کہ افغانستان اور ہندوستانی کالونی کے درمیان یہ سرحد کسی جغرافیائی یا نسلی اکائی کو مدنظر رکھ کر نہیں بنائی گئی تھی بلکہ اس باؤنڈری کی منطق صریحاً فوجی اور سیاسی تھی، برطانوی راج کےذہن میں صرف اور صرف اپنی سلطنت کو روسی یلغار سے تحفظ دینا تھا، جس کیلئے ایک طے شدہ سرحد، اور درہ خیبر جیسی کچھ گزرگاہوں پر تسلط ضروری سمجھا گیا۔ یوں کہہ لیجیے کہ یہ سرحد وسطی ایشیا میں روسی زار اور برطانوی سامراج کے درمیان کھیلی جانے والی’’گریٹ گیم‘‘ کے پس منظر میں کھینچی گئی۔ یاد رہے کہ یہ سرحد اینگلو افغان مشترکہ کمیشن نےطے کی تھی۔ مکمل آزادی (1919) کے بعد سے افغان ریاست نے، اسے تسلیم کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم تو برطانوی استعمار سے جنگیں ہارے ہوئے تھے، سیاسی اور معاشی طور پر برطانوی سلطنت کے زیرِ نگیں تھے، اور امیرِ افغانستان عبدالرحمٰن خان نے طوعاً و کرہاً نومبر 1893 کے اس معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ خیر، ڈیورنڈ لائن نے کئی پشتون اور بلوچ قبائل کو دو ملکوں میں تقسیم کر دیا۔ اس پس منظر میں افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے 1947 میں یو این او میں پاکستان کی ممبر شپ کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اسے کہتے ہیں’’موروثی بیماری‘‘۔
اگر قبیلوں کو ایک ہی ریاست میں اکٹھا کرنے کا اصول تسلیم کر لیا جائے تو ہر براعظم کے بیسیوں ملکوں کا نقشہ تبدیل کرنا پڑئے گا۔ یہ موضوعات تاریخ و تحقیق میں تو اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن ریاستوں کی حقیقی کش مکش میں یہ خیالات لغو تصور کیے جائیں گے۔ بہرحال، اس قضیے کے ساتھ دونوں ملک جینا سیکھ رہے تھے کہ 1979 میں سوویٹ یونین نے افغانستان پر قبضہ کر لیا اور ایک ایسی جنگ آغاز ہوئی جو آج تک کسی شکل میں جاری ہے۔ پاکستان نے اس جنگ کے دوران جو کردار ادا کیا وہ فقط مہربان میزبان کا تھا یا افغانستان پر جنگ تھوپنے والوں کے ایجنٹ کا؟ اب تو یہ بحث بھی تاریخ کا حصہ محسوس ہونے لگی ہے۔ لمحہء موجود میں آ جائیں۔طالبان کی حکومت آئی تو بھارت سے اس کے تعلقات میں گرم جوشی آنے لگی، فیض حمید ابھی کابل سے چائے کا کپ پی کر لوٹے ہی تھے کہ ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آنے لگی، یہ دہشت گرد حملے بڑھتے چلے گئے، ہمارے لوگ مرتے چلے گئے۔
تحریکِ طالبان پاکستان کو بجا طور پر افغان طالبان حکومت کی شاخ سمجھا جاتا ہے، سو دونوں ملکوں کے تعلقات تلخ تر ہوتے گئے، ہم دراندازی روکنے کیلئے سرحد پر باڑ لگاتے رہے، طالبان یہ باڑ اکھاڑنے میں لگے رہے، افغان سرزمین مسلسل ٹی ٹی پی دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرتی رہی۔ پاکستان نے 30 لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دی تھی، جب طالبان حکومت آ گئی اور پاکستان نے مہاجرین سے وطن واپس جانے کی درخواست کی تو افغان حکومت اور ٹی ٹی پی نےایک طرح سے اعلانِ جنگ کر دیا۔ پاکستان کی اینٹی سمگلنگ پالیسی بھی طالبان کو گراں گزر رہی ہے، افغان ٹریڈ معاہدے میں تعطل بھی پاکستانی غصے کا اظہار ہے، نتیجہ یہ ہے کہ دو سال میں افغان ٹریڈ کا حجم سات بلین ڈالر سے قریباً ایک بلین ڈالر پہ آن پہنچا ہے۔ پاکستان میں جب تک طالبان دہشت گردی رہے گی، پاک افغان تعلقات بہتر ہونے کی کوئی امید نہیں۔ دوسری طرف طالبان حکومت تبدیل ہونے کے بھی کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔ یعنی معاہدہ چاہے دوحہ میں ہو یا بیجنگ میں، مسئلہ حل نہیں ہو گا، جب تک طالبان حکومت ٹی ٹی پی سے دستِ شفقت نہیں اٹھاتی۔مرض چاہے موروثی کیوں نہ ہو صحت مند طرزِ زندگی اختیار کرنے سے بہتر ہو سکتا ہے، طالبان کو باقاعدگی سے واک (دی ٹاک) کرنا ہو گی، بارڈر سموکنگ بند کرنا ہو گی اور مرغن ٹریڈ سے پرہیز کرنا ہو گا۔