• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں صورت حال یہ ہے کہ سپیکر اور لاؤڈ سپیکر دونوں کی بہت مانگ ہے۔ سپیکر ہاروں کے عوض آ جاتے ہیں اور لاؤڈ سپیکر کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ لاؤڈ سپیکر کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے، جبکہ سپیکر وقت آنے پر اپنا کرایہ خود ہی وصول کر لیتا ہے۔ جس جلسے میں سپیکر زیادہ ہوں ، اس کے نا کام ہونے کا خدشہ لگا رہتا ہے کہ لوگ رفتہ رفتہ بور ہونے لگتے ہیں لیکن جس جلسے میں لاؤڈ سپیکر زیادہ ہوں اسے کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ شہر میں کچھ جلسے ایسے بھی ہو رہے ہیں جن میں لاؤڈ سپیکروں کے ساتھ آنے والے مستری بھی سامعین ہی میں شمار ہوتے ہیں ۔ ایسے جلسوں میں تو شامیانوں اور قناتوں وغیرہ کا بھی خصوصی انتظام کیا جاتا ہے کہ شامیانوں اور قناتوں والے بھی سامعین ہی میں شمار ہوتے ہیں اور جلسہ کامیاب قرار پاتا ہے۔

سپیکر اور لاؤڈ سپیکر میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ لاؤڈ سپیکر بجلی یا بیٹری سے اور سپیکر حلق اور پھیپھڑوں کے زور سے چلتا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ سوئچ آف کرنے سے لاؤڈ سپیکر کسی بھی لمحے بند کیا جا سکتا ہے لیکن سپیکر اگر اپنی رو میں تقریر کر رہا ہو تو اسے روکنا محال ہوتا ہے۔ ویسے بعض سپیکر ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں کسی بھی وقت سوئچ آن کر کے چالو کیا جا سکتا ہے اور کسی بھی لمحے سوئچ آف کر کے خاموش کیا جا سکتا ہے۔

ان بولنے والی چیزوں میں تیسرا فرق یہ ہے کہ لاؤڈ سپیکر ایک بے جان آلہ ہے، جبکہ سپیکر گوشت پوست کی بنی ہوئی چیز ہے جس کے ساتھ پیٹ بھی لگا ہوا ہے۔

چوتھا فرق یہ ہے کہ لاؤڈ سپیکر اپنی کوئی زبان نہیں رکھتا ، اس کے منہ میں دوسروں کی زبان ہوتی ہے ۔ چنانچہ جو وہ کہتے ہیں یہ نشر کر دیتا ہے ، جبکہ سپیکر قوت گویائی رکھتا ہے اور زبان حال سے کہتا ہے’’میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں ....کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے‘‘ تا ہم کچھ سپیکر، سپیکر کم ، لاؤڈ سپیکر زیادہ ہوتے ہیں۔

سپیکر اور لاؤڈ سپیکر میں سے ہمیں ذاتی طور پر لاؤڈ سپیکر زیادہ پسند ہے ، ایک تو اس لیے کہ یہ کم خرچ ہے دوسرے یوں کہ بالانشیں بھی ہے۔ بالانشیں تو بعض سپیکر بھی ہوتے ہیں ، مگر وہ کم خرچ نہیں ہوتے ۔ لاؤڈ سپیکر ہمیں اس لیے بھی پسند ہے کہ اس کا مزاج خاصا جمہوری ہے۔ یہ دوسروں کے خیالات سنسر کر کے نشر نہیں کرتا بلکہ من وعن دوسروں تک پہنچا دیتا ہے۔ مزاج تو سپیکر حضرات کا بھی جمہوری ہوتا ہے لیکن ہر دور میں جمہوریت کی وہ Latest تعریف بیان کرتے ہیں اور لاؤڈ سپیکر وہ بھی نشر کر دیتا ہے۔

ہمارے ہاں ایک عرصے تک لاؤڈ سپیکر کے استعمال کو نا پسندیدہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ شاید اس لیے کہ لاؤڈ سپیکر سر گوشیوں میں کی جانے والی گفتگو کو دور دور تک پھیلا دیتا ہے۔ گو یا لاؤڈ سپیکر بہت ہی لاؤڈ سپیکر ہوتا ہے۔لاؤڈ سپیکر کو سپیکر پر ترجیح دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دوران تقریر لاؤڈ سپیکر میں کوئی خرابی واقع ہو جاتی ہے جس کے باعث مقرر کی آواز آنا بند ہو جاتی ہے اور صرف ہاتھ کی حرکات ، ہونٹوں کی جنبش اور چہرے کے تاثرات سامعین تک منتقل ہوتے ہیں۔ درمیان میں لاؤڈ سپیکر ٹھیک ہو جاتا ہے اور سامعین تک مقرر کا ادھورا جملہ پہنچتا ہے جسے وہ پہلے ادھورے جملے سے ملا کر مکمل کر لیتے ہیں۔ مثلاً ایک عظیم الشان جلسہ عام میں ہم نے ایک مقرر کوسنا وہ کہہ رہا تھا :’’ہم آپ کے خادم ہیں۔ اگر آپ نے ہماری پارٹی کو کامیاب کرایا تو تین مہینے کے اندر اندر ہم آپ کو کچل کر رکھ دیں گے!‘‘ظاہر ہے مقرر نے کہنا یہ تھا کہ :’’اگر آپ نے ہماری پارٹی کو کامیاب کرایا تو ہم آپ کو اپنے وعدہ پر عمل کر کے دکھائیں گے اور عوام دشمنوں کو کچل کر رکھ دیں گے‘‘مگر لاؤڈ سپیکر درمیانی جملے تک پہنچتے پہنچتے خراب ہو گیا اور’’آپ کو کچل کر رکھ دیں گے‘‘۔ نشر کر دیا۔

سو لاؤڈ سپیکر کو سپیکر پر ترجیح دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کبھی کبھی سپیکر نیتوں کا حال بھی بتاتا ہے۔

تازہ ترین