شعر اور اقتدار کی دنیائیں الگ ہیں۔ شعر فرد پر گزرنے والی قیامت بیان کرتا ہے۔ اقتدار جذبات کی دنیا سے بے نیاز پیوستہ مفادات کی حرکیات سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک جملہ اسٹالن سے منسوب کیا جا تا ہے کہ ایک انسان کی موت المیہ ہے اور دس لاکھ افراد کی موت محض ایک عدد۔ یہ بتانا تو مشکل ہے کہ اسٹالن نے واقعی ایسا کہا تھا یا نہیں لیکن یہ معلوم ہے کہ دسمبر 1943کی تہران کانفرنس میں اسٹالن نے چرچل کو 1933 کے یوکرائن قحط کے بارے میں ایک کروڑ اموات کا ذکر کیا تھا۔ ماؤ نے تو کبھی 1962 کے قحط کا اعتراف تک نہیں کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر اتحادی افواج نے 28 لاکھ جرمن فوجی جنگی قیدی بنائے تھے مگر کاغذات میں محض اٹھارہ لاکھ کے نام درج ہوئے۔ دس لاکھ نامعلوم قیدیوں کا خون آئزن ہاور کے جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔ جنگ ویت نام میں ہو یا غزہ میں، عراق میں ہو یا کوریا میں، ایسا انسانی المیہ ہے جس کا ٹھیک ٹھیک تخمینہ ممکن ہے اور نہ اس کے زخم مندمل ہوتے ہیں۔ 8 دسمبر 1982کو ادب کا نوبل انعام موصول کرتے ہوئے گبرئیل گارشیا مارکیز نے ’لاطینی امریکا کی تنہائی‘ کے عنوان سے اپنے براعظم کا صدیوں پر معاشی استحصال، آمریت اور بے معنی لڑائیوں پر محیط جو دکھ بیان کیا تھا، کیا اسے چلی، کولمبیا، کیوبا، نکاراگوا، وینزویلا سمیت لاطینی امریکا میں سازشوں کی داستان میں سمیٹا جا سکتا ہے۔ ایران اور انڈونیشیا کے شہیدوں کی گنتی کیسے ہو گی۔ افریقہ میں غلامی کے مجرمانہ کاروبار کا حساب کون دے گا؟ تقسیم ہند کے فسادات میں مرنے والوں کے درست اعداد و شمار کیسے بیان کیے جائیں گے۔ بقول انتظار حسین، ’اکھڑی ہوئی خلقت کا ایک سیلاب امڈا ہوا تھا اور سیلاب میں بہت سا خس و خاشاک بھی بہتا چلا آ رہا تھا۔‘ ہر جنگ کے پہلو میں بہت سی ذیلی لڑائیاں ہوتی ہیں جو ذرائع ابلاغ میں نمایاں جگہ نہیں پاتیں لیکن انسانی زندگیوں کی تباہی میں ان کی تکلیف کسی طور کم نہیں ہوتی۔ آئیے آج ایک شاعر کو یاد کرتے ہیں جو 1947 میں کشمیر سے اکھڑے اور پھر کبھی اس صدمےسے نہیں نکل پائے۔
احمد شمیم یکم جون 1927 کو سرینگر میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام اسد اللہ زرگر اور والدہ کا نام زینب زرگر تھا۔ 1944میں اسلامیہ ہائی اسکول سرینگر سے میٹرک پاس کیا۔ نوجوانی ہی میں احمد شمیم کی تین دلچسپیاں واضح ہو رہی تھیں۔ سیاست، شاعری اورعالمی ادب کا مطالعہ۔ سری پرتاپ کالج سرینگر میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا لیکن بار بار قید و بند کی آزمائشوں سے گزرتے ہوئے امتحان پاس نہیں کر سکے۔ جب ان کے ساتھی طالب علم امتحان دے رہے تھے تو احمد شمیم سرینگر سنٹرل جیل کی 13 نمبر کوٹھری میں قید تنہائی کاٹ رہے تھے۔ 1948 میں اقوام متحدہ کا کمیشن سرینگر آیا تو وفد نے سری پرتاپ سنگھ کالج کا دورہ بھی کیا۔کشمیری رہنما شیخ عبداللہ اور بخشی غلام محمد یہ تاثر دے رہے تھے کہ کشمیری عوام بھارت سے الحاق چاہتےہیں۔ اس موقع پر احمد شمیم نے طالب علموں کا ایک بڑا مظاہرہ منظم کیا۔ کمیشن واپس لوٹ گیاتو بھارتی فوج ، ڈوگرہ پولیس اور نیشنل کانفرنس کے غنڈوں نے کالج میں گھس کر مظاہرہ کرنے والے طالب علموں کی پٹائی شرو ع کر دی۔ کچھ مسلمان پروفیسر بھی تشدد کا شکار ہوئے۔ یہ قصہ احمد شمیم کی زبانی سنئے۔’’میرے کپڑے پھاڑ دیے گئے۔ پورا جسم لہولہان تھا۔ بھارتی فوج کی ایک جیپ میں ڈال کر تھانہ کوٹھی باغ پہنچا دیا گیا۔ جیپ سے گھسیٹ کر ایک بند کمرے میں دھکیل دیا گیا۔ میں کسی بے جان جانور کی طرح کمرے کے فرش پر گر گیا۔ کمرے میں موجود پروفیسر ہامبنی میری طرف لپکے ۔ میرا سر گود میں رکھ کر کہنے لگے ۔’My son, our Prophet has suffered more than this.‘پروفیسر صاحب خود زخموں سے چور تھے لیکن ان کی آواز میں ایسا ٹھہراؤ تھا کہ میرے زخم خود بخود بھرنے لگے‘‘۔ احمد شمیم کا گھرانہ اسلامی اقدار کا حامل تھا اور میر واعظ یوسف شاہ سے عقیدت رکھتا تھا۔ ایک خط میں احمد شمیم نے لکھا کہ میری پیدائش سے پہلے زلزلے میں میرے بڑے بھائی سمیت میری والدہ کا سارا کنبہ زندہ دفن ہو گیا تھا۔ ایک تین سالہ ماموں باقی بچے تھے۔ اس واقعے نے میری والدہ کو ہمیشہ کے لیے غم کی تصویر بنا دیا۔ اگر میں کبھی رات دیر گئے واپس آتا تو وہ برف باری میں بھی باہر صحن میں میرا انتظار کرتی تھیں۔ جب میں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تب بھی میری ماں نے مجھے نہیں کہا کہ تم اپنی جان خطرے میں کیوں ڈال رہے ہو۔ ایک دفعہ میرے والد ملاقات کے لیے جیل آئے ۔ سپاہی مجھے اندر سے لے کر آئے تو میری ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی۔ والد صاحب نے مجھے گلے سے لگا کر کہا ۔ ’ہمت سے کام لینا چاہیے بیٹا...، لیکن میرے آنسو رک نہیں سکے۔ جو خط مجھے دیا اس پر میری ان پڑھ ماں کے انگوٹھے کا نشان تھا۔ فرمایا ، ’تمہاری ماں کا پیار ہے‘۔ بالآخر احمد شمیم پاکستان چلے آئے۔ 1948 ء میں آزاد کشمیر ریڈیو سے بطور صدا کار وابستہ ہوئے۔ 1958میں بی اے کیا لیکن گورڈن کالج راولپنڈی کے ماحول سے بددل ہو کر تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا۔پنڈی میں انہیں آفتاب اقبال شمیم ، یوسف ظفر ، منو بھائی ، مختار صدیقی ،شفقت تنویر مرزا اور باقی صدیقی جیسے دوست میسر آئے۔ محکمہ اطلاعات میں ترقی کرتے ہوئے 1975میں ناظم کے عہدے تک پہنچے۔ 1964میں منیرہ شمیم سے شادی ہوئی۔ 1963 میں احمد شمیم کی والدہ کا سرینگر میں انتقال ہوا۔ وہ پندرہ برس تک اپنی والدہ سے دوبارہ نہیں مل سکے۔ احمد شمیم کی شہرہ آفاق نظم ’ریت پر سفر کا لمحہ‘ والدہ ہی کی یاد میں لکھی گئی تھی۔
تتلیوں کے پر بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے، جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو، روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نیرہ نور نے اپنے مخصوص لہجے میں یہ نظم گائی تو اس کا پہلا مصرعہ ’کبھی ہم خوبصورت تھے‘ بہت مقبول ہوا۔ شاعری کے مدوجزر کے اپنے رنگ ہیں۔ کبھی شعر آگے نکل جاتا ہے اور شاعر اوجھل ہو جاتا ہے۔ احمد شمیم مگر فراموش نہیں ہو سکتے کیونکہ اردو شاعری میں کشمیر سے محبت کرنے والا ایسا شاعر دوبارہ پیدا نہیں ہوا۔