یہ فروری 1999کا ذکر ہے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی دوستی بس کے ذریعے پاکستان آئے۔ اس دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم کرنا تھا پاکستان میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے ان کا بھرپور استقبال کیا ۔ اس دورے کے دوران ٹریک ٹو پالیسی کے تحت ساؤتھ ایشین فرٹینٹی(SAF) نامی تنظیم نے پاکستانی دانشوروں اور معاشرے کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے ایک وفد کو انڈیا کے دورے پر مدعو کیا۔اتفاق سے مجھے اس وفد کی قیادت کرنے کا موقع ملا بہت سے دیگر پروگراموں کے علاوہ ہمیں بھارتی عوام سے ملنے کا بھی موقع ملا۔ وہاں ہندی میں ترجمہ ہونیوالی میری کتاب ’’ میں باغی ہوں ‘‘ کی متعدد شہروں میں تقریب رونمائی بھی ہوئی۔ سیف انڈیا کے جنرل سیکرٹری اور پاک و ہند دوستی کے ایک بڑے پرچارک آنجہانی ستیہ پال جی نے اس دور ےکا اہتمام کیا تھا اس وقت کی انڈیا کی مرکزی وزیر اطلاعت و نشریات شریمتی سشما سوراج نے انڈین پریس انفارمیشن بیورو کے ہال میں میری کتاب کی رونمائی کی اور میری نظم ’’چھٹا رشتہ‘‘پڑھ کر سنائی۔اس کے بعد ہمیں اس کتاب کی رونمائی کی تقریب کیلئے ایک ایسی جگہ اور ایسی شخصیت نے مدعو کیا جو حقیقی معنوں میں حیران کن تھی یہ دعوت بابا امتے کی طرف سے تھی جو آنند وان آشرم کے بانی تھے۔ان کی کہانی انسانی ہمدردی کی ایک شاندار داستان ہے۔ بھارت کی ریاست مہاراشٹر میں چندرا پور ڈسٹرکٹ میں ایک علاقہ ہے جسے آنند وان کہتے ہیں جس کا مطلب ہے خوشی کا جنگل- اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کوڑھ کے مرض میں مبتلا مریضوں کی ایک عظیم الشان بستی ہے جسے آنند وان آشرم کہتے ہیں جسے ایک عظیم انسان بابا امتے نے بسایا تھا وہ بنیادی طور پر ایک وکیل تھے- ایک رات وہ اپنی گاڑی پر گھر واپس جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ویران سڑک کے کنارے گندگی کے ایک ڈھیر پر کچھ لوگ کسی کو پھینک کر فرار ہو گئے ہیں جب وہ قریب پہنچے تو انہیں تڑپتا ہوا ایک شخص دکھائی دیا- معلوم ہوا کہ وہ کوڑ ھ کے مرض میں مبتلا ایک مریض تھا جس کا نام تلسی رام تھا۔ بابا نے اس کے زخموں اور بیماری کا علاج کیا اگرچہ وہ شخص جانبرتو نہ ہو سکا لیکن بابا امتے کا یہ معمول بن گیا کہ وہ کوڑھیوں کو تلاش کر کے لاتے اور پھر ان کا مفت علاج کرتے آہستہ آہستہ اور بھی انسان دوست مخیر حضرات ان کا اس کارِ خیر میں ساتھ دینے لگے-بعد میں انہوں نے 250 ایکڑ پر 1949 میں آنند وان کے نام سے کوڑھیوں کی ایک بستی کا آغاز کیا جو بڑھتے بڑھتے ایک قصبے کی شکل اختیار کر گئی۔ کوڑھ کا مرض انسان کے اعصابی نظام (NERVOUS SYSTEM) پر حملہ آور ہوتا ہے اور جو مریض صحت یاب بھی ہو جاتے ہیں ان کے اعصابی نظام میں کوئی نہ کوئی کمی رہ جاتی ہے یعنی کسی کا بازو ٹیڑھا ہو گیا کسی کی ٹانگوں میں کجی آگئی وغیرہ ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاک و ہند کے معاشرے میں کوڑھیوں سے نفرت یا سراسیمگی اور خوف کے جذبات پائے جاتے ہیں لوگ اپنے قریبی عزیزوں تک کو اپنے گھر میں رکھنے کیلئے تیار نہیں ہوتے چہ جائے کہ ان کے مستقبل کے بارے میں سوچیں لیکن بابا امتے نے نہ صرف ان کے علاج معالجے کا بندوبست کیا بلکہ ان کیلئے روزگار بھی مہیا کیا- اس بستی میں میڈیکل اور انجینئرنگ کالج بھی قائم کیا گیا جس میں کوڑھیوں کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں- اس کار خیر میں صرف بابا امتے ہی شامل نہیں تھے بلکہ ان کے دونوں بیٹے ڈاکٹرآ کاش اور ڈاکٹر پرکاش ، ان کی بیویاں جو خود بھی ڈاکٹر ہیں اور بابا امتے کی اہلیہ سادھنا تائی جی بھی ان کے ساتھ دن رات کوڑھیوں کی خدمت میں مصروف رہتی تھیں- ان کے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر پرکاش نے گیڈ چرولی ڈسٹرکٹ مہاراشٹر کے جنگلوں میں ایک ہسپتال اور اسکول قائم کیا ہمیں وہاں جانے کا بھی اتفاق ہوا یہ باقی ساری دنیا سے کٹا ہوا ایک پراسرار علاقہ تھا جہاں نکسل باغیوں کے اڈے بھی تھے ڈاکٹر پرکاش نے نہ صرف مقامی قبائلیوں بلکہ جنگلی جانوروں کے علاج کا ہسپتال بھی قائم کیا۔بابا امتے اور ان کے بیٹے ڈاکٹر پرکاش کو بے شمار ملکی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا -یہ میری زندگی کا ایک ناقابل فراموش لمحہ تھا جب میں نے اس عظیم انسان سے ملاقات کی جس کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے مریضوں کی شب و روز خدمت کے باعث اتنے خراب ہو چکے تھے کہ وہ بیٹھ نہیں سکتے تھے یا تو وہ کھڑے ہوتے تھے یا لیٹ کر بات کرتے تھے - آنند وان آشرم میں ان کے انسانیت کیلئے عظیم کاموں کا مشاہدہ کرنا بذات خود ایک اچھوتا منظر تھا- وہ پاک و ہند دوستی کے ایک بڑے مبلغ تھے انہوں نے جو الفاظ کہے وہ آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں انہوں نے کہا تھا کہ ’’قدرت نے انسان کو سامنے کی طرف چہرے پر آنکھیں دی ہیں تاکہ وہ آگے کی طرف دیکھ سکے اور آگے کا سفر کر سکے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم گزرے ہوئے تلخ ماضی کو بھول جائیں اور اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے سوچیں ‘‘- اسی سلسلے میں وہ پاکستان کا دورہ بھی کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور وہ 9 فروری 2008 میں 93 سال کی عمر میں چل بسے -آج جب متعصب ہندوتوا لیڈروں کی طرف سے جنگ و جدل اور نفرت کا شورو غوغا سنائی دیتا ہے تو اس میں بابا امتے ،پاکستان میں 50 سال تک جذام کیلئے کام کرنے والی جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ اور عبدالستار ایدھی کی یاد آتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو ملک و مذہب اور رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر صرف انسانیت کی خاطر جئے اور مرے اور حقیقی معنوں میں یہی آج کے ہیرو ہیں ۔آج کا شعر
جب تک تیرے دل میں نہیں انسان کی تعظیم
سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی