ان دنوں ہماری حکومت اور رائے عامہ اپنے ہمسائے افغانیوں کے سخت خلاف جا رہی ہے۔ انہیں نمک حرام ، احسان فراموش اور طوطا چشم سمیت نہ جانے کیا کیا کچھ کہا جار ہا ہے۔ ہمارے وزیر دفاع یا ان سے بھی کسی اوپر والے سے لے کر اخباری قلم گھسیٹنے والوں تک سبھی افغانیوں کی بے وفائیوں کے طنزیہ مرثیے پڑھتے دکھتے ہیں۔ اے ہمارے پیارے طالبانو! ہم پاکستانیوں نے تمہارے متعلق کیا سوچا تھا، کیا کیا سپنے دیکھے تھے اور تم کیا نکلے ؟؟تم لوگوں کی محبت میں ہم نے اپنا ملک برباد کروالیا اپنے اسی ہزار لوگ مروالیے، ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر جیسی خوفناک بیماریاں اپنے سماج کو لگوالیں۔اے بے وفا افغانیو! تمہاری محبت میں ہم لوگ سوویت یونین جیسی سپرپاور سے ٹکرا گئے،تمہارے عشق میں ہم نے دوسری سپرپاور امریکا سے چیٹنگ کرلی، یہاں تک کہ پینٹاگان اور وائٹ ہاؤس والے ہمیں دوغلاکہنے لگے، ہم نے کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں سے حمایت دکھائی لیکن پیارے طالبانو! تم سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ یہ سب اس لیے کیا کہ جب آپ برسراقتدار آجائیں گے تو ہمارے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ ہم کہیں گے کہ اب امریکی غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئی ہیں، ہم سوچتے تھے کہ آپ کے ہزاروں جہادی جذبۂ جہاد سے سرشار ہوکر مقبوضہ کشمیر میں جاگھسیں گے اوراسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں گے کیونکہ ہم تو تمہارے اسلامی جہادی جذبوں کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ کلمے کی برکت سے ہم ایک قوم ہیں۔ہم تو خواہاں تھےکہ افغانستان ہمارا پانچواں صوبہ بن جائیگا لیکن پیارے طالبانو! تم لوگوں نے تو ہمارا دل ہی توڑ ڈالا یہ کیا ستم ہے کہ تم نے ڈیورنڈ لائن کو بارڈر ماننے سے ہی صاف انکار کردیا ہے ترک اور قطری بھائیوں سے ضد کرکے اپنا یہ مطالبہ منوا رہے ہو کہ یہ کوئی بارڈ رنہیںانگریز کی کھینچی ہوئی کنٹرول لائن ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر تم لوگ ہمارے ازلی دشمن کی جھولی میں جابیٹھے،تمہارا فارن منسٹر جو نام کا متقی ہے ،ہند یاترا پر گیا تو پورا ہفتہ بھارت میں مودی کے ساتھ محبت کی پینگیں جھولتا رہا وہ دیوبند جس نے ہماری ٹونیشن تھیوری کی مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی اس کے مہتمم حسین احمد مدنی نے’ قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘ کا نعرہ لگادیا تھا اور لیگ کی بجائے کانگرس کا پورا ساتھ دیا یہ آپ کے امیر متقی اسی دیوبند میں پہنچ کر سکون حاصل کرتے پائے گئے۔ ہم نے تمہیں چوریاں، کیا یہی دن دیکھنے کیلئے کھلائی تھیںکہ ہندوستان میں بیٹھ کر یہ اعلان کرو کہ کشمیر پورے کا پورا بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔کیا تم نے ہمیں روس اور امریکا جیسا جاہل سمجھ رکھا ہے وہ تو دور سے آئے تھے ہم تو تمہارے سر پر بیٹھے ہیں ہم یہ ٹیررکسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ امریکا کے ساتھ ”دوحہ معاہدہ“کرتے ہوئے تم لوگوں نے خود یہ لکھ کر دیا تھا کہ ہم افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف ٹیررازم کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ہمیں اصل شکایت تو ٹی ٹی پی سے ہے، آج بیڈ طالبان ہم پر حملہ آور ہورہے ہیں تو انہیں روکنا تم لوگوں یعنی گڈ طالبان کی ذمہ داری تھی جو تم لوگوں نے نہیں نبھائی، تم لوگ یہ بات کبھی نہ بھولنا کہ ہم لوگ اگر تمہیں بناسکتے ہیں تو فنا بھی کرسکتے ہیں۔ یہ ہے وہ اُبال جو دینی و ملی حمیت کے حاملین ہمارے تمام پاکستانیوں کے سینوں میں اٹھ رہا ہے،ورنہ درویش جیسے لبرل سیکولر اپروچ رکھنے والوں نے تو مدارس کے ان مقدس سٹوڈنٹس کی متشدد اور منافرت بھری غیر انسانی سوچ پر تین حروف بھیجے اور اپنے بالادستوں کی منتیں کیں کہ اپنے وقتی و ہنگامی مفادات کی خاطر مذہبی کارڈ یا ڈپلومیسی بنانا یا اپنانا چھوڑدیں۔ اتنے تلخ تجربات کرنے اور نقصانات اٹھانے کے بعد ہی آپ لوگ سمجھ جاؤ کہ یہ لوگ ہمارے اثاثے نہیںبربادیاں ہیں۔ ہماری سوسائٹی آج گھٹن، عدم برداشت، تشدد، خوف اور ٹیرر کے جن اندھیروں میں ڈوبی پڑی ہے ، ذرا باریک بینی سے تجزیہ فرمائیں اس سب کا کارن کیا ہماری یہی پالیسی نہیں رہی کہ اپنے نام نہاد ازلی دشمن انڈیا کو اور خود اپنی آئینی و جمہوری حکومتوں کو نیچا دکھانےکیلئےجہادی تیار کیےگئے جنہیں دنیا نان اسٹیٹ ایکٹرز کہہ کر اپنے غصے کا اظہار کرتی رہی۔ مذہب کے مفاداتی استعمال کا اس سے بڑا نقصان کیا ہوسکتا ہے کہ آج جس طرح ٹی ٹی پی والے ہمارے جوانوں کو بیدردی سے ماررہے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہمارے ایک حساس ادارے نے نئی بھرتی کے لیے اپنے پڑھے لکھے نوجوانوں کے انٹریوز کیے تو نوے فیصد نے سلمان تاثیر کےقتل کو بالکل درست عمل قرار دیا۔ اگر ہم نے اپنی نئی نسلوں کی یہ ذہنی آبیاری کرڈالی ہے تو پھر آگے چل کر ہمارے سماج کی بربادی میں کیا کسر رہ جائے گی؟؟ درویش عرض گزار ہے کہ اصل ایشویہ جنونی جماعتیں نہیں، عدم برداشت کی تنگ نظری والی ذہنیت یا مائنڈ سیٹ ہے اگر آپ لوگ ایسی تنظیموں کو کالعدم قراردیتے ہوئے یا ڈیورنڈلائن کے آر پار لڑتے ہوئے ختم کرنے میں کامیاب ہوبھی گئے تو کیا گارنٹی ہے کہ دیگر ناموں کے ساتھ یہی لوگ نئے پرپرزے نکال کر آگے نہیں آجائیںگے؟؟ لہٰذا اس مائنڈ سیٹ کو توڑنے کے لیے بولڈ اقدامات اٹھائیے،تعلیمی نصاب بدلیے، میڈیا میں مسلط گھٹن دور کیجیے خوداپنے متفقہ طور پر طے کردہ نیشنل ایکشن پلان کو کماحقہ لاگو کیجئے۔