• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے ۔اپنے بیٹوں بیٹیوں ،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا بعد میں کافی یا چائے اور اپنی اولادوں کے ڈھیروں سوالات کے جوابات دینے کا دن ۔میں مخاطب ہوں ماں باپ سے، دادا دادی سے کبھی کبھی بہنوں بہنوئیوں کو بھی بلا لیں بھانجوں بھانجیوں کو بھی ،کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ سب لوگ آپس میں ملیں جلیں خاندان مربوط ہو۔ آج جب عالمی علاقائی اور مقامی سطح پر دوریاں بڑھ رہی ہیں ۔معاشی دباؤ میں یا سوشل میڈیا کے آلات کی فراوانی سے۔ وقت بہت سفاک ہو رہا ہے انسان مجبوراََ بے حس ہو رہا ہے۔ ہم سب نے دیکھ لیا کہ اسرائیل نے دو سال میں 70 ہزار جیتے جاگتے انسان بچے زیادہ مائیں بہنیں بمباری سے فائرنگ سے شہید کر دیے ہم سب سمیت پوری دنیا محض تماشائی بنی رہی اتنی ہلاکتوں کے بعد خاندان کے خاندان صفایا کرنے کے بعد براہ راست قتال کا حکم دینے والا بھی ہیرو ہے اور اس کو کھلے عام شہ دینے والا نوبل انعام برائے امن کا دعویٰ کر رہا ہے ۔جنگ بندی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔

ایسے استبدادی ماحول میں اور زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اپنے اپنے گھروں میں ذہنوں میں تڑپتے سوالات کے جوابات دیں۔ سوشل میڈیا اطلاع تو دے دیتا ہے مگر اس کے اسباب پر بہت کم بات کرتا ہے ۔بلکہ اپنی نظریاتی سیاسی سماجی اور فرقہ وارانہ وابستگی کے دباؤ میں حقائق کو مسخ کر دیتا ہے اس لیے دو نسلوں کا باہمی رابطہ گھر کی بقا کیلئے ناگزیر ہے۔ راجدھانی اسلام آباد میں ایک جوانِ رعنا ایک ایس پی عدیل اکبر کاآن ڈیوٹی وردی میں مبینہ خودکشی کرنا ایک قومی سانحہ ہے۔ اس کا فوری سبب تو ایک سینئر افسر کا ماتحت کو آخری فون بتایا جا رہا ہے ۔ایک کہانی اور ادھوری رہ گئی ایک دمکتی جوانی منوں مٹی تلے دبا دی گئی کسی ماں سے اس کی تمنائیں چھین لی گئیں۔ کسی بوڑھے باپ سے اس کے بڑھاپے کا سہارا کھو گیا کتنی بہنوں کا لاڈلا ہوگا اس کے رفقائے کار کہہ رہے ہیں کہ بہت خوش مزاج تھا ۔ پڑھائی میں بہت آگے اپنے گروپ میں سب سے اعلیٰ۔ پتہ نہیں وہ اپنے بزرگوں سے اپنے دکھ اپنی الجھنیں بانٹتا تھا یا نہیں اپنے چھوٹوں سے کھل کر ملتا تھا یا نہیں ۔

ایسے المیے بہت رونما ہو رہے ہیں ۔کتنی محنت سے ان اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے والے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ہم 78 سال کی ریاضتوں اور مسافتوں کے بعد بھی بے سکونی کے جزیروں میں بھٹک رہے ہیں ۔ یہ ذمہ داری اساتذہ کی ہوتی ہے ،محلے کے بزرگوں کی، دفتروں میں سینئرز کی، معاشرے میں سیانوں کی کہ وہ اپنے آس پاس پہ نظر رکھیں ان کی آنکھوں میں جھانکیں ۔

سیاسی سماجی اور اخلاقی طور پر بیسویں صدی کی عالمی جنگوں کی تباہ کاریوں کے بعد یہ فریضہ قومی سیاسی جماعتوں کے سپرد ہو گیا تھا کہ وہ اپنی اپنی قوم کو مایوسی سے نکالیں، فرد کی اداسی بھی دور کریں اور ملت کا اندوہ بھی۔ اپنے اپنے سماج کو ایک ولولہ تازہ دیں۔ اس احساس نے دنیا میں خاص طور پر یورپ اور ایشیا میں کتنی تحریکیں پیدا کیں۔ تحریک پاکستان بھی اسی کا نتیجہ تھی کمیونسٹ نظریات بھی اسی منطقی تحقیقی اور جدلیاتی تبادلہ خیال کا محرک تھے۔ پاکستان اس وقت جس نظریاتی کشمکش سے گزر رہا ہے وہ کسی کی بھی نااہلی کے سبب ہو اس وقت ایک فکری خلا ہے جو پھیلتا جا رہا ہے۔پاکستانی قوم اتنے تجربات دیکھ چکی ہےکہ اب مزید تجربوں سے گھبرا رہی ہے اس لیے اکثر با اثر مصلحت کی چادریں اوڑھ کر سردیوں کی دھوپ سینک رہے ہیں یا اپنے اپنے کمفرٹ زون میں لمبی تانے ہوئے ہیں ۔بڑی سیاسی جماعتیں جو اس وقت حکمران بھی ہیں ایک نے آئینی عہدے سنبھال رکھے ہیں اور ایک نے انتظامی۔ پارلیمنٹ ہے مگر اپنی تنخواہیں اور مراعات سے لطف اٹھانے کے لیے ۔فکری خلا اور نظریاتی ویرانے بڑھتے جا رہے ہیں ۔منطق بھی کئی معاملات میں مجبور ہو رہی ہے ۔دلیلیں صرف لائیو اسٹریم سے لوگوں کے دل گرما رہی ہیں۔ فیصلوں کی بنیاد نہیں بن رہیں۔

جب ایسا شدید نظریاتی خلا اور فکری انتشار ہو، کوئی قائد اعظم محمد علی جنا ح نظر آئے نہ لیاقت علی خان اور نہ ہی عبدالرب نشتر۔ دائیں بازو میں کوئی مولانا سید ابو الاعلی مودودی جیسا قائد رہنمائی کیلئے موجود نہ ہو۔ بائیں بازو میں جب ماسکو بھی تائب ہو چکا ہو۔ چین سوشلزم کوچینی خصوصیات کے ساتھ اپنانے پر ترجیح دے رہا ہو اور ہر حکمران کے ساتھ اس کے نظریات دیکھے بغیر اشتراک کر رہا ہو ۔منتخب غیر منتخب آمر بادشاہ سب کے ساتھ لانگ مارچ میں مصروف ہو۔ یونیورسٹیاں درسگاہیں تحقیقی ادارے اپنی سمتیں کھو چکے ہوں ۔مشرقِ وسطی میں کوئی جمال ناصر ہو نہ قذافی۔ پاکستان کے افق پر کوئی ذوالفقار علی بھٹو ہونہ بے نظیر بھٹو پھر تو قومی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ ملک میں نظریاتی مباحث کا احیا کریں ۔دنیا بھر میں چلنے والی سیاسی سماجی علمی ماحولیاتی پالیسیوں کے اطلاق میں اپنے ملک کا کردار نوجوانوں کو بتائیں۔یہ فریضہ اس وقت ڈی جی آئی ایس پی آر ادا کر رہے ہیں۔ وہ درسگاہوں میں جا کر اپنا موقف بتا رہے ہیں۔ انتہا پسندی کے خاتمے کی نوید دے رہے ہیں۔ نوجوانوں کے ذہنوں میں تڑپتے خیالات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ان کے مختلف جملے کہیں کہیں سے ملتے ہیں پورا متن میڈیا میں نہیں آتا کہ جس سے ہمیں کم از کم اپنی عسکری قیادت کے آئندہ 10 /15 سال کا لائحہ عمل ایک مکمل منظر نامے کی صورت میں ملے۔ اسی طرح آرمی چیف فیلڈ مارشل کی عالمی اور ملکی کوششیں جزوی طور پر سامنے آتی ہیں۔ مصر کے دورے میں جامعۃ الازہر کے شیخ سے ان کی ملاقات بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مصر جہاں انقلابی تحریکیں جنم لیتی رہی ہیں جہاں بعد میں انتہا پسندوں کا غلبہ رہا ہے جو اسرائیل کا سب سے بڑا حریف تھا اور اب اس کا سب سے بڑا حلیف۔وہ آئندہ کے لیے کیا سوچ رہا ہے۔ ہمارے عسکری قائد مسلمانوں میں انتہا پسندی کے بارے میں کیا خیالات اور کیا پروگرام رکھتے ہیں سول اور ملٹری کشمکش کی بے سود بحث میں پڑے بغیر میری تمنا یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو ہماری عسکری قیادت پاکستان کے آئندہ 10/ 15 بلکہ 22 برس یعنی 2047 تک کی کیا صورت گری رکھتی ہے اور ہماری سیاسی قیادتیں میاں محمد نوازشریف،شہباز شریف، مریم نواز،آصف علی زرداری،بلاول بھٹو زرداری،مولانا فضل الرحمن، ان 22 برس کا کیا نقشہ سوچ رہے ہیں؟ عمران خان جو نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں ان کے ذہن میں اس عظیم مملکت کے 22 سال بعد کا کیا تصور ہے؟کاش ہماری یہ تمنا پوری ہو سکے اور ہم سوچ سکیں کہ ہم محفوظ ہاتھوں میں ہیں ۔

تازہ ترین