یش چوپڑہ کی فلم دھوم2کا پہلا منظر۔ نمیبیا کے صحرا میں ایک ٹرین جا رہی ہے، ٹرین میں ملکہ برطانیہ ٹائپ کی خاتون اپنے پوتوں کے ساتھ سفر کر رہی ہے اور ظاہر ہے کہ سیکورٹی بہت سخت ہے، ٹرین میں ہر طرف مُسلح پہرے دار ہیں جنکے ذمے ملکہ کے خاندان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے علاوہ ایک بیش قیمت اور تاریخی تاج پر نظر رکھنا بھی ہے جسکے پیچھے ایک نامی گرامی چور ہے۔ ٹرین لق و دق صحرا میں دوڑتی جا رہی ہے کہ اچانک آسمان میں ایک ہیلی کاپٹر نمودار ہوتا ہے، ہیلی کاپٹر میں سے ہیرو پیراشوٹ کے ذریعے برآمد ہوتا ہے اور چھلانگ لگا کر سیدھا ٹرین کے اوپر جا پہنچتا ہے۔ آن ہی آن میں وہ اپنی شکل و صورت اَسّی برس کی ملکہ جیسی بنا لیتا ہے اور اُس بوگی کے باہر پہنچ جاتا ہے جس میں ہیروں سے جڑا تاج رکھا ہے، پہرے دار اُسے ملکہ سمجھ کر اندر جانے دیتے ہیں اور وہ کسی چھلاوے کی طرح تاج بکل میں دبا کر نکل جاتا ہے۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ دنیا میں جنگیں چھڑی ہوئی ہیں، سونے کا بھاؤ سمجھ میں نہیں آ رہا، ٹرمپ پکڑائی نہیں دے رہا اور میں یہ فلمی قصے لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ اصل میں شانِ نزول اِس کی پیرس کے لوو میوزیم میں ہوئی وہ چوری ہے جس نے دنیا کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ ہوا یہ کہ اتوار کا دن تھا اور وقت صبح ساڑھے نو بجے۔ چار چور ایک ٹرک لے کر لوو میوزیم پہنچے، اُس ٹرک میں سیڑھی لگی تھی جو عموماً تعمیراتی کمپنیوں کے زیر استعمال ہوتی ہے اور پیرس میں جگہ جگہ اسے مرمت کے کام کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، چاروں نے مزدوروں کی طرح نارنجی رنگ کی جیکٹیں پہن رکھی تھیں، نہایت اطمینان کے ساتھ انہوں نے سیڑھی میوزیم کی ایک کھڑکی کے ساتھ لگائی جو دوسری منزل پر واقع تھی، نو بج کر چونتیس منٹ پر انہوں نے کھڑکی توڑی، اندر داخل ہوئے، بیش قیمت نوادرات سمیٹے اور نو بج کر اڑتیس منٹ پر سکوٹروں پر بیٹھ کر فرار ہو گئے۔ یعنی دس منٹ سے بھی کم وقت میں انہوں نےتقریباً سو ملین ڈالر کے نوادرات لُوٹ لیے، جن میں نپولین سوئم کی بیوی کا تاج جس میں دو ہزار ہیرے جڑے تھے اور ایک ملکہ کا ہار جس میں چھ سوسے زائد ہیرے تھے شامل ہے۔ بھاگتے ہوئے ایک آدھ چیز اُن بیچاروں سے گر بھی گئی مگر کوئی بات نہیں، چار لوگوں میں سو ملین تقسیم کریں تو ایک کے حصے میں پچیس ملین ڈالر آئے، اب وہ نوادرات میں سے ہیرے جواہرات علیحدہ کریں گے اور پھر انہیں پگھلا کر سونا بھی نکال لیں گے اور بلیک مارکیٹ میں بیچ کر بقیہ زندگی سمندر کے کنارے کوئی پُر تعیش محل خرید کر گزار دیں گے۔ عین ممکن ہے اُن میں سے کوئی انتخابات جیت کر کل کلاں کو فرانس کا صدر ہی بن جائے، فرانس میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔
میرا بس چلے تو میں اِن چوروں کو نوبل انعام کیلئے نامزد کر دوں جنہوں نے ایک قلعہ نما میوزیم میں نقب لگا کر محض آٹھ منٹ میں سو ملین ڈالر کے نوادرات لُوٹ لیے، فرانسیسی حکومت کو چاہیے کہ اُن کیلئے این آر او جیسا قانون پاس کرکے عام معافی کا اعلان کر دے، انہیں سب سے بڑے سول اعزاز National Order of the Legion of Honour سے نوازے، انہیں اکیس توپوں کی سلامی دے اور اُن کے مجسمے لوو میوزیم کے سامنے نصب کرے۔ ایسے ٹیلنٹڈ چور روز روز پیدا نہیں ہوتے، میرا تو دل نہیں کر رہا ہے کہ انہیں چور لکھوں، انہیں فرانس کی سیکرٹ سروس میں نوکری پر رکھ لینا چاہیے اور پیرس کے آئی جی کو اِن کے ماتحت کر دینا چاہیے۔ سنا ہے کہ چور اپنا ڈین این اے کا کوئی ثبوت بھی چھوڑ گئے ہیں، دیکھتے ہیں کہ اِس سے کیا سراغ ملتا ہے، فی الحال تو فرانسیسی پولیس بے بس لگ رہی ہے، انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے اور ڈبل سواری پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ویسے جس ذہانت سے اِس چوری کی منصوبہ بندی کی گئی ہے اُسے دیکھ کر لگتا ہے کہ چوروں نے اپنی ٹکٹیں پہلے سے بُک کروا رکھی ہوں گی اور میوزیم سے نکل کر وہ سیدھا کسی جہاز یا فیری میں بیٹھ کر فرانس کی حدود سے باہر نکل گئے ہوں گے۔ اگر یہ سب کچھ کسی فلم میں دکھایا جاتا تو ہمیں یقین نہ آتا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے، دھوم 2کی طرح یہ سب ہمیں مضحکہ خیز لگتا مگر اِن چوروں نے تو یوں چوری کی جیسے بچے آم کے درخت پر چڑھ کر آم چرا کر لے آتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اُن کے آم کروڑوں ڈالر کے تھے۔
سچ پوچھیں تو ایسے لوگوں سے ہی دنیا میں رونق ہے، لوو میوزم کی اپولو گیلری، جہاں یہ چوری ہوئی، جب سیاحوں کیلئے کھلے گی تو سب سے زیادہ رش یہیں ہوگا، لوو میوزیم والے اس واقعے کو سیاحت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ ”وہ کھڑکی جہاں سے تاریخ چوری ہوئی“ کے نام سے ایک نیا ٹورپیکیج متعارف کروائیں، چوروں کے بنائے ہوئے راستے سے سیاحوں کو میوزیم میں داخل کیا جائے اور واپسی پر انہیں نقلی ہیروں سے جڑا ہوا ایک تاج پکڑا دیا جائے جس پر لکھا ہو: ”لوو سے چرایا گیا“۔ یہ پورے یورپ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ٹور بن جائے گا اور میوزیم کی انتظامیہ چند ماہ میں سو ملین ڈالر پورے کر لے گی، البتہ وہ تاریخی نوادرات واپس نہیں آئیں گے۔ یہ چوری اس لیے بھی دلچسپ ہے کہ یہ اکیسویں صدی کے منہ پر ایک طمانچہ ہے، ہم جو سمجھتے تھے کہ سی سی ٹی وی کیمروں، بائیومیٹرک لاک اور مصنوعی ذہانت سے ہم نے دنیا کو محفوظ بنا لیا ہے، وہاں چار آدمی ایک عام سی سیڑھی لے کر آتے ہیں اور پیرس کے حفاظتی نظام کا جنازہ نکال کر چلے جاتے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ اتوار کی صبح ساڑھے نو بجے عملہ اِس قدر چوکس نہیں ہوتا، وہ جانتے تھے کہ نارنجی جیکٹ پہنے ہوئے شخص سے کوئی سوال نہیں کرتا، انہیں مزدور سمجھا جاتا ہے، وہ جانتے تھے کہ قلعے کا کون سا حصہ چوری کے لیے موزوں ہے اور یہ کہ لوو میوزیم کا ایک تہائی حصہ کیمروں کی زد میں نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ ڈی این اے بھی چوروں نے جان بوجھ کر چھوڑا ہو اور وہ اُس ٹرک ڈرائیور کا ہو جس سے انہوں نے یہ ٹرک ادھار مانگا تھا کہ بھائی صاحب، بس سامنے والی کھڑکی سے کچھ سامان اتارنا ہے، ابھی آئے۔ یہ چار لوگ چور نہیں تھے، بلکہ فنکار تھے جنہوں نے صرف چار منٹ میں آرٹ کا ایسا اعلیٰ نمونہ تخلیق کیا جس نے لوو کی صدیوں پرانی ساکھ کو ہلا کر رکھ دیا۔ لوو کی انتظامیہ کو چاہیے کہ اُس ٹوٹی ہوئی کھڑکی کو مستقل نمائش کا حصہ بنا ڈالے اور نیچے ایک تختی لگائے جس پر لکھا ہو: ”یہاں سے اندر آنا منع ہے، بحکم منیجر۔“