پچھلے دنوں ایک دلچسپ تجربہ کیا۔آپ نے اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہوگاکہ میں بہت ایماندار اور کھرا انسان ہوں بے شک میرے محلے میں کسی سے پوچھ لیں۔ توہوایوں کہ ایک بحث کے دوران ایک صاحب نے یہی جملہ استعمال کیا۔ میں نے سوچا کیوں نہ چیک کیا جائے۔ پرسوں اُن سے ملنے گیا تو پہلے دودھ والے کی دکان سے پوچھا۔پھراُن کے ہمسائےسے، سبزی والے سے ، چھ سات اور لوگوں سے پوچھا۔ سب کی مشترکہ رائے تھی کہ موصوف نہایت اعلیٰ وارفع منافق ہیں۔ہمارے ہاں چونکہ ہربندے کولگتاہے کہ وہ منفرد اور ہیرا ہے لہٰذا دوسروں کی رائے کا انتظارکیے بغیر وہ خود ہی اپنے بارے میں اعلانات شروع کردیتاہے۔کئی لوگ اپنے خودساختہ اوصاف سننے کیلئے اتنے ترسے ہوتے ہیں کہ اُن کابس نہیں چلتا اسلحے کے زور پرسب سے منوائیں کہ کہو میں سب سے اچھا ہوں۔یہ لوگ عاجزی و انکساری میں بھی اپنی خوبیاں گنوانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کی ساری زندگی خود کو باور کراتے گزر جاتی ہے کہ جیسے خیالات اِن کے ہیں، جو زندگی یہ گزار رہے ہیں اورجو کچھ اِنہیں پسندہے بس وہی حق ہے وہی اچھاہے باقی سب دو نمبرہیں، فراڈیے ہیں، دوغلے ہیں اورچہرے پرنقاب چڑھائے ہوئے ہیں۔یہ اپنی ’صاف گوئی‘ کی آڑ میں سب پرتنقید کرتے ہیں لیکن اِن پرکوئی تنقیدکردے توایسے دانت کچکچاتے ہیں گویابہت بڑی گستاخی ہوگئی ہو۔
٭٭٭
ہم سب موبائل کی کانٹیکٹ لسٹ میں دوستوں عزیزوں کے نام اپنے مطابق محفوظ کرتے ہیں۔جس کے تین دوستوں کانام ٹونی ہو وہ یا تو ان کے پورے نام لکھتاہے یا اُن کی عادت کے مطابق ایسی عرفیت تخلیق کرتاہے کہ جب فون آئے تو فوراً پتاچل جائے کہ یہ کون سا ٹونی ہے مثلاً ’ٹونی فضول، ٹونی منگتا، ٹونی کرائے دار۔ترکی میں بھی ایک مردمجاہدنے اپنی بیوی کا نمبر’موٹی‘کے نام سے سیوکیاہواتھا۔اس بات کا بیوی کو پتاچلا تواُس نے فوراً عدالت سے رجوع کیااور عدالت نے طلاق کے ساتھ ساتھ شوہرپرجرمانہ بھی عائدکیا۔یقیناً بیوی نے شوہر کے موبائل پر بیل دی ہوگی اور نام ظاہرہوگیا ہوگا۔ احتیاطاً شوہر کو بھی بیوی کے نمبر پرفون کرکے چیک کرناچاہیے تھا کہ اُس کا نمبر کس نام سے سیوکیا گیا ہے۔جن دوستوں بزرگوں نے بیگمات کودو سمیں لے کردی ہوئی ہیں اُن کے موبائل میں عموماً بیوی کے دونوں نمبر ’وائف ون اور وائف ٹو‘ کے نام سے سیو ہوتے ہیں۔دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔
٭٭٭
انگلینڈ کے جونیئرڈاکٹروں نے تنخواہوں اورروزگار کے مسئلے پرپانچ روزہ ہڑتال کااعلان کردیاہے۔ یہ ’ریزیڈنٹ ڈاکٹرز‘ کہلاتے ہیں،آپ انہیں انگلینڈ کے’ینگ ڈاکٹرز‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ دل میں خوشی کی لہردوڑ گئی ہے۔شکر ہے اِن ممالک نے بھی ہم سے کوئی سبق سیکھا۔ہم سے زیادہ ہڑتال سپیشلسٹ کون ہوگا۔انگلینڈ والے ڈاکٹرز اگر پسندکریں تو میں اُنہیں اپنے مطالبات منوانے کے اور بھی تیربہدف نسخے بتا سکتا ہوں۔مثلاً ایمرجنسی بند کردیں، اوپی ڈی کو تالے لگادیں۔ہسپتالوں کے ایم ایس کو کمرے میں بند کردیں۔سڑکوں پر شامیانے لگا کر ٹریفک بلاک کریں اورسارا دن وہاں بیٹھ کر خوش گپیاں کریں۔ دو تین اِس ٹائپ کے بینربھی بنوا لیں ’ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے…ہماری مانگیں پوری کرو…احتجاج احتجاج…حکمرانو شرم کرو وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے بینر الگ سے بنوانے کی ضرورت نہیں، ہڑتالی پارٹیوں کے پاس یہ ریڈی میڈ دستیاب ہوتے ہیں بلکہ اگر خریدنے کی استطاعت نہ ہو تو کرائے پر بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔میرا دعویٰ ہے کہ انگلینڈ حکومت تین دن میں گھٹنے ٹیک دے گی۔ہڑتالی ہمیشہ اپنی ہڑتال کو صحیح اور دوسرے کی ہڑتال کو غلط کہتے ہیں۔ ڈاکٹرہڑتال کریں تو ٹھیک لیکن ہسپتال میں صفائی کا عملہ ہڑتال کردے تو یہی ڈاکٹر اُنہیں غلط کہہ رہے ہوں گے۔اساتذہ کی ہڑتال ٹھیک لیکن اگر بسوں ویگنوں والے ہڑتال کردیں تو یہی اساتذہ انہیں غلط کہہ رہے ہوں گے۔ انگلینڈ کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ بھی ڈاکٹروں کیخلاف ہڑتال کریں اور بیمار ہونے سے انکار کردیں۔
٭٭٭
لاہور میں نان اور خمیری روٹی کی قیمت میں پانچ روپے اضافہ ہوگیا ہے۔حکومتی اعلان کے مطابق تو سادہ روٹی چودہ روپے میں دستیاب ہے لیکن کہاں دستیاب ہے یہ نہیں بتایا گیا۔آپ تنور والے سے بحث کریں تو عین ممکن ہے وہ آپ کو چودہ روپے میں روٹی دیدے لیکن یہ ایسی روٹی ہوتی ہے جوکئی دفعہ گھر لانے سے پہلے ہی ٹوٹ جاتی ہے۔’مدری روٹی‘ کے شوقین ایسی روٹی افورڈ نہیں کر سکتے۔روٹی کا ایک سرکاری وزن مقرر ہے لیکن عام بندہ اسے کیسے چیک کرے۔ یا تو حکومت کو چاہیے کہ ہر تنور پر کوئی ایسا اسکیل رکھوائے جہاں روٹی گاہک کو دینے سے پہلے اس کا وزن کیا جائے یا کوئی ایسی ہیلپ لائن بتائے جس کا نمبر بزی نہ جائے، کوئی ہوش و حواس والا بندہ فون اٹینڈ کرے اور پھر شکایت پر ایکشن بھی لے ورنہ عموماً ایسی ہیلپ لائنوں پرکوئی مجہول سا بندہ بٹھا دیا جاتا ہے جسے خود ہیلپ کی ضرورت ہوتی ہے۔رات کے وقت کبھی آپ کا ٹرانسفارمر خراب ہوجائے تو آپ بجلی کے بل کی پشت پر دیے گئے نمبر ملا کر دیکھیں۔ مجال ہے جو ایس ڈی او، ایکسیئن یا متعلقہ دفتر کا نمبر مل جائے۔لیکن اِن کے نمبر اِس طمطراق سے دیے ہوتے ہیں گویا پہلی بیل پر فون اٹھائیں گے۔یقیناً جب یہ ہیلپ لائنیں کام نہیں کرتیں تو آپ خود دفتر جاکر شکایت درج کراتے ہیں۔ وہاں کا حال یہ ہے کہ عموماً ٹوٹی ہوئی کرسی پربدن کھجاتا، جمائیاں لیتا کوئی ملازم بیٹھا ہوگا جوآنکھیں ملتے ہوئے مسئلہ پوچھے گا اور ’ٹھیک ہے‘ کہہ کر پھر اونگھنے لگے گا۔تقریباً ہر سرکاری ادارے کی ایک ہیلپ لائن توموجود ہے لیکن نمبر ملانے پر پتا چلتا ہے کہ مصروفیت کی انتہا پر پہنچی ہوئی ہے۔ای میل پڑھنے کا رواج تو ویسے ہی نہیں رہا سو ایسے میں نان بائی مہنگی روٹی بیچ رہا ہے تو خرید لیں ورنہ شکایت کے چکروں میں پڑے توپتانہیں کتنی دیہاڑیاں ضائع ہوجائیں۔