السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
حیلے بہانوں سے راہیں مسدود
اخبار سے ایارانہ بہت پرانا ہے۔ نہ ملے، تو لگتا ہے کہ صُبح نہیں ہوئی۔ ’’جنگ‘‘ اُردو صحافت کا ایک معتبر نام اور اِس کے جریدے ’’سنڈے میگزین‘‘ کا اپنا ایک الگ ہی معیار ہے۔ آج پہلی بار چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کچھ لکھنے کی جسارت کررہا ہوں۔
ڈاکٹر ثانی کا سیرتِ طیبہﷺ پر لکھا ہوا ایمان افروز مضمون خاصا معلوماتی تھا۔ سیرتِ طیبہﷺ پرلکھنا ویسے بھی خصوصی توجّہ چاہتا ہے، کیوں کہ جس ذاتِ مقدّسہ کی توصیف مقصود ہے، وہ کائنات کی ارفع ترین ہستی ہے۔ بلاشبہ حافظ ثانی اس کسوٹی پر پورے اُترے۔
ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کا مضمون بھی کافی معیاری تھا، خاص طور پر اُس کا ابتدائیہ بہت پُراثر لگا کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو اُس کی مکمل شخصیت اور صلاحیتوں کے مطابق جینے کا حق آج بھی حاصل نہیں، مختلف حیلے بہانوں سے اُس کی راہیں مسدود کی جاتی ہیں۔
بہرکیف، آج کی عورت تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے جائز مقام کےحصول کے لیے مسلسل پیش قدمی کر رہی ہے۔ تحسین عابدی کا مضمون ’’وہ چراغ، جو اندھیروں میں جلتے ہیں‘‘ اچھی کاوش لگی۔
رؤف ظفر ہمیشہ بہت معلوماتی اور فکر انگیز موضوعات پر سیرحاصل کام کرتے ہیں، اِس بار بھی انہوں نے دوا ساز کمپنیوں کی لوٹ مار پر بہت چبھتی ہوئی تحریر قلم بند کی۔ منور مرزاخارجہ امور پر ایک مسلمہ اتھارٹی کا دوسرا نام ہے،اُن کے مضامین ہمیشہ ہی معیاری ہوتے ہیں۔
ٹرمپ کی ٹیرف کی سیاست پر مضمون لاجواب تھا، آخری حصّے میں ایک بڑا کام کا مشورہ بھی دیا کہ ’’لڑنے بھڑنے سے کام نہیں چلےگا، مسائل کی گتھیاں بات چیت اور مذاکرات ہی سے سلجھیں گی۔‘‘
عرفان جاوید کا انتخاب بھی شان دار رہا۔ عورت کی نفسیات پر ایک عُمدہ افسانہ پڑھنے کو ملا، جو عورت کی تہہ در تہہ شخصیت کا آئینہ معلوم ہوا۔ اختر سعیدی کتب پر بڑی عرق ریزی سے بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں۔ بحیثیتِ مجموعی شمارہ اپنے دل چسپ معیاری اور متنوّع مضامین کی بدولت خاصّے کی چیز معلوم ہوا۔ (تبسم انصار، لاہور)
ج: بہت اچھا تبصرہ کیا آپ نے۔ وہ کیا ہے کہ دیر آید، درست آید۔ اب آتے جاتے ہی رہیے گا۔
اتنی کم عُمری میں اتنی نالج!!
’’پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے…‘‘ سُرخی کے ساتھ، گلشن میں بہار کی مانند سرِورق سے وسطی صفحات تک، ننّھے پھول کِھلکھلا رہے تھے، دُعا ہے، ہمیشہ ہنستے مُسکراتے، چہکتے مہکتے رہیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی تحریر ثانیہ انور نے لکھی اور خُوب لکھی۔ ثانیہ انورکی دوسری تحریر ماہِ ستمبر کے اہم تاریخی واقعات، عالمی ایام کے تذکرے کا بھی کا ہی کہنا۔
وہ سال کے12 مہینوں کے اہم واقعات لکھ رہی ہیں، نہ جانے یہ معلومات کہاں، کہاں سے ڈھونڈ کے لا رہی ہیں، اِتنی کم عُمری میں، اتنی نالج، مان گئے، وہ سنڈے میگزین کی ٹیم میں بہترین اضافہ ہیں، جی آیا نوں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ بہترین، دل کش تحریروں سے آراستہ، خطوط سے چمک دمک رہا تھا، خاکسار کا بھی نامہ شاملِ اشاعت ہوا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں بلقیس متین اور عالیہ زاہد کی تحریریں اور ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ کا انتخاب لاجواب تھا۔
رونق افروز برقی کے سوال پر حیرت ہوئی کہ ناقابلِ اشاعت کی لسٹ میں تو بڑے بڑے قلم کاروں کے نام درج تھے، پھر اُنہیں پرنس افضل شاہین کے نام پر اتنی حیرت کیوں ہوئی؟ اگلے شمارےمیں بھی مختصر نامہ شاملِ اشاعت تھا۔ سرِورق ’’جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاندؐ ‘‘ کی عبارت اور روضۂ رسولؐ، مسجدِ نبوی سے مزین، دل کشی کی بہار دکھا رہا تھا۔
ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی تحریر’’15 صدیوں سے روشن آفتاب رسالتؐ کی کرنیں‘‘، ’’ولادتِ مصطفیٰ ﷺ سے قبل کی نشانیاں‘‘ اور ’’رسول اللہ ﷺ، بحیثیت دوست‘‘ گویا ذکرِ رسولؐ سے جریدے میں نور ہی نور بکھرا ہوا تھا۔ ذہن و قلب کو راحت و سُکون، آنکھوں کو خوب ٹھنڈک ملی۔ (محمّد صفدرخان ساغر، نزد مکی مسجد، محلہ شریف فارم، راہوالی، گوجرانوالہ)
ج: ہمیں بھی حیرت ہے کہ آپ کا نام شایع ہونے پر حیرانی نہیں ہوئی، پرنس افضل کے نام پر ہوئی۔ اور نالج کے حصول کے لیے آج کل اَن گنت ذرائع، ٹُولزدست یاب ہیں، صرف استعمال کا ہنر، سلیقہ آنا چاہیے۔
رُوح کانپ گئی!!
سیّدہ تحسین عابدی کی تحریر ’’غیرت کے نام پر قتل، غیرت کا قتل‘‘ ایک انتہائی فکرانگیز، چشم کُشا تحریر تھی۔ پڑھ کے رُوح کانپ گئی۔ عابدی صاحبہ تو خُود حکومت کا حصّہ ہیں، تو بحیثیت خاتون اُنہیں قبیح، فرسودہ قبائلی روایات کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔ اب خواتین باشعور ہیں، علم و ادراک رکھتی ہیں، تو اُنہیں مل کے اپنے اصل حقوق کے حصول کی جدوجہد کرنی چاہیے اور اس ضمن میں ذرائع ابلاغ کا کردار بھی بہت اہم ہے۔
میرا خیال ہے کہ اُن کی یہ ’’رپورٹ‘‘ پڑھ کے ہم میں سے ہرا یک کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور ہم میں سے ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے شہر یا گاؤں یا محلے میں مثبت سوچ رکھنے والے والے افراد کو تلاش کرکے یک جا کریں اور ایسے گروپ بنائیں، جو بےانصافی کی شکار ایسی خواتین کو انصاف فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
پاکستان ایک تسلیم شدہ ریاست ہے، جہاں باقاعدہ عدالتی نظام موجود ہے، تو پھر اِس طرح کوئی بھی شخص سرِعام قانون کیسے اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے۔ (منصور وقار، پیر الہیٰ بخش کالونی، کراچی)
ج: آپ نے غالباً واقعے کی ویڈیو ملاحظہ نہیں کی، دیکھ کے صرف رُوح کانپتی نہیں، فنا ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ ویسے اِس مُلک میں رہتے ہوئے، سرِعام قانون اپنے ہاتھ میں لینے جیسا سوال کرنا بنتا تو نہیں۔
قحط کی صُورتِ حال، دنیا کی بےحسی
’’ربیع الاول ایڈیشن‘‘ موصول ہوا۔ سرِورق پر گنبدِ خضرا سے آنکھوں کو سرور، دل کو شاد کرتے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹرحافظ محمّد ثانی کی محفل میں حاضر ہوئے، جہاں وہ مقامِ محمّد ﷺ کو قرآنِ کریم کی روشنی میں اجاگر کر رہے تھے۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کے مطابق عورت کی توقیر و عزت، اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے ہی سے محفوظ ہے۔
حافظ بلال بشیر ولادتِ مصطفیٰ ﷺ سے قبل کی نشانیاں، قرآن وحدیث اور تاریخی واقعات سے ثابت کر رہے تھے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ونگ کمانڈر (ر) محبوب حیدر سحاب نے ہماری بہادر افواج کے کارہائے نمایاں گوش گزار کیے۔ منور مرزا غزہ میں قحط کی صورتِ حال، دنیا کی بے حسی اور عالمِ اسلام کی بے رُخی کا نوحہ بیان کر رہے تھے۔
’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں بھی حافظ محمّد ثانی کا نذرانۂ عقیدت موجود تھا۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں محمد عاصم بٹ کا بھوت بنگلے کا واقعہ پڑھ کر ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ تک جا پہنچے، جہاں ڈاکٹر اسرار احمد آنکھوں کی بیماریوں کے علاج، احتیاطی تدابیر کے ساتھ موجود تھے۔
’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں صنوبر خان ثانی، اسلم قریشی اور ایم نوید شمیم نے ماں، خالہ اور چچا کو خراجِ عقیدت پیش کیا، تو جمیل ادیب سید اچھی غزل لائے، نظیر فاطمہ کا افسانچہ خُوب تھا۔ منور راجپوت نئی کتابوں پر ماہرانہ تبصرہ کر رہے تھے اور ہمارے صفحے کا اعزاز رانا محمّد شاہد کے نام رہا، جب کہ ہماری چٹھی بھی شاملِ بزم تھی۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
شفّاف، پاکیزہ خیالات
جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ اِس بار میلاد النبیؐ اور یومِ دفاعِ پاکستان دونوں کی مناسبت سے اور بروز ہفتہ شائع ہوا کہ اتوار کو ادارتی اور قومی چُھٹی تھی۔ خُوب صُورت ٹائٹل، روضۂ رسولؐ سے مزیّن تھا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ’’مقامِ محمّد ﷺ، قرآنِ کریم کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے باتفصیل روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے بھی ’’15 صدیوں سےروشن آفتابِ رسالت کی کرنیں‘‘ کی سُرخی سے اپنے شفّاف، پاکیزہ خیالات کا اظہار کیا۔
پھر ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کے حوالے سے حافظ بلال بشیر، رابعہ فاطمہ اور ڈاکٹر قمرجمال نےبھی اپنے اپنے انداز سے نگارشات قلم بند کیں ۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ یومِ دفاع، 6 ستمبر کے نام رہا، جو افواجِ پاکستان کے فخر وعزم کا دن ہے۔ ونگ کمانڈر (ر) محبوب حیدر سحاب نے تفصیلات سے آگاہ کیا۔ قائدِاعظم کے آخری ایام کی رُوداد اسرار ایوبی کی تحریر کردہ تھی کہ11ستمبر بابائے قوم کا یومِ وفات ہے۔
’’حالات و واقعات‘‘ کے صفحے پر’’غزہ میں بدترین قحط، پوری انسانیت کی ناکامی‘‘ منور مرزا کی ایک چشم کُشا ثابت ہوئی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ بھی ڈاکٹرحافظ محمّد ثانی کی خُوب صُورت تحریر سے مرصّع تھا۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں، محمد عاصم بٹ کے افسانے کی آخری قسط، مدوّن و مرتّب عرفان جاوید پیش کررہے تھے۔
عرفان جاوید باذوق لکھاری ہیں اور ادیبوں سے گہرے مراسم رکھتے ہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر پروفیسر اسرار احمد نے آنکھوں کی تکالیف سے آگاہی فرمائی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ بھی دلچسپ سلسلہ ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں جویریہ شاہ رُخ کی تحریر ’’مماثلت‘‘ میں اسرائیلی جارحیت اور مسلمان ممالک کی خامشی کی روش پر تنقید کی گئی، جب کہ جمیل ادیب سید کی نظم اور نظیر فاطمہ کا ’’کیوں‘‘ بہت خوب تھے۔ (صدیق فنکار، کلمہ چوک، دھمیال روڈ، عکسری اسٹریٹ، جھاورہ، راول پنڈی کینٹ)
ج: تبصرہ آپ کا ٹھیک ہی ہوتا ہے، ہینڈ رائٹنگ بھی اچھی ہے۔ بس، ذرا الفاظ کے سانس لینے کو حاشیہ، سطر چھوڑ کے لکھنے کی عادت بھی اپنا لیں۔
فی امان اللہ
’’عالمی یومِ حِجاب ایڈیشن‘‘ کے ماہ پارہ ٹائٹل پر باحجاب ماہِ پیکر جلوہ افروز دیکھ کر، بیاضِ دل نے بےساختہ، برین وِنڈو پریہ پوئٹری ٹیکسٹ پرنٹ کردیا۔ ’’تاروں بھرے آنچل میں وہ پُرنور سا چہرہ…آکاش کی وسعتوں میں کوئی چاند ہو جیسے۔‘‘
ربیع الاوّل کی ابتدائے مبارک پر مرجّعِ خلائق صفحۂ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں اہتمامِ خاص تھا، ڈاکٹر حافظ ثانی نے مسلم اُمّہ کے مرضِ ضعیفی کی بجا تشخیص کی کہ اس کی بنیادی وجہ شریعت محمدیؐ سے انحراف ہے۔ ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کی مناسبت سے شمارۂ خاص کو اول تا آخر، پُروقار وخوش رنگ حجاب کی مہک سے معطّر پایا۔ باحجاب ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے پُرتاثیر مضمون لکھنے کی روایت برقرار رکھی۔
’’اشاعتِ خصوصی‘‘ کی جبیں پہ کنندہ اس تحریرمیں خندہ زن نسلِ نو کو باور کروایا گیا کہ حجاب کوئی شوق، فیشن، جبر یا پابندی نہیں بلکہ سرمایۂ افتحار ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ کے دوسرے مضمون کا مخاطب بھی طبقۂ نِسواں یعنی خواتین تھیں۔ قیام و استحکامِ پاکستان کےلیےقومی خواتین رہنماؤں کی داستانِ جرأت کو ولولہ انگیز و تحسین آمیز پیرائے میں بیان کیا گیا۔
بیگم و لیاقت علی خان کی خُوب صُورت تصویر (جس میں وہ مسند نشین اہلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں) شائع کر کے، طبقۂ مرداں کے دل میں، خواتین کی تکریم اور بااختیاری کا احساس جاگزین کرنا اچھا لگا۔ سوشل رائٹر، رؤف ظفر نے منہگی ادویہ سے متعلق ’’فیچر‘‘ میں قارئین سے یہ رُوح فرسا خبر شیئر کی کہ کچھ خُود غرض پریکٹیشنرز، نام نہاد ڈاکٹرز مخصوص و زائد ادویہ تجویز کر کے، بدلے میں گفٹ /عُمرہ ٹکٹ پاتے ہیں، ایہہ تے اوہ گل ہوئی کہ ’’نو سو چوہے کھا کے بِلی حج نُوں چلی۔‘‘
’’صفحاتِ اسٹائل‘‘ میں کلر فُل حجاب، اگر جِدّت و نفاست کا حسین امتزاج تھے، تو دینی روایت کا دِل کش اظہار بھی۔ سیاستِ عالم کے حکیم لقمان، منورمرزا کے پُرمغز آرٹیکل (ٹیرف کی سیاست) کا عقلِ سلیم نے یہ خلاصہ نِکالا کہ حکومت کو آئی ایم ایف /ٹرمپ سے فیض یاب ہونے کے ساتھ عوامی شفایابی بھی مَدِّ نظر رکھنی چاہیے۔
عرفان جاوید کی بھی نظرِ انتخاب اِک فسانۂ نِسواں ’’عورت‘‘ پر پڑی، اور سونے پہ سہاگا اس کی رائٹر بھی خاتون (نیلوفر اقبال) تھیں۔ ’’رنگ سانولا، چہرہ لمبوترا، آنکھیں بڑی بڑی، اور سیاہ آب شار کی طرح کمرسے نیچے تک لمبے، گھنےبال‘‘ ، افسانے کی ہیروئین ’’ریحانہ‘‘ کا جمالی نقشہ یُوں کھینچا گیا تھا۔ اور آفرین کہ ساتھ پکچر بھی ہوبَہو تھی۔
سندر و سندس صفحہ’’پیارا گھر‘‘بھی خوش بوئے حجاب سے مُشک بار تھا، جہاں صنفِ نازک کو یہ حوصلہ افزاسندیس دیا گیا کہ صلاحیتیں نکھارنے میں پردہ مانع نہیں، وہیں مغربی کلچر کی اندھی تقلید سےگریز پا ہونے کی نصیحت بھی کی گئی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی ڈال تو حجاب کی آن، بان، شان کے پھول، کلیوں اور غنچوں سے لدی تھی۔
ویسے اگر سبھی دخترانِ مشرق راسخ العقیدہ ہو جائیں، تودفترانِ این جی اوز کے دَراُکھڑ، دیواریں اُدھڑ اورچھتیں بکھرجاویں گے۔ ’’کتاب میلے‘‘ میں سجی اِک کتاب ’’تیرے خط، تِری خوش بُو‘‘ کا تعارف پڑھ کر دلِ راجا، صدائے رفیع سے ہم آہنگ ہوگیا۔
’’لکھے جو خط تجھے، وہ تیری یاد میں، ہزاروں رنگ کے نظارے بن گئے…‘‘ بزمِ احباب’’آپ کا صفحہ‘‘ میں شہزادہ، برقی، اسلم و صبور، اور زاہد و منصور سبھی کے سلامِ عرض پیارے پیارے اور مدیرہ کے جوابِ عرض کرارے کرارے، کرارے تھے۔ ہاہاہا !!! (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
* شمارے کا مطالعہ آتی بہار کے ایک سہانے دن پنک اینڈ وائٹ پھولوں سے ڈھکے درختوں کی چھائوں میں بیٹھ کے کیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کےصفحے پرمولانا قاسم کی اُم المومنین سیدہ خدیجہؓ پہ شان دارتحریر پڑھنے کوملی۔ حضرت خدیجہؓ پہ ایسی جامع تحریر اِس سے پہلے کبھی نہیں پڑھی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پہ عبایا، اسکارفس سے مزیّن مہمان سہیلیاں بہت ہی بھلی لگیں۔
ذوالفقارچیمہ کی داستانِ حیات کا تو کوئی مول ہی نہیں اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے ڈاکٹر عبدالحمید اور محمّد سلام کو بہترین جوابات دیئے۔ اگلے شمارے میں منور مرزا پاک، امریکا تعلقات پر روشنی ڈال رہے تھے، مضمون بہت ہی توجّہ سے پڑھا۔ رؤف ظفر نے جدید تحقیق کی روشنی میں فاسٹنگ کے فوائد گنوائے۔
’’سینٹراسپریڈ‘‘ پر آپ نےجو شان داررائٹ اَپ لکھا، بخدا پڑھ کررُوح سرشار ہوگئی۔ ذوالفقار چیمہ دو دل چسپ کہانیوں کے ساتھ آئے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانہ پڑھ کے خیال آیا کہ ہمیں بھی ایسی ہی کسی لوڈشیڈنگ کی اشد ضروت ہے۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ کا یہ جملہ پڑھ کے بہت ہنسی آئی کہ’’کراچی کی سڑکوں کی مرمت تب ہی ہوگی، جب عوام کی ایک بار صحیح سے مرمت ہوگی۔
ہاہاہاہا… تیسرے شمارے میں رابعہ فاطمہ کی ’’ماحولیاتی بُحران اور دینی تعلیمات‘‘ لاجواب تحریر تھی۔ اےکاش! پاکستانی قوم کچھ سبق سیکھ لے۔ ڈاکٹر قمرعباس جون ایلیا پہ شان دار تحریر لائے۔ ’’اسٹائل بزم‘‘ مخُوب صُورت پہناووں سے سجی تھی۔ مدثر اعجاز’’یورپ کے دستور‘‘بتارہے تھے، امریکی کلچر بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ کبھی سوچتی ہوں کہ یہاں کے موسم، تہواروں یا کلچر پرایک مضمون لکھ کے بھیجوں۔
افسانہ’’زہرِ تنہائی‘‘ بہت ہی پسند آیا۔ میرے پاس بھی 6 سال سے ایک بلی ہے، جو گھرکےایک فرد ہی کی طرح ہے۔ اس بار محسن بھوپالی کےسمدھی کا ایک خط بھی شامل تھا، جس کاجواب پڑھ کے مجھے تو ہنسی کا دورہ ہی پڑگیا۔ اگلے جریدے میں نصرت داسو کا مضمون پڑھا۔ کیا عُمدہ تحریر تھی، دل خوش ہوگیا۔ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات ٹراؤزرز، کُرتیوں سے سجے تھے۔ پچھلے ہفتے کا شوٹ بھی کچھ اسی طرح کا تھا۔
افسانہ ’’ٹھپا‘‘ بہت پسند آیا، بس ایک جملہ کچھ نامعقول سا لگا کہ ’’سب سے پہلی کرسی پہ اپنے ہونٹوں کا ٹھپا لگایا، پھر مُہرکا‘‘۔ رونق افروز نےخط میں میرا تذکرہ کیا، پڑھ کے دل خوش ہوگیا۔ برستی بارش میں شمارہ موصول ہوا تو مطالعے کا مزہ دوبالا ہوگیا۔ ’’بلوچستان کی قومی خونی شاہراہیں‘‘ پڑھی،اللہ سب کو حفظ و امان میں رکھے۔ ثانیہ انوارماہِ مئی کےاہم عالمی ایام کےمتعلق بہت عُمدہ انداز سے بتارہی تھیں۔
’’روٹی بندہ کھا جاندی آئے‘‘ پڑھ کے تو مَیں ٹھہر ہی گئی۔ ذوالفقارچیمہ کی سوانح عُمری، 30 قسطوں پہ مشتمل ایک بہترین سلسلہ انجام کو پہنچا۔ ’’اسٹائل‘‘پر فیروزی رنگ کی میکسی ڈھونڈے سے نہیں ملی۔ شاید پرنٹنگ میں رنگ تبدیل ہوگیا۔ افسانہ’’کالی کلوٹی‘‘ پاکستانی معاشرے کا ایک بدصُورت پہلو اجاگر کررہا تھا، یہاں تو رنگت ڈارک (ٹین) کرنے کے لاکھ جتن کیے جاتےہیں۔ ایک عرصے بعد پروفیسر منصور کا خط پڑھ کے بہت خوشی ہوئی۔ آخر میں ایک فرمایش کہ میگزین کن کن مراحل سےگزرکر ہمارے پاس پہنچتا ہے، اس موضوع پر بھی ایک تحریر لکھوائیں۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)
ج: تمھاری نہ جانے کتنی ہی میلز کا یہ ملغوبا سا بنا دیا ہے کہ آئندہ شایع ہونے والی ای میلز کچھ تو اَپ ڈیٹد ہوں۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk