بات اگر ووٹ پر آ جائے تو تمام تر مشکلات کے باوجود آج بھی تمام سروے یہی کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کی مقبولیت برقرار ہے جسکی ایک تازہ مثال حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنا اور پنجاب حکومت کا بلدیاتی نظام میں بڑی بنیادی نوعیت کی تبدیلی کرنا نظر آتا ہے۔ بظاہر نہ پی ٹی آئی کو اور نہ ہی بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم کو کوئی ریلیف ملنے کا امکان نظر آتا ہے۔ جسکی ایک بڑی وجہ جہاں ریاستی دبائو ہے تو دوسری طرف خود جماعت کی سیاسی حکمت عملی میں مسلسل ناکامی ہے۔ ایسے میں کے پی کے نئے وزیراعلیٰ نوجوان سہیل آفریدی ایسا کیا مختلف کریں گے جو سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نہ کر پائے۔
نومبر کی سردی میں سیاست کی گرمی ہماری سیاست میں نئی بات نہیں اپوزیشن کی کئی اور جماعتوں نے بھی جلسوں کا اعلان کیا ہے خاص طور پر جمعیت علما اسلام اور جماعت اسلامی مگر اصل امتحان بہرحال پی ٹی آئی کا ہے اور اسکی اتحادی تحریک تحفظ آئین، جس نے کراچی سے تحریک کا آغاز کرنے کا اعلان کیا۔ اس شہر کی شہرت ماضی میں اپوزیشن کے شہر کی رہی ہے۔
سہیل آفریدی نے خود ہی اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ وہ احتجاجی سیاست کے چیمپئن ہیں ایسے میں کچھ دوستوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں وہ کوئی سیاسی خود کش حملہ نہ کر دیں کیونکہ ماضی کی تحریکوں بشمول خود پی ٹی آئی کی 2013کی تحریک کو اس وقت کے طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل رہی مگر اس بار معاملہ مختلف ہے یہ ’تحریک‘ حکومت کے خلاف کم اور طاقت ور اسٹیبلشمنٹ پر دبائو بڑھانے کیلئے زیادہ ہے تاکہ مسلم لیگ (ن) یا شریفوں اور مقتدرہ کے بظاہر ’اتحاد‘ کو توڑا جا سکے جبکہ دوسری طرف سے اب تک ’سوری، نو ٹاک‘ کا ہی جواب آ رہا ہے ۔ ویسے بھی سال 2025ءبادی النظر میں ’سول ملٹری‘ تعلقات کے حوالے سے بہتر رہا جس کی ایک بڑی وجہ بین الاقوامی سطح پرہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ مئی میں بھارت کے ساتھ جنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال، پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں غیر معمولی گرم جوشی رہی جبکہ امریکی انتخابات میں خود پی ٹی آئی کے کیمپوں میں یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے سے موجودہ حکومت کی مشکل میں اضافہ ہو گا او عمران کیلئے آسانیاں۔ تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا اور یہ سوال خود پی ٹی آئی کے اندر جاننے کی ضرورت ہے۔
پی ٹی آئی کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عام طور پر حکومت یا مقتدرہ اور خود بین الاقوامی سطح پر ان باتوں کو اس وقت محسوس کیا جاتا ہے جب اندرون ملک آپ یعنی اپوزیشن ایسا دبائو لانے میں کامیاب ہوں۔ موجودہ حکمران ’سیٹ اپ‘ نے ہر اس راستے پر نقب لگائی ہوئی ہے جہاں سے ہل جل ہوتی ہے۔ سول ملٹری تعلقات 2008ءکے بعد سے سب سے مستحکم ہیں تو دوسری طرف پچھلے دو ڈھائی سال میں پی ٹی آئی نے جب بھی دھرنے کی کال دی وہ شو تحریک میں نہیں بدل سکا۔ آخری بڑی کوشش بانی کی ’فائنل کال‘ تھی جو نومبر 2024ءکو دی تھی اس میں ایک طرف مبینہ طور پر ’ریاستی طاقت‘ کا استعمال تھا تو دوسری طرف پی ٹی آئی کی سیاست کی کنفیوژن ۔یہ کال علی امین گنڈا پور اور علیمہ خان کی سیاسی کشمکش کا شکار ہو گئی ورنہ اگر یہ بات درست مان لی جائے کہ کئی ’لاشیں‘ گری تھیں تو پھر تحریک اچانک ماند کیوں پڑ گئی اسکے بعد تو ’ملک گیر ہڑتال‘ کی کال دی تھی جیسا کہ ہم نے 1977ءمیں دیکھا تھا جب پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران 9اپریل کو لاہور میں گولی چل گئی تھی جس سے کئی افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس سے قبل جب 9مئی ہوا اور جس کا ریاستی ردعمل آج تک موجود ہے اگر اس وقت خان اس سے لاتعلقی کا اعلان کر کے کچھ تنظیمی سطح پر کارروائی کرتے تو شاید کچھ برف پگھل جاتی۔ ایسا لگتا ہے پچھلے دو ڈھائی سال میں پی ٹی آئی کی جو سیاسی قیادت باہر ہے وہ یا تو سیاسی حکمت عملی بنانے میں کمزور اور ناتجربہ کار ہے یا پھر خان کی توقع پر پورا نہیں اتر پا رہی۔
ان سب سیاسی خامیوں کے باوجود موجودہ حکمران اتحاد عوامی سطح پر پی ٹی آئی کا توڑ نہیں نکال پا رہے حالانکہ اعلیٰ عدلیہ سے لے کر میڈیا تک سب ’قابو‘ میں ہیں۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی میں سرد جنگ تو ہو سکتی ہے مگر بات حکومت سے باہر نکلنے تک جا نہیں سکتی جب تک ’ایمپائر‘ موجود ہے۔ تیسرے اتحادی ایم کیو ایم (پاکستان) کا حال کچھ ایسا ہے کہ ’رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا ‘ تاہم اس سب کے باوجود نہ حکومت کا ’ہائوس ان آرڈر‘ ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا اور اسی ’ڈس آرڈر‘ نے اس ہائبرڈ نظام کو مضبوط کیا ہے۔ سب سے حیران کن ردعمل یا سیاست عدلیہ اور بار میں نظر آئی۔ ایسا لگتا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کی قبولیت کے بعد 27 ویں ترمیم لانے میں بھی کوئی خاص دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ورنہ جو کچھ ان دو ڈھائی برسوں میں سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں اور بعض ججزز کے ساتھ ہوا وہ کسی بھی بڑی وکلا تحریک میں بدل سکتا تھا۔
بانی پی ٹی آئی نے تو خیر پچھلے ڈھائی سال اڈیالہ جیل کے بیرک 804میں رہ کر اپنے سیاسی مخالفین کے اس حوالے سے تو منہ بند کر دیے کہ یہ چند دن بھی جیل میں نہیں گزار سکتا۔ مگر معاملات پر سخت موقف کی وجہ سے خود سیاسی طور پر ان کو نقصان ہوا۔ سیاست میں ’مذاکرات‘ ،’کل کے دشمن آج کے دوست‘ اور ایک مربوط پروگرام کے ساتھ تحریک کا آغاز کرنا شامل ہوتا ہے۔ شائد 8فروری کے انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھرنا پی ٹی آئی کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھا مگر اس اسٹیج پر تحریک انصاف صرف پی پی پی سے مذاکرات کا آغاز ہی کر دیتی تو مسلم لیگ (ن) ہی نہیں خود غیر سیاسی حلقوں میں بھی کھلبلی مچ جاتی۔ اسی طرح اگر ’تحریک تحفظ آئین‘کے تحت محمود خان اچکزئی کی قیادت میں جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے ساتھ وسیع تر اتحاد قائم ہوتا تو حکومت اور خود مقتدرہ پر دبائو بڑھ سکتا تھا۔
اب اگر سہیل آفریدی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا ہے تو اسے اپنی سوچ کے مطابق کابینہ تو بنانے دیں۔ یہی حال پارٹی کی سیاسی کمیٹی کا ہے اور شائد ان سارے عوامل نے مل کر پارٹی کو ایک ایسے موڑ پر کھڑا کر دیا ہے جہاں تمام تر ووٹ بینک ہونے کے باوجود اور حکومت کی بعض ناقص پالیسیوں، جنہوں نے پی ٹی آئی کو مضبوط اور حکمران اتحاد کو عوامی سطح پر کمزور کیا ہے اب تک اپوزیشن کوئی مضبوط تحریک نہیں چلا پائی ۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ آئندہ ماہ شروع ہونے والی ’تحریک‘ کوئی مضبوط مزاحتمی تحریک میں بدل پائے گی یا نومبر کے بعد پھر ایک لمبابریک آ جائے گا جہاں تک مسلم لیگ (ن) ، پی پی پی اور کسی حد تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے وہ اب تک پی ٹی آئی کا ووٹ بینک توڑنے میں ناکام نظر آتی ہیں مگر شاید انہیں پھر یقین ہے کسی فارم 47- پر۔