• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ حجام کی دکانوں پر کوئی نوجوان لڑکا غور سے اُستاد کو گاہکوں کے بال کاٹتے، شیوکرتے دیکھتارہتاہے۔ یہ نئے لڑکے کی تربیت کاایک حصہ ہوتا ہے۔ کچھ دنوں بعدیہ لڑکا بھی ٹرینڈ ہوجاتاہے اور جونیئراُستاد بن جاتاہے۔ایسازندگی کے ہرشعبے میں ہوتاہے۔پریکٹیکل کو ہوتے دیکھنا تھیوری سے زیادہ کارآمدثابت ہوتاہے۔اسی لیے جو لوگ ڈاکٹروں کے پاس ریگولرجاتے ہیں وہ خود بھی نیم حکیم بن جاتے ہیں۔آج کل تو یہ حال ہے کہ لوگ کسی بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس توجاتے ہیں لیکن اکثر اُسے بتا دیتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں دوائی استعمال کر چکے ہیں۔ڈاکٹر حیرانی سے دیکھتا رہ جاتاہے کہ یہ تو میں نے نسخے میں لکھنی تھی۔عوام کو آدھی سے زیادہ دوائیوں کے نام زبانی یاد ہوچکے ہیں باقی انہوں نے گوگل کرلیے ہیں بلکہ اب تو اے آئی بھی اس مدد کیلئے حاضرہے۔سیلف میڈیکیشن ایک خطرناک رجحان ہے لیکن جنکے پاس اسپیشلسٹ کی بھاری فیس ادا کرنے کی استطاعت نہیں ہوتی وہ اپنے جیسے کسی مریض سے پوچھ کروہی دوائیاں استعمال کرنے لگتے ہیں۔سردرد، بخار، ڈپریشن، زکام، نیند کی کمی،گلا خراب، معدے کے مسائل، گیس، آنکھوں میں چبھن، پیٹ درد، جسمانی نقاہت، بلڈ پریشروغیر ہ کیلئے کون سی دوائی لینی چاہیے یہ بات کام کرنے والی ماسی کو بھی یاد ہے۔اب ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت اسی وقت پیش آتی ہے جب معاملہ اپنی بے احتیاطی سے زیادہ بگڑ جائے۔ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جوڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، پوری فیس دیتے ہیں، دوائی لاتے ہیں لیکن استعمال صرف اپنے دیسی نسخے کرتے ہیں۔

٭٭٭٭

ایس پی عدیل اکبر کی خودکشی کئی یوٹیوبروں کیلئے بھرپورویوزکاباعث بن رہی ہے۔ چونکہ ابھی تک وجوہات کا پتانہیں چل پایا لہٰذا جوسب سے بڑی وجہ اکثر یوٹیوبرز نے ڈھونڈی ہے وہ یہ ہے کہ عدیل اکبر پرسینئرافسران کا بہت دباؤ تھا۔ آئی جی اسلام آباد کے سخت رویے کا ذکر کیا گیا اور بریکنگ نیوز کے طورپر بتایا گیا کہ مبینہ طورپر عدیل اکبر کو آخری کال آئی جی اسلام آباد نے کی تھی۔ گویاآئی جی ہی اس سارے وقوعہ کے ذمہ دار ہیں۔ کون سا ایسا ادارہ ہے جہاں دباؤ نہیں ہوتا؟ اور پھرپولیس اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں میں تو قدم قدم پر دباؤ برداشت کرنا پڑتاہے۔ سی ایس ایس کرنیوالے صرف مراعات اور اعلیٰ پوزیشنوں کیلئے نہیں ہوتے، اِنہیں دباؤبھی برداشت کرنا ہوتاہے اوراگرکسی کیلئے یہ سب مشکل ہے تو ایک آسان سا طریقہ ہے کہ نوکری چھوڑ دیں۔دباؤسے تو آئی جی اسلام آباد بھی مبرانہیں۔پوری قوم چونکا دینے والی تھیوریاں گھڑنے میں ماہر بنتی جارہی ہے۔عدیل اکبرکے ماہرنفسیات ڈاکٹر حافظ سلطان محمد کی چندباتوں کو لے کر شور مچا ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے مریض کی ہسٹری کیوں لیک کی۔کون سی ہسٹری لیک کی ہے؟ کیا انہوں نے بتایا کہ عدیل اکبر کی پریشانی کیا تھی؟ کس وجہ سے ڈپریشن میں تھے؟ کس بندے یا بندی کی وجہ سے پریشان تھے؟ ایساتو کچھ نہیں بتایا۔انہوں نے تو عمومی سی باتیں بتائی ہیں لیکن سوشل میڈیا کو یہ بھی قبول نہیں لہٰذا انہوں نے اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کردی۔ ڈاکٹر صاحب اگرخاموش رہتے تب بھی سوشل میڈیانے ان پر اعتراض کرنے تھے۔ڈپریشن اور انزائٹی کو سمجھنے والے جانتے ہوں گے کہ اس میں کئی ایسے فیز بھی آتے ہیں جب انسان بغیر کسی وجہ کے اپنی جان لینے پر بھی تل جاتاہے اوراسے خود بھی پتا نہیں ہوتا کہ وہ کیاکر رہا ہے۔

٭٭٭٭

جنسی جرائم پر سی سی ڈی کے ایکشنز آئے دن سوشل میڈیا پرنظر آتے رہتے ہیں اور عوام الناس سے داد بھی پارہے ہیں تاہم اس پر ہمارے دوست اور معروف صحافی سبوخ سید نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک تبصرے میں کچھ نیاحل تجویز کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ فطری تقاضوں کو جبرکے ذریعے ختم کرنے کی بجائے انکافطری حل تلاش کیا جانا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ بھوک سے تڑپتے معاشرے میں جہاں روٹی نظر آئے گی لوگ دیوانہ وار لپکیں گے۔انہیں بھوک سے نجات دلانے کاانتظام کرنا چاہئے۔ شیر کا پیٹ بھرا ہوتو وہ حملہ نہیں کرتا۔بے شمار جرائم ایسے ہیں جو انسان کے اندر پل رہے ہوتے ہیں لیکن سزا کا خوف حاوی رہتا ہے۔ ایسا خوف صرف موقع کی تلاش میں ہوتاہے۔ یہ خوف اگر بیزاری یا نارمیلٹی میں بدل دیا جائے تو شائدکچھ جرائم بہت کم رہ جائیں۔ایک دور تھا جب وی سی آر پرلوگ فلم دیکھتے تھے تو پوری رات جاگ کر چار کیسٹیں دیکھ کر ہی اٹھتے تھے کیونکہ کرایہ ادا کیا ہوتاتھا۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ اب فلم قسطوں میں اور سکون سے دیکھی جاتی ہے کیونکہ پتاہے کہ ہروقت میسر ہے۔

٭٭٭٭

سردیاں دہلیز پر کھڑی ہیں لیکن وہ بارشیں جو پہلے جان نہیں چھوڑ رہی تھیں ا ب منہ بسورے کھڑی ہیں حالانکہ بارش کا ایک چابک لگنے کی دیر ہے کہ سردی بگٹٹ دوڑنے لگے گی۔ویسے تو شام اور رات کے اوقات میں ٹھنڈ محسوس ہونے لگی ہے لیکن ابھی شرمو شرمی کئی لوگ سوئیٹرپہننے سے اجتناب کر رہے ہیں اور اسی انتظار میں ہیں کہ’پہلے آپ‘۔جس دن چار بندوں نے سویٹر پہنا، اگلے دن چھ پہنیں گے اور پھرچل سو چل۔اسموکرز کیلئے سردیاں کسی نعمت سے کم نہیں کیونکہ گرمیوں میں اُنہیں شکوہٰ رہتا ہے کہ آدھا سگریٹ تو پنکھا پی جاتاہے۔کافی پینے والے بھی خوش ہیں کہ سرد موسم کی کافی شاہ حسین اور بلھے شاہ کی کافی جیسا مزا دیتی ہے البتہ غریب کیلئے چائے ہی کافی ہے۔پنکھے اور اے سی بندہونے سے فضا میں سکوتِ مرگ طاری ہوگیاہے۔پہلے ڈور بیل بھی بجتی تھی تو آنکھ نہیں کھلتی تھی اب توکبھی کبھار دور سے ٹرین کی سیٹی بھی سنائی دینے لگی ہے۔ بقول منیرنیازی

صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیرؔ

ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا

تازہ ترین