• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک سیانے آدمی نے کسی بدّو سے کہا’’ کیا میں تمہیں ایسی تین باتیں نہ بتاؤں جن پر عمل کرنے سے تم اپنی زندگی میں ہمیشہ کیلئے خوش رہ سکو گے؟‘‘ بدّو نے ایک لمحے کیلئےسوچا اور پھر جواب دیا’’نہیں!‘‘

آج کل میری کیفیت اِس بدو جیسی ہی ہے، جوشخص بھی مجھے عقل کی کوئی بات بتانےکی کوشش کرتا ہے، میں اسے منع کردیتا ہوں، شاید اِسکی وجہ یہ ہے کہ حد سے زیادہ سوچ سوچ کر میں اِس دنیا کے مستقبل سے مایوس ہو چکا ہوں لہٰذا اب ذاتی طور پر مجھے کسی بات کی پروا نہیں رہی۔ آپ شاید یقین نہ کریں مگر مستقبل کے حوالے سے میرا مطمح نظر تبدیل ہو چکا ہے، پہلے Fear of the unknown تھا جبکہ اب Fear of the known ہے جو نسبتاً بہتر کیفیت ہے، یہ اور بات ہے کہ انسان کو کبھی وہ نروان نہیں مل سکتا جسکے بعد اسے دنیا کی آلائشوں اور پریشانیوں سے مُکتی مل جائے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ مجھے قنوطی سمجھیں لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ جب سے دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہوئی ہے، میری پریشانی میں ’خواہ مخواہ‘ اضافہ ہوگیا ہے، ایسے جیسے اِس آبادی کا میں ذمہ دار ہوں! میں یہ سوچ کر لرز جاتا ہوں کہ جب یہ آٹھ ارب انسان اِس زمین پر کھائیں گے،پئیں گے، کپڑے پہنیں گے، گاڑیوں اور جہازوں میں سفر کریں گے تو کرہ ارض کا کیاحال ہوگا۔ اِس بات کا اندازہ یوں لگائیں کہ 1950 میں دنیا کی آبادی آج سے تین گنا کم تھی، آج یہ آٹھ ارب ہے اور 2050 میں یہ تقریباً د س ارب ہوجائے گی۔ آبادی کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی نےبھی مجھے خاصا پریشان کر رکھاہے، جس تیز رفتاری سے گلیشیر پگھل رہے ہیں، جس طرح درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور جیسے ہر گزرتے دن کے ساتھ موسموں میں شدت آتی جا رہی ہے،اُسے دیکھ کرکوئی دودھ پیتا بچہ بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ آئندہ بیس تیس برسوں میں زمین کی حالت کیا ہوگی۔اورایسا بھی نہیں ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان جیسے غریب ملک میں ہورہا ہے، موسمیاتی آلودگی کا سامنا دنیا کے تمام ممالک کررہے ہیں، فرق صرف اتناہے کہ پاکستان میں اِس کا اثر شدت کے ساتھ ہورہا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک اپنے محل وقوع کی وجہ سے فی الوقت بچے ہوئے ہیں، مگر اُن کے پاس بھی زیادہ وقت نہیں، اگر آئندہ چند برسوں میں اِن ممالک نے زمین کا درجہ حرارت قابو میں نہ رکھا، جس کا امکان دور دور تک نظر نہیں آ رہا، تو پھر موسمیاتی آلودگی کا جن بالکل ہی بے قابو ہوجائیگا ۔

یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے یوں لگ رہا ہے کہ میں نے کچھ زیادہ ہی نحوست بھری باتیں لکھ دی ہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ اِن میں سے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جو اِس سے پہلے مجھ سے زیادہ کسی سیانے نے نہ کی ہو۔ اِس مرتبہ جب سیلاب نے خوفناک تباہی مچائی تو پاکستان کو اندازہ ہوا کہ ماحولیاتی آلودگی کس قدر بھیانک چیز ہے۔ پھر ہم نے بہت شور مچایا، ہاؤ ہو کی، تب کہیں جا کر دنیا کے سر پر جوں رینگی اور یوں سمجھیں کہ بس جوں ہی رینگی، کچھ ملکوں نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارکر چند سو ملین ڈالر کی امداد ہماری جھولی میں یوں ڈال دی جیسے ٹریفک کے اشارے پر کھڑی ہوئی کار کا مالک گداگروں سے جان چھڑانےکیلئےانہیں سوپچاس دے دیتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے برپا ہونے والی قیامت کے بارے میں ہماری خوش فہمی ہے کہ یہ بہرحال وہ قیامت نہیں ہو گی جس سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے حالانکہ یہ وہی قیامت ہے، اور جس دن یہ قیامت آئی اُس دن ارب پتی لوگ ایک دوسرے کو فون پر اطلاع دے کر یوں تسلی دینگے کہ ”ہاں میں نے بھی قیامت کا سنا ہے، اپنے اسٹاک بروکر کو کہا ہے کہ فوراً قیامت لمیٹڈ کمپنی کے شیئرز خرید لو، بیوی بچوں کو محفوظ لوکیشن پر بھیج دیا ہے اور اپنے لیے ایک ایمرجنسی کِٹ تیار کروا کے زیر زمین بنکر میں منتقل ہو رہا ہوں، کل وہیں آ جانا گپ لگائیں گے۔“ ویسے یہ بات اب مذاق نہیں رہی، دنیا کے ارب پتیوں نے نا گہانی آفات سے خود کو بچانے کیلئے عالیشان بنکرز تعمیر کروا لیے ہیں جہاں وہ قیامت آنے کے بعد شفٹ ہو جائیں گے۔

دنیا میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور آبادی میں میرا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اِس کے باوجود نہ جانے کیوں میں اِن دونوں مسائل کے بارے میں کچھ زیادہ ہی فکر مند رہتا ہوں، حالانکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اِس موضوع پر، ماسوائے لکھنے کے، میں اور کچھ نہیں کرسکتا، سو وہی کر رہا ہوں۔ شاید اِس کی وجہ نومبر کی آمد ہے، لاہور میں اسموگ شروع ہو چکی ہے اور اِس شہر میں رہنا کم از کم اگلے تین ماہ تک عذاب بن جائے گا۔ کل شام ایک ڈنر سے واپسی پر میں نے لاہور کی سڑکوں پر گاڑیوں کی قطاریں دیکھیں، یہ رش میرے لیے نیا نہیں مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ رش اذیت ناک ہو رہا ہے اوریہ شہر ہماری نظروں کے سامنے برباد ہو رہا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں میں گاڑیوں کا ہجوم نظر آتا ہے مگر ایسی آپا دھاپی اور نفسا نفسی کا عالم نظر نہیں آتا حالانکہ لاہور کی سڑکیں بے حد کشادہ ہیں۔ لاہور جیسے شہر کے بارے میں یہ جملے لکھتے وقت دل ڈوب جاتا ہے، ہماری آنکھوں کے سامنے اِس شہر کو زوال آیا ہے اور ہم کچھ نہیں کر سکے۔ ادھر لوگوں کا حال بالکل اُس بدو جیسا ہے جو اپنے فائدے کی بھی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ اِن حالات میں کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ جن لوگوں کو ماحولیاتی آلودگی اور آبادی جیسے گمبھیر مسائل کا ادراک نہیں، وہ اُن لوگوں کی نسبت اپنی زندگیوں میں زیادہ Chill (مستی) کر رہے ہیں جو اِس قسم کے مسائل کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان رہتے ہیں ۔ بقول میر تقی میر: ’وہ وہم میں نہ گزرا کبھی اہلِ ہوش کے، دنیا سے لطف ِزیست جو دیوانہ لے گیا۔‘ میر کے اِتباع میں اب میں نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے کہ اِس دنیا سے فقط لطفِ زیست لیا جائےاور یہ لطف صرف دیوانگی میں ہی ممکن ہے اور دیوانے کو چونکہ فائدے اور نقصان سے کوئی غرض نہیں ہوتی اِسلئے اُس بدّو کی طرح اب مجھے بھی اپنی زندگی بہتر بنانے کیلئے کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں، جو سب کے ساتھ ہوگا وہی ہمارے ساتھ بھی ہو جائے گا، فکر کس بات کی!

تازہ ترین