آپ کے نیاز مند نے منہ زور جوانی، دنیائے گناہ پرلطف اور بحر اشتراکی فکر کی برمودا تکون میں ایک ساتھ قدم رکھا۔ جوانی کو آںجہانی ہوئے مدت ہوئی۔ دنیائے گناہ کی سیاحت خوب اور مرغوب رہی تاہم ایک عرصے سے ہاتھ کو جنبش نہیں، آنکھ میں وہ کوندہ باقی نہیں رہا جو کبھی پارہ دل میں جادوئی ارتعاش کا اثر رکھتا تھا، سو ان دنوں محض بدنیتی پر بسر اوقات ہے۔ اشتراکی فکر کے پانیوں پر یہ المیہ گزرا کہ ایک وقت میں راہِ سلوک پر ارتکاز عقیدت باندھ کر سیدھی سمت چلنے کی بجائے نظریاتی منظر کے دونوں گل ہائے رخ پر بیک وقت نقدو نظر کا ارادہ کیا۔ قربانت شوم۔ تصویر کے دونوں پہلوئوں میں تاریکی اور روشنی کا ایک سا تناسب پایا۔ چنانچہ دونوں خیموں سے بیک بینی و دو گوش خارج ہوئے۔ اک دولت دشنام ہے اور ہم ہیں دوستو! اس دولت کو اندیشہ زوال نہیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ حافظہ غداری کر رہا ہے، نسیاں نے کلبہ خیال میں نقب لگا رکھی ہے۔ بات کہیں سے شروع ہوتی ہے اور کہیں نکل جاتی ہے۔ آج آپ کو سرد جنگ کے کچھ قصے سنانا ہیں۔ ستر کی دہائی میں جس انقلابی قلم کار کی تحریر نظر نواز ہوتی، اس میں امریکی کامکس کا گلہ ضرور ملتا۔سرد جنگ میں امریکا نے تخلیقی منظر پر جو محاذ کھولے ان میں مذہب پسندی ، طنز ، تصویری مزاح اور ادبی کشمکش بھی شامل تھی۔ 1952ء میں MAD کے نام سے ایک پرچہ شروع کیا گیا جس میں غیر محسوس طریقے سے اشتراکی دنیا پر طنزیہ تبصرے کئے جاتے تھے ۔ اشتراکی دوست کہتے تھے کہ ان تصویری خاکوں سے بچوں کا تنقیدی شعور متاثر ہوتا ہے اور سطحیت جنم لیتی ہے۔ اصل مشکل یہ تھی کہ سوویت یونین میں تو طنز کی کاٹ تو ایک طرف، مایا کووسکی، مینڈل سٹام، پاسٹر ناک اور آنا اخماتوا کے لیے بھی جگہ نہیں تھی۔ وہاں آرٹسٹ کے طنزیہ اظہار کیلئے گنجائش کیسے نکلتی۔ 1963 ء میں ایک فلم بنائی گئی۔ world It is a mad mad mad mad ۔ کھائی میں گری گاڑی کا ڈرائیور مرنے سے پہلے تماشائیوں کو بتاتا ہے کہ اس نے کئی لاکھ ڈالر کسی پارک میں دبا رکھے ہیں۔ اس کے بعد گڑے ہوئے خزانے کیلئے دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ MAD کا یہ مخفف ایٹمی تصادم کیلئےبھی استعمال ہوا ۔ Mutually Assured destruction (MAD) ۔بہت بعد میں معلوم ہوا کہ امریکی احتیاط سے تیار کیے گئے پیغامات کی مدد سے بچوں کی ذہن سازی کر رہے تھے۔ خدا بھلا کرے سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس اقبال کلہوڑو کا جنہوں نے چڑیا گھر کا دورہ کرنے کے بعد ریمارکس دیے ہیں کہ ’چڑیا گھر ختم کر دینے چاہئیں۔ آپ چڑیا گھر سے پیسے تو کما لیتے ہیں لیکن جانوروں پر خرچ نہیں کرتے‘۔ معلوم ہوتا ہے کہ جسٹس اقبال کلہوڑونے بچپن میں کامکس پڑھ رکھے ہیں۔ یہ رائے محض چڑیا گھر پر منطبق نہیں ہوتی ۔ ہم تو اس ملک میں انسانوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کر رہے ہیں۔ ان سے پیسے کما رہے ہیں لیکن ان پر خرچ نہیں کر رہے بلکہ اب تو پاکستان کے شہریوں پر رحم دلی کی ایک نئی مہم شروع ہوئی ہے۔ ملک بھر میں مبینہ طور پر ’ناقابل اصلاح ‘ ملزمان کو بغیر کسی قانونی یا عدالتی کارروائی کے موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔اس طرح کے ہر واقعے کی بنی بنائی کہانی موجود ہے۔ مستند دلیل یہ ہے کہ عدالتی نظام سست اور ناقص ہے چنانچہ بدنام افراد کوپولیس اور دیگر اداروں کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دینا چاہیے۔ خوفزدہ شہری خاموش ہیں۔ وکلا برادری منقار زیر پر ہے۔ عدالتیں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ازخود نوٹس لینے سے گریزاں ہیں۔ اس ملک میں کوئی ایسی آواز باقی نہیں جو صاحبان اختیار کو بتائے کہ ریاست کا بنیادی فرض شہری کے جان و مال کی حفاظت ہے۔ ان مبینہ ’پولیس مقابلوں‘ سے ریاست کی عمل داری ختم ہو جائے گی۔ اگر عدالتی نظام اس قدر ناقص ہے تو یہ نظام قائم رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ چند اسلحہ بردار گروہ قائم کر کے باقی نظام عدل منسوخ کر دیا جائے ۔ اگر پولیس کو قانونی کارروائی، آئین کی شق 10اور عدالتی کارروائی سے مستثنیٰ قرار دینا ہے تو پولیس کو ذاتی مفادات کیلئے شہریوں کے استحصال سے کیسے روکا جا سکے گا۔ اس سے مالی بدعنوانی بڑھے گی یا کم ہو گی؟ کیا لامحدود اختیارات رکھنے والے اہلکار اس طریقہ کار کو ذاتی مفادکیلئے استعمال نہیں کرینگے؟ کیا ہم قانونی منطق کی مبادیات سے مکمل بے نیازہو چکے۔ یہ ایک مہذب ملک کو جنگل میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ عدالتی نظام کو مؤثربنانے کی بجائے ’فوری انصاف‘ اپنایا جائے گا تو یہ ملک بنانا ری پبلک بن جائے گا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عوام کے مفادات کا تحفظ کرنیوالا صحافی خوشامد کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔ اس طرح کے صحافی اسی کھیت کی نئی فصل ہیں جنہوں نے غلام محمد نامی ایک مفلوج بیوروکریٹ کو ’محسن ملت‘ قرار دیا۔ اسکندر مرزاکی انتظامی صلاحیتوں کے گن گائے۔ ون یونٹ کو وفاق پاکستان کی ضمانت لکھا۔ لیل و نہار میں ایوب خان کے ہاتھوں کی ’پر شفقت نرمی ‘پر فیچر لکھے۔ یحییٰ خان کے موعودہ آئین کو اسلامی قرار دیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ’دیدہ ور‘ کا خطاب دیا۔ ضیاالحق کو ’مرد مومن اور مرد حق‘ لکھا۔ ہر آنیوالے نادیدہ حکمران کے قصیدے لکھے۔ نام نہاد خوابوں میں صاحب اقتدار کی مقدس ہستیوں سے ملاقاتیں بیان کیں۔ پاکستان کو ’فرنٹ لائن ریاست‘ قرار دیا۔ صدر الدین ہاشوانی کی کتاب ’سچ کا سفر‘ پڑھتے ہوئے خیال آتا رہا کہ پاکستان کا ہر طاقتور ترین شخص بچپن ہی سے ہاشوانی صاحب کا دوست کیسے بن جاتا تھا۔ خیر ،اس راز سے تو ہمارا ’سینئر تجزیہ کار‘ ہی پردہ اٹھا سکتا ہے۔ میں تو یہ پڑھ کر نہال ہو رہا ہوں کہ ہمارے ملک میں اقتدار کی چوٹی پر بیٹھنے والے ہر صاحب اختیار کے بزرگ خدا کے برگزیدہ بندے تھے۔ انہی کی برکت سے آج کی دنیا میں ہمارے ملک کی شان بڑھ رہی ہے اور ہماری جمہوریت ایسی منفرد خصوصیات رکھتی ہے جن کے نتیجے میں ہم نے دنیا کو سیاسی بندوبست کی ایک نئی صورت سے متعارف کرایا ہے۔ ’خدا حشر میں ہو مددگار میرا‘۔