• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ کالم کے اختتام پر عرض کیا تھا کہ افغان طالبان کو ریجنل کنیکٹویٹی، جو وسطی ایشیا سے جنوبی ایشیا تک ہو، سے منسلک کر دینا ہی خطے میں پائیدار امن کے حالات کا قیام عمل میں لا سکتا ہے اور افغان طالبان کا اس سبب سے ذکر کیا تھا کہ ان کو اسکے معاشی ثمرات سے بہرہ مند کیا جائے تو سوچ میں تبدیلی کا ہدف حاصل کرنا ممکن ہو سکتا ہے ۔ پاکستان کی ابتدا سے یہ پالیسی رہی ہے کہ جو کابل پر قابض ہوتا ہے ہم اس کو وہاں کا حاکم سمجھتے ہیں اب چاہے اس کی حکومت بزور شمشیر ہو یا جیسے بھی قائم ہو چکی ہو۔ یہاں اس بات کا بھی تذکرہ اہم ہوگا کہ عالمی برادری میں اب افغانستان کی تین حصوں میں تقسیم کی تجویز کا شور ہے کہ وہاں پر امن قائم نہیں ہو رہا ۔ پاکستان کو اس سوچ کے حوالے سے بہت محتاط انداز میں سوچنا ہوگا کہ ایسی کسی کوشش کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ بہر حال یہ تو بر سبيل تذکرہ بات تھی ۔ جب گزشتہ کالم میں اس معاشی حکمت عملی کی بات کی تھی تو چند احباب نے کہا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے مابین مسلح تصادم کی کیفیت موجود ہے بھلا ان حالات میں بزنس ماڈل کی بات کرنا کس حد تک مناسب ہے ۔ اس تصادم کی کیفیت کو ہی تو تبدیل کرنے کی غرض سے گفتگو کی تھی اور عين دوران جنگ بھی گفتگو چل رہی ہوتی ہے یا چل سکتی ہے ۔ افغانستان کی ریجنل کنیکٹویٹی کے حوالے سے اس وقت بھی بہت کچھ ہو رہا ہے اور اس میں انتہائی دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کا اس میں کلیدی کردار ہے ۔ ابھی پیپلز کونسل آف ترکمانستان کے چیئر مین نے گزشتہ ہفتے ہی’ ترکمانستان ، افغانستان ،پاکستان ، انڈیا گیس پائپ لائن منصوبہ‘ جو عرف عام میں تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ کہلاتا ہے ،کے اگلے فیز کا افتتاح کیا ہے اور افغان طالبان کی جانب سے ان کے نائب وزیر اعظم برائے معاشی امور ملا عبد الغنی برادر نے شرکت کی ۔ خیال رہے کہ یہ منصوبہ ایک عرصے سے حالات کے سبب صرف کاغذوں میں موجود تھا مگر گزشتہ سال ستمبر میں پیپلز کونسل آف ترکمانستان کے چیئر مین نے افغانستان میں اس منصوبے کا عملی طور پر افتتاح کرتے ہوئے دونوں ممالک کی سرحد پر 177 میٹرکے ریلوے اسٹیل پل کا افتتاح کیا تھا اسکے ساتھ ساتھ ویئر ہاؤس ، ڈرائی پورٹ نورال جہد پاور پلانٹ کا بھی افتتاح کیا تھا کہ جس کا مطلب یہ تھا کہ تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے اور جب اب اسکے اگلے سیکشن جو کہ 153 کلو میٹر سیریٹابیٹ - حیرات سیکشن پر کام کا افتتاح کیا گیا ہے تو اس کو صرف ان دو ممالک کا باہمی اقدام نہ سمجھا جائے ۔ اس کیلئے صدر ٹرمپ نے بھی مبارک باد کا پیغام ارسال کیا ہے ۔ اب اس کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ کوئی صرف افغانستان تک محدود منصوبہ نہیں ۔ یہ حیرات ، ہلمند اور صوبہ قندھار سے ہوتی ہوئی پاکستان میں داخل ہوگی اور پاکستان سے آگے اس کی منزل انڈیا ہوگی ۔ 1800 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی یہ پائپ لائن سالانہ کم و بیش 33 ارب کیوبک میٹر گیس سپلائی کرئیگی جس میں سے 16فیصد افغانستان جبکہ 42 فیصد پاکستان اور اسی مقدار میں انڈیا کو مہیا کی جائیگی اور افغانستان صرف ریونیو کی مد میں سالانہ ایک ارب ڈالر وصول کرئیگا ۔ افغانستان کی معیشت کو مد نظر رکھتے ہوئے با آسانی تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک ارب ڈالر کی رقم ان کیلئے کیا اہمیت رکھتی ہے ۔ یہ منصوبہ صرف ایک مثال ہے کہ اس میں امریکا سے لیکر افغان طالبان تک سب دلچسپی رکھتے ہیں ۔ امریکا کی تو کمپنیوں نے اس کی ابتدائی فیزیبلیٹی اسٹڈی تک تیار کی تھی ۔ اور جب میں ریجنل کنيکٹیویٹی کی بات کرتا ہوں تو میری مراد صرف افغانستان یا ہمارے زمینی سرحدی ہمسائے نہیں بلکہ ہماری نظر ہر اس کنيکٹیویٹی پر مرکوز ہونی چاہئے کہ جو ممکن ہے ۔ مثال کے طور پر یہ بہت ہی بہتر فیصلہ ہے کہ پاکستان اور ترکی کے مابین ٹرین چلائی جائیگی ۔ کچھ عرصہ قبل لاہور میں ترک قونصل خانہ قائم ہوا تو نیا ہونے کے باوجود بہت جلد بہت متحرک ہو گیا اور یکے بعد دیگرے تعینات دونوں ترک قونصل جنرل صاحبان پاکستانی عوام سے نئے روابط قائم کرنے کی جستجو کرتے رہے اور یہی طریقہ انکے بعد آنیوالے نئے ترک قونصل جنرل نے اپنا لیا ہے ۔ بنگلا دیش کے حوالے سے بھی یہ بہت مثبت اقدام ہے کہ اسے کراچی کی بندر گاہ استعمال کرنے کی پیش کش کی گئی ہے جبکہ براہ راست پروازوں کے آغاز پر بھی بات ہوئی ہے ۔ اسی طرح انڈونیشیا کے حوالے سے بھی پاکستان ایئر لائنز کے پاس زبردست موقع ہے کہ وہ وہاں سے عمرہ کی ادائیگی پر جانیوالے افراد کو اپنی فضائی سروس مہیا کرے ۔ اس وقت یہ کاروبار انڈین فضائی کمپنیوں کے پاس ہے اور وہ اس سے اربوں روپے کما رہی ہیں ۔ ابھی حال ہی میں انڈونیشیا کے نائب سفیر رحمت ہندیارتا سنگاپور یونیورسٹی کے انڈونیشين پروفیسر ہدیٰ کے ساتھ لاہور آئے تو مجھ سے ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا کہ انڈونیشیا سے اس وقت 600طلبا دینی مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، کنيکٹیویٹی کے ہزاروں امکانات موجود ہیں بات صرف ان امکانات کو اقدامات میں تبدیل کرنے کی ہے ۔

تازہ ترین