خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کی ترجیح صوبے کے عوام کی مشکلات سے رہائی ہونی چاہیے جو انکے اپنے ہاتھ میں ہے یا بانی کی رہائی جو انکی دسترس میں نہیں ہے۔
ہم لاکھ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہوں حکم بیسویں صدی کے ہی چل رہے ہیں ۔سامراجی اپنے بیسویں صدی کے نامکمل ایجنڈے ہی کی تکمیل کر رہے ہیں۔ بہت سوچ سمجھ کے فلسفیوں نے جمہور کی خواہش کا احترام کرنے کیلئے جو ادارے مقامی اور عالمی سطح پر بنائے وہ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ حکم شخصیات ہی کے مانے جا رہے ہیں ۔
آپ کو سفید بالوں سے بھرے سر والایہ شخص رقص دیکھتے ہی جس کے پاؤں حرکت میں آجاتے ہیں کتنا بائولا لگتا تھا مگر اب سوشل میڈیا پر ایک نظر ڈالتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسرائیل کو سیاسی اور عسکری برتری دلوانے کیلئے یہ دیوانہ سابق فرزانہ امریکی صدور سے کتنا آگے نکل گیا ہے۔
اس کی آمد سے پہلے عمران خان والے اس کے عشق سے سرشار تھے ۔عمران خان کے بارے میں اسکے دو بول بار بار سنائے جاتے تھے ۔اب وہی امریکی صدر عمران خان کے مخالفین کی تعریف ہر سرزمین پر اپنی ہر تقریر میں کر رہا ہے ۔
منزل ہے اسرائیل کی عسکری سیاسی برتری ،جس کیلئے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سیکورٹی کونسل کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے ۔جیسے نائن الیون کے بعد امریکی فوجیں نیٹو کے لشکر اقوام متحدہ کی رسمی اجازت لیے بغیر ہی افغانستان پر چڑھ دوڑے تھے۔ اسی طرح اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے تحفظ کیلئے ابراہیم ایکارڈ کا جو سہارا لے رہے ہیں۔ اس کی تکمیل کیلئے وہ کسی اقوام متحدہ اپنی کانگرس یا سینٹ کے اختیار کو ضروری نہیں سمجھ رہے۔ اس کیلئے جن اسلامی ملکوں کو ہم نوا بنا رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بادشاہتیں ہیں جیسے سعودی عرب ،اردن، قطر ،یو اے ای ۔انکے ساتھ انڈونیشیا ،ملائشیا ،پاکستان ،ترکی نام کی جمہوریتیں ہیں۔ حکم وہاں اشخاص کا ہی چلتا ہے ۔ان کو اپنی پارلیمنٹ سے کسی توثیق کی ضرورت نہیں۔ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی سے بھی کوئی مشاورت نہیں کی جا رہی ۔
ابراہیم ایکارڈ اب بہت تیزی سے اپنی تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں صدر ٹرمپ ،انکے وزیر خارجہ کے دورے ملاحظہ کر لیں۔ ہمارے وزیراعظم اور فیلڈمارشل کی مسافرتیں بھی دیکھ لیں۔یہ ساری سفارتی تگ و دو بظاہرتو دنیا میں امن کے قیام کے دعوےکیلئے ہو رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائی کی بین الاقوامی کوششوں کی تکمیل ہو رہی ہے ۔
تاریخ نے دیکھاہے کہ1948 ءمیں اسرائیل کے قیام کے بعد سے ستمبر 2001ءتک کی چھ دہائیاں کس کرب میں گزری ہیں۔ کتنے مسلم حکمران بادشاہ، انقلابی جمہوری حکمران شہید کیے گئے۔ کیسی کیسی انقلابی تحریکیں،سیاسی پارٹیاں مشرقِ وسطیٰ کے محلات اور جنگی میدانوں میں ٹینکوں تلے روندی گئیں ۔
اللہ کا شکر ہے کہ ان مسلسل ابتلاؤں کے دور میں پاکستان نے کسی طرح اپنا ایٹمی پروگرام مکمل کر لیا۔ اس کیلئے بھی کتنی قیمتی جانیں اور آئینی نظام قربان کرنا پڑے۔ اس وقت پاکستان میں سیاسی اقتصادی منظر نامہ اڈیالہ جیل میں مقید پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی رہائی یا عدم رہائی کے گرد گھومتا ہے۔ ان کے مخالفین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے عزائم کی تکمیل اس کو مقید رکھ کر ہی کر سکتے ہیں۔ ان عزائم کو عام پاکستانی صرف مقامی حدود میں ہی سوچتا ہے۔ دوسری طرف بانی کے حامی اسے ملک کی بہتری اور بقا کیلئے آخری امید سمجھتے ہیں۔ انہیں یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ اسکی رہائی سے ہی ملک آگے بڑھ سکتا ہے ۔
ملک کی داخلی سیاست، جمہوری اداروں کا تسلسل ان مغالطوں کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ عدلیہ کی آزادی، میڈیا کی خود مختاری، پارلیمنٹ کی برتری اس کی نذر ہو گئی ہیں۔ پی ٹی آئی کو اللہ تعالیٰ نے ملک کا ایک دولت مندصوبہ اپنی سیاسی برتری اور اقتصادی اہلیت کے استعمال کیلئے 15 سال سے دیا ہوا ہے مگر پی ٹی آئی کے عہدے دار صوبے کے مختلف حکمران صوبے کے ساڑھے چار کروڑ عوام کو درپیش مسائل ،غربت کے خاتمے، امن و امان کے قیام سے زیادہ بانی کی رہائی کو اولین ترجیح گردانتے ہیں ۔حالانکہ اس صوبے کی 48 فیصد آبادی ساری معدنی دولت اور قیمتی پتھروںکے ہوتے ہوئےغربت کی لکیر سے نیچے ہے ۔1979 سے افغانستان میں پیہم بدلتی صورتحال نے سارا اقتصادی دباؤ اس صوبے پر ڈالا ہے ۔دہشت گردی سے بھی یہ صوبہ زخم زخم ہے۔ لیکن صوبے کے عوام کا شعور اس سیاسی جہت سے جان لیں کہ انہوں نے پنجاب اور سندھ کی طرح 1985 سے حکمران مسلم لیگ اور پی پی پی کو یہاں باری میں حکمرانی نہیں دی ۔ مگر سوچنا یہ پڑتا ہے کہ کے پی کے عوام کو اس شعور کے بدلے میں کیا راحتیں ملی ہیں ۔کیا پی ٹی آئی بھرپور عوامی حمایت کے باوجود اسے مثالی صوبہ بنا سکی۔ حالانکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی اختیارات میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے۔ معدنیات، تعلیم ،صحت ،سیاحت سب صوبوں کے پاس ہیں۔کے پی معدنی دولت اور سیاحتی مقامات کی زبردست کشش رکھتا ہے ۔یہاں پی ٹی آئی کے ملک بھر کے سارے عہدے دار مل کر اپنےادراک سے کام لیں ۔ وفاق کا گلہ کرنے کے بجائے اپنے محدود وسائل میں اپنے ارکان اسمبلی، وزراء ،حکومتی شعبوں کے اخراجات کم کر کے صوبے کے غریب عوام کی فلاح اور نوجوانوں کے روزگار کے منصوبے بنائیں۔ اب تو فاٹا کے اضلاع بھی صوبے کا حصہ ہیں جہاں بے شمار معدنی وسائل ہیں۔ سابق بیوروکریٹوں، ریٹائرڈ فوجی افسروں، ججوں سے تجاویز لیں ۔بانی کی رہائی کے بجائے کے پی کے کی غربت ،مہنگائی، پامالی سے رہائی کو فوقیت دیں تو پی ٹی آئی کی قیادت کا ایک انتظامی، اقتصادی ،اصلاحاتی اہلیت والا چہرہ سامنے آئیگا ۔اس سے بانی پی ٹی آئی کا قدمزید بلند ہوگا پھر دوسرے صوبوں کے عوام میں بھی پی ٹی آئی سے توقعات میں اضافہ ہوگا۔ پارٹی کی ساری توانائیاں تنظیمی ہوں یا ذہنی وہ صرف اس تصور کی نذر کی جا رہی ہیں کہ عمران خان کی رہائی ہی ملک میں تبدیلی لا سکتی ہے ۔اصل دانائی تو یہ ہےکہ سیاسی تبدیلی جو عمران خان کی پرانے سیاسی جوڑ توڑ اور خاندانی و موروثی سیاست کی مزاحمت سےآ رہی ہے ۔اسے ایک باقاعدہ نظریاتی دستاویز بنایا جائے۔یہ تصور کہ نیپال ،سری لنکا، بنگلہ دیش میں تبدیلیاں عوامی قوت کے اظہار سے آئی ہیں ۔ایک تاریخی مغالطہ ہے ۔جنوبی ایشیا میں پاکستان سمیت فیصلہ کن عوامی مظاہروں کے پیچھے ہمیشہ کچھ خواص رہے ہیں۔ اور آخر میں ان شورشوں نےان کے مفادات کا تحفظ ہی کیا ہے۔
تاریخ کی گزارش یہی ہوگی کہ کے پی کےنئے وزیراعلیٰ اپنی ترجیحات میں کے پی کے مصیبت زدہ عوام کو راحتیں پہنچانے کو اولین اہمیت دیں۔ اس سے خود پی ٹی آئی کے بانی بھی خوش ہوں گے، تاریخ اور جغرافیہ بھی۔