سب کہانیاں سچی ہیں، داستانیں، دیو مالا سب کی سب سچی ہوتی ہیں۔ وہ واقعات کبھی ہوئے یا نہیں، لیکن ’’سچے‘‘ہوتے ہیں۔ سچا فن کار جھوٹی کہانی نہیں لکھ سکتا، ہاں’’حقائق‘‘ سے اوپر اُٹھ سکتا ہے، رپورٹر بننے سے انکار کر سکتا ہے۔ کہانیاں حقیقتِ کبریٰ کے ریشم سے بُنی جاتی ہیں، داستانیں سچے جذبات اور سچے خوابوں کے تانے بانے سے تشکیل پاتی ہیں، اسی لیے صدیوں چمکتی دمکتی رہتی ہیں۔ کیا ہومر کی ’’اوڈیسی‘‘ جھوٹ ہے؟ جھوٹ کی اتنی عمر ہوتی ہے؟ دوستووسکی کا ’’کرائم اینڈ پنشمنٹ‘‘جھوٹ ہے؟ کافکا کا ’’ٹرائل‘‘ جھوٹ ہے؟ غوطہ لگا کر دل کی تہہ سے خوف، اندیشوں اور محبت کے سُچے موتی نکالنے والے جھوٹی کہانیاں نہیں لکھا کرتے۔ سب کہانیاں سچی ہوتی ہیں!اب ایک’’سچا‘‘ قصہ پیشِ خدمت ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں صرف چارہ کھانے والے جانور ہنسی خوشی رہتے تھے، خرگوش، بندر اور ہرن وغیرہ۔ سبزہ وافر تھا، پانی کثرت سے پایا جاتا تھا، کسی بات پر کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ پھر یوں ہوا کہ کھانے کی تلاش میں ایک شیر اس جنگل میں آ نکلا۔ مگر جب وہ جنگل میں داخل ہونے لگا، تمام مقامی جانور اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے شیر کو جنگل کی شہریت دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہاں صرف اور صرف سبزی خور جانور ہی رہ سکتے ہیں اور تم گوشت خور لگتے ہو۔ مقامی جانور شیر کے شجرے سے یک سر ناآشنا تھے۔ شیر نے انہیں کہا کہ میں سبزپوشوں کی نہیں سبز خوروں کی اولاد ہوں اور مجھے کچھ وقت دیا جائے میں اپنا پُرامن شجرہ ثابت کر دوں گا۔ شیر کو محدود مہلت دے دی گئی۔ اُس رات شیر بہت سے جانوروں کے پاس درخواست لے کر گیا کہ اسے اپنے شجرے میں شامل کر لیں، مگر جانور جبلی طور پر شیر سے خائف تھے، سب نے صاف انکار کر دیا۔ صبح ہو رہی تھی، سورج کی کرنیں جنگل کے سب سے قد آور درختوں کی پھننگ پر پڑنے لگیں تھیں، ایسے میں شیر کو ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز سنائی دی، اس نے دیکھا ایک گدھا بے فکری سے گھاس اور اوس کا ناشتہ کر رہا ہے۔ شیر گدھے کے قریب گیا اور یوں گویا ہوا،’’اے پیکرِ جمال، تیرا رنگ ساون کی گھٹا جیسا سرمئی ہے، تیری آواز سرمدی نغموں کے مانند سحر انگیز ہے، اور تری چال وقار ہی وقار ہے۔ میں تو تری خاکِ پا بھی نہیں مگر میرا دل کہتا ہے کہ اس بھرے جنگل میں اگر میں کسی کا رشتے دار ہو سکتا ہوں تو وہ تو ہے، بس تو۔‘‘ گدھے نے ایک نظر شیر کی لہلہاتی ہوئی ایال، توانا بدن اور ہیبت ناک پنجوں پر ڈالی، اور سوچنے لگا کہ اگر جنگل والوں کو پتا لگے کہ شیر میرے خانوادے سے ہے تو مری توقیر یک دم فزوں ہو جائے گی۔ اسی حسین تصور میں کھوئے ہوئے گدھے نے’’ہاں‘‘کر دی اور جنگل میں اعلان کر دیا کہ’’شیر اپنا ہی بچہ ہے۔‘‘شیر کو جنگل میں رہنے کی اجازت مل گئی، چیر پھاڑ شروع ہو گئی، اور اس کے بعد شیر کو کبھی خوراک کی تنگی نہ ہوئی۔ اس کہانی سے محاورہ نکلا ’’ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے۔‘‘ اب آپ ہی بتائیے کیا یہ کہانی جھوٹی ہے؟ہم اپنے ارد گرد یہ تماشا دیکھتے ہی رہتے ہیں بلکہ خود بھی اس’’کارِ خیر‘‘ میں حسبِ ضرورت حصہ ڈالتے ہی رہتے ہیں۔ ہم نے کئی شیروں کو گدھوں کے دفاتر کے چکر لگاتے دیکھا ہے۔ ان گدھوں کو یقین دلا دیا جاتا ہے کہ آپ کے جدِ امجد ببّر شیر تھے، سو وہ دھاڑتے رہتے ہیں جب تک ریٹائر نہ ہو جائیں۔ انسانی تاریخ و سیاست گدھے کو باپ بنانے کی سرمئی مثالوں سے اٹی ہوئی ہے، مگر اس میدان میں ہم سے زیادہ جگالی شاید ہی کسی نے کی ہو۔ ہمارے سیاست دانوں نے تو اس عمل کو باقاعدہ فن بنا دیا ہے، اور کوئی مخفی فن نہیں، ببانگِ دُہل اس کا اعلان بھی کرتے ہیں، منہ سے کہتے ہیں آپ ہمارے باپ ہیں، بلکہ قوم کے باپ ہیں۔ حکومت میں آنے، حکومت میں رہنےاور جیل سے نکلنے کیلئے ہمارے سیاست دان یہ مجرب نسخہ درجنوں بار کامیابی سے استعمال کر چکے ہیں۔ اقبالؔ نے پوری نظم، ساقی نامہ، اردو میں لکھی تو آخری شعر فارسی میں لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ہمیں یہ نکتہ آج سمجھ میں آیا ہے۔ فرماتے ہیں’’اگر یک سرِ موے برتر پَرم....فروغِ تجلّی بسوزد پرم۔‘‘یہ جو لاہوریوں کے بارے میں جھوٹی سچی بات پھیلائی گئی ہے کہ یہ گدھا خوری کی لت میں مبتلا ہیں تو غالباً یہ بھی ا یڈی پس کمپلیکس کی کوئی شکل ہے، کوئی لاشعوری انتقام۔ ایک قصہ معروف کامیڈین سعید خان رنگیلا صاحب کا بھی سن لیں۔ ایک مرتبہ ترنول میں کسی فلم کی شوٹنگ کے دوران رنگیلا صاحب کو نشے کی حالت میں پولیس نے گرفتار کر لیا۔ انہی دنوں رنگیلا صاحب کی ایک فلم ریلیز ہوئی تھی جس کا نام تھا ’’انسان اور گدھا۔‘‘پہلے تو انہوں نے پولیس کو دھمکی دی کہ اگر انہیں فوری رہا نہ کیا گیا تو وہ اپنی اگلی فلم’’انسان اورپولیس‘‘بنائیں گے۔ لیکن جب ان کی دھمکی کارگر نہ ہوئی تو انہوں نے اپنی دراز زلفوں والی سنہری وِگ اتار کر ایس ایچ او کے قدموں میں ڈھیر کر دی اور گڑگڑاتے ہوئے التجا کی کہ اس وِگ کو ان کی پگ سمجھا جائے۔ رنگیلا صاحب کو شخصی ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ بعد میں ایک فلم رپورٹر نے رنگیلے سے کہا کہ آپ کو اپنی’’پگ‘‘ کوتوال کے قدموں میں نہیں رکھنا چاہیے تھی تو انہوں نے فرمایا کہ ضرورت کہ وقت’’پولیس‘‘ کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے۔پس نوشت: عمران خان کوئی کالم نہیں پڑھتے، یہ بھی نہیں پڑھیں گے، لہٰذا نہ رنگیلا صاحب کی حکمتِ عملی پر عمل کریں گے، نہ رہا ہوں گے۔