یہ داستان اُس وقت شروع ہوئی جب سوویت یونین نے 1979ءمیں افغانستان پر حملہ کیا۔ دنیا خاموش رہی، مگر پاکستان نے اپنی سرزمین، معیشت، سماجی ساخت، حتیٰ کہ اپنی نسلوں تک کو داؤ پر لگا دیا۔ ہم نے تین سے چار ملین افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہا، ان کیلئے کیمپ بنائے، انہیں تعلیم، علاج، روزگار دیا۔ اُس وقت پاکستان کے شہر پشاور، کوئٹہ، کراچی اور لاہور افغان پناہ گزینوں کے مراکز بن گئے۔ اقوامِ متحدہ کی امداد آتی رہی مگر اس کا بوجھ ہماری معیشت نے اٹھایا۔ ہم نے یہ سب صرف اس لیے کیا کہ افغانستان ہمارا برادر ملک ہے، ہم اسلامی یکجہتی پر یقین رکھتے ہیں۔
1990 ءکی دہائی میں جب طالبان اُبھرے تو پاکستان نے اُنہیں ایک منظم قوت سمجھا۔ اُس وقت یہ تاثر تھا کہ شاید طالبان ایک ایسی حکومت بنائیں گے جو امن لائے گی، تعلیم کو فروغ دے گی، اور افغانستان کو شدت پسندی کے دائرے سے نکالے گی۔ مگر جلد ہی حقیقت کھل گئی طالبان نے مذہب کو بطورِ آلہ استعمال کیا۔ اُنہوں نے تعلیم پر پابندی لگائی، خواتین کو گھروں میں قید کیااور اظہارِ رائے کو جرم بنا دیا۔جب 9/11 کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا، تو طالبان ایک بار پھر پسپا ہوئے، مگر اُن کے نظریاتی اثرات ختم نہ ہوئے۔ پاکستان نے اُس وقت بھی عالمی برادری کے ساتھ کھڑے ہو کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی۔ ہماری فوج، پولیس، عوام، سب نے اس آگ میں اپنا حصہ دیا۔ ستر ہزار سے زائد پاکستانی شہری اور سپاہی اس جنگ میں شہید ہوئے۔ پاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہوا۔
اب افغانستان میں ایک بار پھر طالبان برسرِ اقتدار ہیں، مگر وہی تاریخ دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ طالبان کے زیرِ سایہ تحریکِ طالبان پاکستان نے دوبارہ سر اُٹھا لیا ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جو پاکستان کے فوجی قافلوں، تعلیمی اداروں، مساجد، اور شہری آبادیوں کو نشانہ بناتا ہے۔ طالبان اور ٹی ٹی پی کا رشتہ نظریاتی نہیں بلکہ خونی ہے۔ یہ ایک ہی سوچ کے دو چہرے ہیں۔ جب دوحہ اور استنبول مذاکرات میں پاکستان نے طالبان سے کہا کہ وہ تحریری طور پر یقین دہانی کرائیں کہ اُن کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، تو طالبان نے ٹال مٹول سے کام لیا۔طالبان کا خوف یہ ہے کہ اگر انہوں نے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی تو یہ گروہ ان کے اپنے اندر بغاوت پیدا کر دے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایک حکومت جو اپنی ہی سرزمین پر دہشت گردوں سے نہیں نمٹ سکتی، وہ بین الاقوامی امن کی ضامن بن سکتی ہے؟
پاکستان کا مؤقف واضح ہے ہم جنگ نہیں چاہتے۔ ہم مذاکرات چاہتے ہیں۔ مگر مذاکرات یکطرفہ نہیں ہو سکتے۔ پاکستان نے دو ہفتے قبل قطر اور ترکی کے تعاون سے استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں اپنا وفد بھیجا۔ جب وفد واپسی کے لیے تیار تھا، تو قطر اور استنبول کے رہنماؤں نے پاکستانی وفد کو روک لیا کہ افغان فریق دوبارہ مذاکرات کیلئے آمادہ ہے۔ یہ پیشرفت امید کی کرن تھی، مگر افغان رویہ ہمیشہ کی طرح غیر سنجیدہ رہا۔افغان حکومت کے ترجمانوں نے، بجائے اس کے کہ وہ دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذمت کرتے، الٹا پاکستان پر الزامات لگائے۔ محمود خان اچکزئی جیسے سیاستدانوں نے یہ بیان دے کر صورتِ حال کو مزید خراب کیا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ مذاکرات کامیاب ہوں۔ یہ وہی سیاست ہے جو دشمن کے بیانیے کو تقویت دیتی ہے۔
افغانستان کی موجودہ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان اُن کا دشمن نہیں۔ ہم نے اُن کے لیے چالیس سال قربانیاں دیں۔ ہم نے اپنے تعلیمی نظام، صحت کے ادارے، روزگار کے مواقع، سب کچھ ان کے لیے کھولا۔ مگر بدلے میں ہمیں ملا کیا؟ منشیات، دہشت گردی، اسلحہ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور جرائم کا سیلاب۔پاکستان کے لیے اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات کو جذبات سے الگ کرے۔ اگر افغان حکومت پاکستان کے خلاف دشمنانہ رویہ اپنائے گی، تو ہمیں سخت سفارتی اور سرحدی فیصلے کرنے ہوں گے۔ افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل کو تیز کرنا، بارڈر مینجمنٹ کو مضبوط کرنا، اور دہشت گرد گروہوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنا اب بقا کا مسئلہ ہے۔
افغانستان کی موجودہ حکومت خود بھی شدید اندرونی تضادات کا شکار ہے۔ کابل میں طالبان کی مختلف دھڑے اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں۔ ایک گروہ قطر میں موجود سیاسی قیادت کا حامی ہے، دوسرا گروہ خراسان اور کنڑ کے جنگجو کمانڈروں کے زیرِ اثر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت کی کوئی واضح پالیسی نہیں۔ ایک دھڑا پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی بات کرتا ہے، جب کہ دوسرا پاکستان دشمن گروہوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔
پاکستان نے حال ہی میں افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ کیا۔ اس پر مغربی میڈیا نے شور مچایا کہ پاکستان انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان چالیس سال تک ان مہاجرین کو سہارا دیتا رہا۔ اب جب یہ مہاجرین پاکستان کے مختلف شہروں میں سماجی و معاشی دباؤ بڑھا رہے ہیں، جرائم میں ملوث ہو رہے ہیں، اور سرحد پار دہشت گردوں کیلئے سہولت کار بن رہے ہیں، تو ریاستِ پاکستان کو اپنی حفاظت کا حق حاصل ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کا ہر دھماکہ صرف ایک فوجی یا شہری کی موت نہیں، بلکہ ریاست کے اعتماد کا زخم ہوتا ہے۔پاکستان اگر اپنی قربانیوں کو بھول جائے گا تو دشمن اُس کی داستان اپنے مطلب کے مطابق لکھے گا۔ ہمیں اپنے شہداء، اپنی تباہ شدہ بستیوں، اور اپنی بہادر قوم کی قربانیوں کو یاد رکھنا ہوگا۔ یہ یادداشت ہی ہماری قومی یکجہتی کا سب سے مضبوط ستون ہے۔افغان حکومت کو بھی اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کب تک دوہرا کھیل کھیلتی رہے گی۔ یا تو وہ ایک ذمہ دار ریاست بن کر دہشت گردوں کیخلاف کھڑی ہو، یا پھر عالمی تنہائی کا سامنا کرے۔