جمعرات کو رائٹر نیوز ایجنسی نے خبر دی ہے کہ امریکہ نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کا نظم و نسق چلانے پر انڈین کمپنی سے پابندیاں چھ ماہ کیلئے ہٹا دی ہیں ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی وزیراعظم کا جو وقت بے وقت تمسخر اڑاتے ہیں۔ کیا اس کا کوئی اقتصادی مقصد ہے یا سیاسی۔ اور اس سے امریکی بھارتی تعلقات کتنے متاثر ہو رہے ہیں۔ کیا یہ ہماری خارجہ پالیسی کے ماہرین اور اقتصادی ماہرین کی تحقیق کا موضوع نہیں ہونا چاہیے ۔ امریکہ انڈیا میں حالیہ کشیدگی صرف ٹرمپ کے بیانات تک محدود لگتی ہے۔میں نے اپنے طور پر کوشش کی کہ یہ معلوم کر سکوں کہ کیا اس تمسخر سے امریکہ انڈیا تجارتی اور اقتصادی تعلقات زیر بار آئے ہیں۔ کیا امریکہ میں مقیم 50 لاکھ سے زیادہ بھارتی ٹیکنوکریٹ سرمایہ کار کمپنیوں کے سربراہ بھی، اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ تحقیق ابھی جاری ہے اگرچہ کچھ معاملات زیادہ بگڑے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔ ادھر امریکی صدر کی اس پذیرائی کے نتیجے میں پاکستان کو جو اقتصادی تجارتی اور دفاعی فوائد ہونے چاہئے تھے وہ بھی کوئی زیادہ غالب نظر نہیں آرہے۔ اس پر ہر جہت سے تحقیق ہو جائے تو کچھ زیادہ مستند انداز میں لکھا جا سکے گا ۔آپ بھی اگر اس میں مدد کر سکیں تو ممنون ہوں گا ۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور تبادلہ خیال کا دن ۔ان کےسوالات کےتسلی بخش جواب دینے کے لمحات۔ سوشل میڈیا ہماری اولادوں کو باخبر توکرتا ہے لیکن کبھی مشتعل کرتا ہے اور کبھی بھٹکا بھی دیتا ہے ۔اس لیے میری گزارش یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنے بچوں سے ہفتے میں ایک دن کم از کم ضرور ملاقات کریں اور دیکھیں کہ ان کے ذہنوں میں کیا چل رہا ہے۔ ویسے تو یہ ریاست کا بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ جائزہ لیتی رہے کہ ملک کے مختلف حصوں اور علاقوں میں عمر کے مختلف گروپوں کے ذہنوں میں کیا خدشات جنم لے رہے ہیں۔ صوبائی حکمران بھی اس پر غور کریں۔ پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا سوشل میڈیا کے ذریعے اکثریت کی ایسی ذہنی تشنگی دور کی جائے ۔
غیر ملکی ماہرین اور میڈیا کا پاکستان کے بارے میں یہ تاثر بنیادی ہے کہ ایک طرف تو پاکستان کا زمینی انفراسٹرکچر بہت کمزور ہے بڑی شاہراہیں ،بندرگاہیں، ایئرپورٹس، بس اڈے، ریلوے ٹریک ڈیمز وغیرہ ضرورت کے مطابق نہیں ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کا ذہنی انفراسٹرکچر بھی بہت ضعیف ہے۔ بہت سے خلا موجود ہیں اس لیے باہر سے آنے والی ہوائیں اور انٹرنیٹ سے اٹھنے والی لہریں بہت جلد لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ملک کے قیام پر بھی بہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔فرد اور ملت کی سطح پر اپنے آپ پر اعتمادکمزور کیا جاتا ہے۔ اس کا تدارک تو جمہوری معاشروں میں عام طور پر قومی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں کہ وہ اپنے عہدے داروں اور شاخوں کے ذریعے ایسے گمراہ کن خیالات تحریکوں اور ذہنی لہروں کا مقابلہ کریں ۔مگر ہمارے ہاں قومی سیاسی جماعتوں کا اپنا انفراسٹرکچر بھی بہت کمزور ہے۔ اسی لیے قومی اور اجتماعی فیصلوں میں عوام کو شرکت کا احساس نہیں ہوتا ۔اکثر یہ لاعلمی ظاہر کی جاتی ہے کہ ہمیں پتہ نہیں کہ ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی قائدین ملک کو کس سمت میں لے جا رہے ہیں۔
اللہ تعالی نے ہمیں قدرتی انفراسٹرکچر تو بہت مضبوط دیا ہے زرعی اراضی، دریا، سمندر، پہاڑی سلسلےہر قسم کا لینڈاسکیپ ہمارے پاس ہے ۔کاش ہم کبھی اس پہلو پر غور کر سکیں۔ پاکستان کا محل وقوع یا جغرافیائی حیثیت بے مثال ہے۔ ہم مشرق وسطی،جنوب مشرقی ایشیا، وسطی ایشیا، چین اور روس کی رہ گزر پر واقع ہیں۔ان میں سے ہر ایک کو اپنا مستقبل کا نقشہ بناتے وقت پاکستان سے تعلقات کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔ اسکے بعد ہماری نوجوان آبادی ہے جو 60 فیصد سے زیادہ ہے ۔کیا یہ قدرت کا بہت بڑا انعام نہیں ہے کہ ہر سو پاکستانیوں میں سے 60 نوجوان ہیں ۔15 سے 35 سال کی عمروں میں۔کسی بھی ملک علاقے اور قبیلے کیلئے ایک لازوال توانائی اور ایک طاقت!!
مشکل یہ ہے کہ ہم واہگہ سے گوادر کے درمیان ان 60 فیصد توانائیوں اور قدرت کی طرف سے ملنے والے بے کراں خزانوں کے بجائے چین ،امریکہ،سعودی عرب کے خزانوں کی طرف دیکھتے ہیں ۔اپنی قیمتی معدنیات دریافت اور باہر نکال کر اپنی قدر نہیں بڑھاتے۔ ان خزانوں کو زمین اور پہاڑوں سے باہر لانے کی اپنے نوجوانوں کو تربیت نہیں دیتے۔ بلکہ غیر ملکی کمپنیوں کے انجینئروں اور ماہرین کا انتظار کرتے ہیں۔ غیر ملکی کمپنیاں اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ ہم نے تو اپنے مفادات کا باقاعدہ تعین کیا اور نہ معاہدوں کے دوران ان کا تحفظ کیا ۔
ہمیں اپنی یہ ذہنی ساخت اور انداز فکر بدلنا ہوگا ۔ہمارے مسائل کا حل ہماری اسی پاک سرزمین کے اندر موجود ہے ۔کاش کوئی سیاسی پارٹی کوئی میڈیا ہاؤس یا این جی او یہ تحریک چلائے ۔تحقیق کر کے قوم کو اعتماد میں لے کہ ہمارے پاس کیا کیا نعمتیں موجود ہیں ۔کچھ دن اشرافیہ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے وسائل سے اپنے مسائل حل کرنے کا قدرے مشکل راستہ اختیار کر لے تو اس کے بعد ایک طویل عرصے تک آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔
ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اپنے مفادات کا تعین کر لیا ہے اپنے انفراسٹرکچر کو مضبوط کر رہا ہے ۔اپنے دونوں حریفوں پاکستان اور چین کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملکی علاقائی اور عالمی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ گوادر کو ناکام بنانےکیلئے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ گوادر سے صرف سو میل دور اس ایرانی بندرگاہ کا انتظام اس وقت ایک بھارتی کمپنی کے ہاتھ میں ہے۔ چاہ بہار کا ذکر ہم شہنشاہ ایران کے زمانے سے سنتے آ ئے ہیں۔ ایک طرف تو امریکی صدر بھارتی وزیراعظم مودی کا تمسخر اڑا رہا ہے اور دوسری طرف امریکہ نے انڈیا کی کمپنی کو اس بندرگاہ کا نظم و نسق سنبھالنےکیلئے پابندیوں سے چھ ماہ کا استثنا دے دیا ہے۔ یعنی اپریل 2026 تک یہ بندرگاہ انڈین کمپنی کے کنٹرول میں رہے گی۔ بھارت افغانستان اور وسطی ایشیا سے اس بندرگاہ کے ذریعے اپنے تجارتی اقتصادی تعلقات بڑھا رہا ہے کیونکہ اس طرح پاکستان کی راہداری کی ضرورت نہیں رہتی اور یہ بھی غور کیجئے کہ اس کوشش کی سرپرستی امریکہ کر رہا ہے۔ کیونکہ اس طرح جنوبی ایشیا میں چین کا رسوخ کم کیا جا سکتا ہے ۔گزشتہ سال انڈیا نے ایران کے ساتھ ایک 10 سالہ معاہدے پر دستخط کیے تھے اس طرح خشکی میں گھرے افغانستان تک بھی اس کو رسائی مل رہی ہے ۔چند ہفتے پہلے انڈیا نے افغانستان میں اپنی سفارتی حیثیت کا رتبہ بھی بلند کیا ہے ۔چاہ بہار سے ایران اور بھارت افغانستان اور وسطی ایشیا سے ریلوے رابطہ بھی قائم کر رہے ہیں۔
ان پیشرفتوں پر بھی ہماری نظر رہنی چاہیے۔ ایک طرف جب امریکہ انڈیا کشیدگی بڑھ رہی ہے تو اسی اثنا میں پابندیوں سے یہ چھ ماہ کا استثناء جس وسیع تر علاقائی اور عالمی تناظر میں ہے۔اس پر ہماری اشرافیہ غور کرے۔