• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج صبح جب میں نے اپارٹمنٹ سے باہر جھانکا تو مجھے تم بے حساب یاد آئے۔ سامنے پہاڑ پر برف جمی تھی، کھڑکی کھولی تو سرد ہوا نے آہستہ سے میرے گالوں کو یوں چھوا جیسے تمہارا لمس ہو، پہاڑ کی ڈھلوانوں پر سورج کی دھوپ ایسے بکھری تھی جیسے کسی نے چپکے سے تمہارا نام برف پر لکھ دیا ہو۔ میں نے شیشے پر انگلی رکھ کر ’کاف‘ لکھا اور کھڑکی بند کر دی۔ تمہیں اپنا یہ نام بہت پسند تھا۔ چائے کی بھاپ کپ سے اُٹھ کر کھڑکی تک پہنچی اور واپس پلٹ آئی، بالکل تمہاری خوشبو کی طرح، جو آ کر کمرے میں ٹھہر جاتی تھی اور پھر دیر تک مجھ سے لپٹی رہتی تھی۔ آج مجھے جنیوا آئے پورے پانچ برس ہو گئے، اِن پانچ برسوں میں ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب میں نے تمہیں یاد نہ کیا ہو، مگر تمہیں کبھی اِس بات کا یقین نہیں آیا۔ مجھے آج بھی وہ رات یاد ہے جب تم مجھے ائیر پورٹ پر چھوڑنے آئے تھے، یہی سردیوں کے دن تھے، تم نے اپنی پسندیدہ جیکٹ پہن رکھی تھی۔ تمہاری آنکھیں نم ہو رہی تھیں، بے چینی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی، تمہارا بس نہیں چل رہا تھا کہ تم میرے ساتھ ہی وہ فلائٹ بورڈ کر لو، مگر ہم دونوں جانتے تھے کہ ایسا ممکن نہیں، کیونکہ اگر یہ ممکن ہوتا تو تم یہ بھی کر گزرتے، تمہاری محبت ایسی ہی جاں گداز تھی۔ تم بار بار مجھے کہہ رہے تھے کہ جنیوا اترتے ہی مجھے فون کرنا، بھول نہ جانا، مجھے بھول جانے کی عادت جو تھی، لیکن تمہیں کوئی کیسے بھلا سکتا ہے۔ تمہیں یاد ہے نا، اور تمہیں کیسے یاد نہیں ہوگا، جب بھی میں باہر جانے کی بات کرتے ہوئے کہتی تھی کہ تم مجھے ائیرپورٹ چھوڑنے آؤ گے نا، تو تم کسی فلمی ہیرو کی طرح ڈائیلاگ بولتے تھے کہ نہیں، میں نہیں آؤں گا۔ اُس وقت تمہاری آنکھوں میں ایسا کرب ہوتا تھا کہ میں تمہاری طرف دیکھ ہی نہیں پاتی تھی۔ لیکن پھر تم آئے، اور مجھے کسی بچے کی طرح یوں ہدایات دیں جیسے یہ میری زندگی کا پہلا سفر ہو۔ جب تک جہاز فضا میں بلند نہیں ہوا ہم ایک دوسرے کو کالز اور میسجز کرتے رہے۔

تمہاری محبت کی شدت کا مجھے اُس روز ایک مرتبہ پھر احساس ہوا، مجھے یوں لگا جیسے آٹھ ارب کی آبادی میں اُس ایک شخص کو چھوڑ کر آنا، جو یوں مجھے دیوانہ وار چاہتا تھا، درست فیصلہ نہیں تھا۔ وہ تمام لمحات جو ہم نے اکٹھے گزارے تھے ایک ایک کرکے میری نظروں کے سامنے گھومنے لگا، تمہارے شہر کی وہ گلیاں جن میں ہم گھنٹوں بے مقصد گھوما کرتے تھے، تمہارے پسندیدہ کیفے جہاں بیٹھ کر ہم مستقبل کے منصوبے بنایا کرتے تھے اور پرانے شہر کی وہ کھنڈر نما عمارتیں جن کی شکستہ دیواروں میں کے ساتھ لگ کر ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر یوں محسوس کرتے تھے جیسے ہزاروں برس سے ایک دوسرے کے ساتھ ہوں۔ ایسی ہی ایک شام تم نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دن ہماری یہ محبت ختم ہو جائے۔ میں خاموش ہو گئی تھی اور تم ناراض۔ لیکن پھر ایک دن تم نے خود ہی اِس سوال کا جواب دے دیا تھا جو میرے ذہن میں نقش ہو گیا۔ تم نے کہا تھا کہ ہم جتنی بھی قسمیں کھا لیں، وعدے کر لیں، منصوبے بنا لیں، بقول فراز، سنا ہے ایک عمر ہے، معاملات دل کی بھی، وصال جاں فزا تو کیا، فراق جاں گسل کی بھی۔ یہ سن کر میں حسب عادت ہنس پڑی اور تم ہمیشہ کی طرح رنجیدہ ہو گئے۔

جب میں جنیوا ائیر پورٹ پر اتری تھی تو مجھے پہلا خیال یہی آیا کہ میں تمہیں میسج کروں، میں نے کوشش کی مگر ائیرپورٹ کا وائی فائی کنیکٹ نہیں ہوا، پھر امیگریشن کاؤنٹر پر دیر ہو گئی اور اُس کے بعد سامان لینے میں جُت گئی۔ ٹیکسی لے کر جب میں اُس جگہ پہنچی جہاں میری رہائش کا انتظام تھا تو سویٹزرلینڈ میں رات کے گیارہ بج چکے تھے اور پاکستان میں صبح کے چار، میں نے فون دیکھا، تمہاری درجنوں کالز اور میسجز آئے ہوئے تھے، مجھے اندازہ ہو گیا کہ تم پر کیا گزری ہوگی۔ تمہیں میسج کرکے میں سو گئی، صبح جب ہماری بات ہوئی تو تم نے مجھ سے بہت لڑائی کی، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ میں کس حال میں یہاں پہنچی۔ تم نے یہ طعنہ بھی دیا کہ اب میں تمہیں بھول جاؤں گی، یہ بات تم اکثر مجھے پاکستان میں بھی کہا کرتے تھے اور میں مسکرا کر کہتی تھی کہ کیا میں اُس واحد شخص کو چھوڑ سکتی ہوں جو میری زندگی میں سائے کی طرح میرے ساتھ ہے، یہ سن کر تم بچوں کی طرح خوش ہو جایا کرتے تھے اور تمہاری آنکھوں میں چمک آ جاتی تھی، تمہاری آنکھوں کی وہ چمک مجھے اب بھی یاد ہے۔

تم بھی سوچ رہے ہو گے کہ آج اتنے سال بعد میں یہ سب باتیں تمہیں کیوں بتا رہی ہوں، ہمارے تعلق میں تو اب نہ وہ گرم جوشی رہی اور نہ ہی وہ محبت۔ مجھے اپنے جذبات کا مکمل اظہار کبھی بھی نہ کرنا آیا، یہ بات تم بھی جانتے ہو، مگر آج جب مجھے اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے وہ منظر دکھائی دیا تو میں رہ نہ سکی، تمہیں یاد ہے نا کہ ہم نے پلان بنایا تھا کہ ایسے ہی ایک اپارٹمنٹ میں رہیں گے جسکی کھڑکی سے پہاڑ دکھائی دے گا، بالکونی میں پھولوں کی بیلیں ہوں گی جہاں تم اور میں بیٹھ کر کافی پیا کریں گے۔ آج یہ سب کچھ ہے مگر تم میرے پاس نہیں ہو، شاید اِس میں میرا ہی کوئی قصور ہو مگر میرے محبوب کیا میری وفا کو ثابت کرنے کیلئے اتنا کافی نہیں کہ میری زندگی میں اب بھی تمہارے سوا کوئی نہیں! تمہارے بعد کوئی نظر میں جچا ہی نہیں، ایسی ٹوٹ کر محبت کسی نے کی ہی نہیں۔ ہم دونوں کے بیچ اتنی دُوری کب اور کیسے ہو گئی پتا ہی نہیں چلا۔ میں تو پہلے دن سے ہی ایسی تھی، مگر تم تو ایسے نہیں تھے، تعلق نبھانے کی ذمہ داری تو تم نے اٹھائی تھی، تم سمندر تھے میں تو فقط ساحلوں کی ہوا تھی۔

عزیز از جان کاف! میں یہ خط تمہیں تجدید محبت کیلئے نہیں لکھ رہی اور نہ ہی مجھے اِس کی کوئی امید یا آرزو ہے، میں جانتی تھی کہ ہم دونوں کبھی مل نہیں پائیں گے، یہ ان کہی بات تھی۔ لیکن تمہارے ساتھ بتایا ہوا ایک ایک پل میری زندگی کا اثاثہ ہے، میں مرتے دم تک وہ لمحے، وہ یادیں، وہ قُربت نہیں بھلا پاؤں گی جو تم نے مجھے دی۔ یہ خط جلا دینا اور اِس کا جواب مت دینا، کیونکہ اگر تمہارا جواب آیا تو میں پتھر کی ہو جاؤں گی، اور یہ میں نہیں چاہتی۔

فقط تمہاری۔۔۔میرا پسندیدہ نام تو یاد ہی ہوگا!

تازہ ترین