• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ ایسے دلچسپ جملے ملاحظہ کیجئے جو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں لیکن اس بارے میں کبھی سوال نہیں کیا۔مثلاً آپ نے اکثر کسی جگہ لوگوں کو کسی معاملے پر یہ کہتے سناہوگا کہ ”پوری دُنیا میں ایسا نہیں ہوتا“۔عموماً یہ جملہ کہنے والے صاحب سمہ سٹہ سے آگے نہیں گئے ہوتے لیکن جملہ اتنے تیقن سے کہتے ہیں گویا پوری دنیا کاکوناکونا، وادی وادی گھوم آئے ہیں۔یہ جملہ بھی آپ نے سناہوگاکہ ”مجھے صرف انصاف چاہیے“۔ اس کا آسان زبان میں ترجمہ یہ بنتا ہے کہ مجھے اپنے حق میں فیصلہ چاہیے۔ میں نے یہ جملہ ایک ایسی عورت کے منہ سے بھی سنا تھا جسکے بیٹے نے ڈاکے کے دوران دو بے گناہ لوگوں کو قتل کردیا تھا اور عدالت نے بیٹے کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ایک اور جملہ عام ہے کہ’میں توسیدھی اورکھری بات کرتاہوں‘۔گویا یہ الفاظ ادا ہوتے ہی سامنے والے کوسمجھ جاناچاہیے کہ اسکے آگے ایک بے باک، نڈر، سچا اور آخری درجے کا حق گو کھڑاہے۔سیدھی اورکھری بات کرنے والے تو کروڑوں میں ملیں گے لیکن سیدھی اور کھری بات سننے اوربرداشت کرنیوالے کتنے ہیں؟اوریہ جملہ تو زبان زد ِعام ہوگیاہے کہ ’مجھ سے غلط بات برداشت نہیں ہوتی‘۔ غلط یاصحیح بات کا فیصلہ بھی یہ خودکرتے ہیں اور پھرہروہ بات جواِن کے خلاف جارہی ہو اسے غلط قراردے دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ سوری کہنا یا معذرت کہناہارنے کی علامت سمجھاجاتاہے لہٰذاجو سوری کرلیتے ہیں وہ بھی اکثر بعد میں پورے دلائل سے ثابت کرنے میں جت جاتے ہیں کہ میں اصل میں ٹھیک تھا۔

٭٭٭

موبائل فون کی لت میں سبھی مبتلاہیں ا ور بظاہر اس سے نالاں بھی نظرآتے ہیں۔ اسی لت کو کم کرنے کیلئے ایک کمپنی نے ایک موبائل فون کیس بنایاہے جس میں موبائل رکھنے کی جگہ ہے اور جب آپ اسے اٹھاکراستعمال کریں گے تواس کیس کا وزن اتنازیادہ ہے کہ تھوڑی دیر بعد ہی آپ تھک کر موبائل رکھ دیں گے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یوں لوگ موبائل کم استعمال کیا کریں گے۔ بندہ لا جُتی لوے...انتہائی فضول آئیڈیا۔جس نے بار بار موبائل استعمال کرناہے وہ یہ بھاری بھرکم کیس خریدے ہی کیوں اور جس نے موبائل کم استعمال کرناہے وہ اور کئی طریقے استعمال کر سکتا ہے۔میرا ماننا ہے کہ موبائل کے استعمال کوکم کرنے کا بہترین طریقہ فزیکل گیمز ہیں۔ آپ فٹ بال کھیل رہے ہوں، بیڈ منٹن، ٹیبل ٹینس، کرکٹ، ہاکی، ٹینس یا باسکٹ بال۔جب تک آپ کھیل رہے ہوں گے لامحالہ موبائل فون استعمال نہیں ہو رہا ہوگا۔ اور کھیلنے کے بعد آپ اتنا تو تھک ہی جاتے ہیں کہ نیند جلدی آجاتی ہے۔موبائل کم استعمال کرنے کا ایک اور نادر طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے ریڈیو کی طرح استعمال کیا کریں یعنی کوئی معلوماتی چیزلگا کراپنے کام کرتے رہیں اور سنتے رہیں۔موبائل کے استعمال میں اصل خطرہ تب پیدا ہوتا ہے جب اسکرین پرنظریں جمائی جاتی ہیں۔ویسے اس کا بھی ایک حل ہے کہ گھرمیں بلاوجہ لڑائی ڈال لیا کریں، اس دوران کوئی موبائل کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔یہ لڑائی کسی چھوٹی سی بات سے بھی شروع ہوسکتی ہے، اگلی خبر اسی کے بارے میں ہے۔

٭٭٭

ایک امریکی جوڑا شادی کی سالگرہ منانے اور آئندہ زندگی میں جھگڑے نہ کرنے کا فیصلہ کرکے ایک ٹرپ پر ہوٹل گیا۔وہاں کھانے کے بعد میٹھے میں کیک منگوایا گیا۔شوہرصاحب نے اپنے حصے کا کیک اسی وقت کھا لیا جبکہ اہلیہ نے اپنا حصہ فریج میں رکھ دیا کہ صبح اٹھ کرکھاؤں گی۔صبح فریج کھولا تو زندگی بھر کے دُکھ یاد آگئے۔کیک غائب تھا۔پتاچلا کہ شوہر صاحب ڈکارگئے ہیں۔یوں اس عظیم سانحے کے نتیجے میں انہوں نے پچیس سالہ رفاقت ختم کرتے ہوئے شوہرسے طلاق لے لی۔خاتون کہتی ہیں کہ ’اس وقت مجھے احساس ہوا کہ پوری زندگی میرے ساتھ ایسا ہی ہوتاآیاہے، میں صرف اپنے شوہر کا گھر سنبھالنے کیلئے ہوں جبکہ بدلے میں مجھے ان کا بچا کھچا ملتاہے‘۔ میں یہ سین فلما رہا ہوتاتو فریج کے پوائنٹ آف ویو سے خاتون کا کلوز لیتا اور پھر زوم کرتے ہوئے ان کی آنکھوں کے نم ہوتے ہوئے کنارے دکھاتا، پھر فلیش بیک میں اُن پرہونے والے مظالم کا مونتاج دکھاتا، پھر خاتون کے پوائنٹ آف ویو سے فریج دکھاتا جہاں کیک کی جگہ شوہر صاحب دندیاں نکالے بیٹھے ہوتے اور خاتون ایک جھٹکے سے فریج کا دروازہ بند کردیتی۔ساتھ ہی سکرین پر ’The End‘ لکھاہوا آجاتا۔ایسی ہی ایک خاتون روتے ہوئے اپنی سہیلی کوبتا رہی تھیں کہ میرا شوہرمجھ سے زیادہ اپنی ماں سے محبت کرتا ہے۔سہیلی نے تفصیل پوچھی تو خاتون نے بتایا کہ میں نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ اگر میں اور تمہاری ماں دریا میں ڈوب رہی ہوں تو تم پہلے کس کو بچاؤگے تو شوہر نے کہا اپنی ماں کو۔ یہ سن کر سہیلی گہری سوچ میں گم ہوگئی۔خاتون نے آنسو پونچھتے ہوئے پوچھا کہ مجھے کوئی مشورہ دو کہ میں کیا کروں؟ سہیلی نے اطمینان سے جواب دیا’جتنی جلدی ہوسکے تیراکی سیکھ لو‘۔

٭٭٭

ویسے تو مزاح میرا پسندیدہ میدان ہے لیکن اس میدان میں اتنے کانٹے اُگ آئے ہیں کہ اب توہنسانابھی باقاعدہ جرم بنتاجارہاہے۔کسی کی رنگت پر بات نہیں ہوسکتی، موٹاپے یاکمزوری پربات نہیں ہوسکتی،آواز کا مذاق نہیں اڑایا جاسکتا، ذات پرطنزنہیں کیاجاسکتا، جینڈر کی بنیادپر کوئی جملہ نہیں کسا جاسکتا۔ کسی نام کونہیں بگاڑا جاسکتا۔پچھلے دنوں معروف لکھاری عرفان جاویدبتارہے تھے کہ ایک محفل میں مشتاق یوسفی کی کتاب کے کچھ ٹکڑے پڑھنے پر بھی اعتراض ہوگیا کہ اس میں خواتین کی تضحیک کاعنصرشامل ہے۔بندہ کرے تو کیا کرے۔ اِن پابندیوں کی رُوسے تو پچھلے سارے مرحوم مزاح نگاروں پر پیکا ایکٹ لاگو ہوتا نظر آتاہے۔پطرس کامضمون ’کتے‘ بھی نہیں کلیئر ہوگا کہ جانوروں کے حقوق کی تنظیم کہہ سکتی ہے کہ اس میں کتے کا مذاق اڑایا گیاہے۔

تازہ ترین