• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ اور ہندوستان 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدہ کرنے سے دفاعی شراکت داری کے نئے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں! یہ معاہدہ دو طرفہ اعتماد کی علامت ہونے کے علاوہ چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے خلاف اسٹریٹجک حکمتِ عملی بھی ہے۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے معاملات اور باہمی اعتماد بحال کر کے، جارح ہندوستان و پاکستان کے درمیان سیز فائر کروانے کے باوجود ہندوستان سے دفاعی معاہدے سے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔صدر ٹرمپ کا" آئی لو پاکستان" کہنا، ہمارے وزیراعظم و فیلڈ مارشل پر ریشہ خطمی ہونا کیا محض دکھاوا تھا؟کیا ہم پھر دلکش امریکی جال میں پھنس گئے ہیں؟ یہ اعتراضات بجا لیکن حقیقتِ حال کا ادراک کیے بِنا ایسے خدشات کا اظہار کرنا مناسب نہیں کیونکہ بدگمانی صرف خرابی پیدا کرتی ہے۔ در حقیقت یہ معاہدہ پہلی مرتبہ امریکی سیکرٹری ڈیفنس ڈونلڈ رمز فیلڈ اور ہندوستانی وزیرِ دفاع پرناب مکرجی نے 28 جون 2005 واشنگٹن میں کیا تھاجس سے پہلے دفاعی تعلقات کی نوعیت اور دائرہ کار کے حوالے سے امریکہ اور ہندوستان کے درمیان بنیادی فریم ورک کی یادداشت پر 12 جنوری 1995 کو واشنگٹن میں امریکی سیکرٹری دفاع ولیم پارکر اور ہندوستانی ہوم منسٹر شنکر راؤ چون نے دستخط کیے تھے۔ 2015میں اس معاہدے کی تجدید کوالالمپور میں امریکی سیکٹری دفاع ایسٹن کارٹر اور ہندوستانی وزیرِ دفاع منوہر پاریکر کے دستخطوں سے ہوئی جبکہ 2025 میں اس کی تجدید امریکی سیکرٹری دفاع پیٹ ہیکسیتھ اور ہندوستانی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے کوالالمپو ہی میں کی۔ گزشتہ تین دہائیوں سے امریکی حکومتیں اور تھنک ٹینک ہندوستان کو اپنا اسٹریٹیجک ساتھی کہتے ہیں جبکہ پاکستان پر ان کا واضح مؤقف ہے کہ اس سے تعلقات بوقتِ ضرورت صرف عارضی نوعیت کے ہونگے۔ صدر ٹرمپ نے قریباً 60 دفعہ مختلف بیانات اور تقاریر میں پاکستان کی جانب سے مئی 2025 کی جنگ میں ہندوستان کے سات جہاز مار گرانے کا بار بار اعلان کر کے بلآخر ہندوستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ میڈیا پر اربوں روپوں سے خریدی جھوٹی شہرت کو حقیقت ماننے والا "موذی" ابتداء میں امریکہ کے سامنے بہت اکڑتا رہا، پاکستان کے ہاتھوں ہندوستان کی شکست تسلیم کی نہ ٹرمپ کے جنگ بندی کروانے کا دعوے مانے لیکن جب صدر ٹرمپ نے معاشی شکنجہ کسا تو "موذی" اتنی پابندیوں اور سختیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے ٹرمپ کے قدموں میں آن گرا، امریکہ کی روس سے تیل نہ خریدنے کی سب سے کڑی شرط بھی مان لی لیکن پہلے کے آرڈر واپس لینے پر بوجوہ معذوری ظاہر کی۔ مبینہ طور پر ہندوستانی تجویز پر ہی دو روسی تیل کمپنیوں پر امریکہ سے پابندیاں لگوا کر ہندوستان جانے والے تیل برداربحری جہاز تک واپس کروا دیے یوں بنیے نے اپنی شاطرانہ چال چل کر دیرینہ دوست روس سے بھی ہاتھ کر دیا۔ اب امریکہ سے 10 سالہ دفاعی معاہدے کی تجدید کے تحت ہندوستان کو اربوں ڈالر کے امریکی ہتھیار، اسلحہ اور لڑاکا جہاز خریدنا ہوں گے۔روس کے مقابلے میں 5 سے6 ارب ڈالر سالانہ کے گھاٹے پر امریکہ یا مشرقِ وسطیٰ سے تیل خریدنا ہوگا، امریکی درآمدات پر مکمل طور پرٹیرف ختم کرنا ہوگا۔ ہندوستان نے چین کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے اور صدر ٹرمپ کے نوبل پرائز کے لیے نامزدگی کا راستہ ڈھونڈ نکالنے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔ مزید براں ہندوستان کی اپریل 2026 تک امریکہ و اسرائیل کو بگرام ایئر بیس حاصل کرنے کی یقین دہانی کرانے پر چاہ بہار بندرگاہ پر پابندی سے چھ ماہ کا استثناء بھی مل گیا ہے۔ہندوستان چاہ بہار کے رستے افغانستان کو سامان رسد اور اسلحہ سپلائی کرنا چاہتا ہے جو پاکستان سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا متبادل انتظام ہوگا جس کے لیے ایران کے سامنے پرکشش مراعات کی گاجر بھی لٹکائی جائے گی۔امریکہ نے ہمیں دھوکہ نہیں دیا بلکہ ہم خود بار بار ایک ہی بل سے ڈسے جانے پر ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔7 مئی کو ہندوستان کا پاکستان پر حملہ امریکی آشیرباد سے ہی کیا گیا تھا جسکا واضح ثبوت صدر ٹرمپ کاجانبین پر اثر انداز ہونے سے متعلق بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ دونوں کے درمیان پندرہ سو سال سے لڑائی ہے وہ آپس میں خود مسٔلہ حل کریں ۔ البتہ جب ہندوستان کی واضح شکست نظر آنے لگی تو وہ اسے بچانے کیلئے جنگ بندی کیلئے فوراً حرکت میں آگئے۔ اسی طرح ہندوستان کی افغانستان کے ساتھ گٹھ جوڑ سے پاکستان میں دہشتگردی کے حوالے سے بیان دیا کہ میں جب چاہوں پاکستان اور افغانستان کی جنگ بندی کروا سکتا ہوں مگر میرے پاس دوسرے ضروری کام ہیں (یعنی ہندوستان کو افغانستان میں پاکستان کے خلاف کھل کھیلنے کیلئے مہلت فراہم کی)۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اب کی بار پاکستان نے بھی ٹرمپ کے عارضی التفات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کو اقوامِ عالم میں بلکل تنہا کردیا ہے جیسے ماضی میں پاکستان کو کیا گیا تھا۔ ہندوستان پاکستان سے شکستِ فاش کے بعد ابھی تک سنبھل نہیں سکا ہے! 1971؁ میں دھوکے، مکر و فریب، پاکستانی سیاستدانوں کی بے عملی اور وطن فروش رویوں کے بِنا پر پاکستان کو دو لخت کرنے پر نازاں ہندوستانی قوم " موذی" سے بےحد نالاں ہے جس نے اپنی نا عاقبت اندیشی سےمحض چار روز میں ہندوستان کی شناخت فاتح سے شکست خوردہ میں تبدیل کر دی ۔اگر آج ہندوستان میں عام انتخابات کرائے جائیں تو بی جے پی کا صفایا ہو جائے گا جس کا خوف "موذی" اور بی جے پی کو کھائے جا رہا ہے۔ اُدھر بنگلہ دیش اور پاکستان کے مابین بھائی چارے، محبت و اخوت کے ایسے تعلقات استوار ہو رہے ہیں کہ جیسے "ہم ایک قوم اور دو ملک ہیں" اور انشاءاللہ رہیں گے۔ امیدِ واثق ہے کہ برادر ملک ایران بھی جون 2025 میں اسرائیل اور ہندوستانی گٹھ جوڑ سے ایران کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانےاور اسکی عسکری قیادت شہید کرانے والے ہندوستان کی اصلیت سے آشنا ہونے کے بعد اس کی چالوں میں نہ آئے گا۔ بگرام بیس چین سے زیادہ پاکستان اور ایران کی جوہری صلاحیت پر نگرانی کے لیے اسرائیل کی ضرورت ہے جبکہ امریکہ سدا سےاس کی خواہش کے تابع۔

پاکستانی قوم کو اس وقت سیاسی، مذہبی، گروہی دھڑے بندیوں سے اوپر اٹھ کر پاکستان کے روشن اور تابناک مستقبل کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر نفرت آمیز پیغامات، ریاست سے متنفر کرنے والی خبریں، دلوں میں اربابِ اختیار، افواجِ پاکستان کے حوالے سے شک و شبہ ڈالنے والے وی لاگ زہر ِقاتل ثابت ہوں گے۔ حکومت قوم کو اعتماد میں لے جبکہ بِنا وزارت خارجہ سے بریفنگ لیے بین الاقوامی میڈیا پر حکومتی اراکین کو بیان بازی سے سختی سے منع کرے۔ ان کی بے وقت کی راگنی اور پھکڑ بازی سیاسی جلسے میں تو چل سکتی ہے لیکن خارجہ امور جیسے اہم معاملات کےحوالے سے نہیں۔ برائے کرم قوم کے لئے کانٹے نہ بوئیں۔

؎زجانِ خاور آں سوزِ کہن رفت

دمِش و ا ماند و جانِ او ز تن رفت

تحریر:عظمیٰ گل دختر جنرل (ر) حمید گل

تازہ ترین