اسلام آباد ( طاہر خلیل ، عاطف شیرازی ) چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نےکہا ہے کہ اگر صوبوںکو اختیارات کی منتقلی رول بیک(واپسی) کرنے کی کوشش کی گئی توتاریخ اپنا حساب خود لے گی اور ایسا کرنےسے کئی وفاق کی موجودہ صورتحال اور حدود میں خدانخواستہ تبدیلی آسکتی ہے ، کالا باغ ڈیم پرصوبوں کی مرضی کے بغیر کوئی بھی کام صوبوں کو نہ سینیٹ کو قبول ہوگا، کالا باغ ڈیم کے حوالے سے بیوروکریٹ کےبیانات پارلیمنٹ کی توہین ہیں ،وفاق پاکستان کو اشرافیہ ،سول و ملٹری بیوروکریسی کے اسٹیٹس کو جیسے چیلنجز کا سامنا ہےجس کوختم کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو تاریخ ہمیں معاف نہیںکرےگی ،اس بات کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کثیر النسلی اور کثیر الثقافتی ریاست ہے ، نئی نسل اپنی زبان اور قومیت کو اپنا نا چاہتی ہے ، ہمیںبحیثیت ایک قوم ،پارلیمان،پارلیمانی اداروں میں کام کرنے والے اداروں کا احترام کرنا چاہیے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے ہفتہ کوسینیٹ کے 44ویںیوم تاسیس کی تقریب "وفاق کو خطرات اور سینیٹ کا کردار" میںخطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ پروفیسرڈاکٹر سید جعفر احمد، سینٹرا عتزازاحسن، سینٹر مشاہد اللہ کی تقاریر کے بعد بولنےکو کچھ نہیں تاہم ایک بات سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ وہ خلیل جبران کے اشعار ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ قابل رحم ہے وہ قوم جو ماتم میں آواز بلند کرتی ہے، قابل رحم ہے جو ماضی میںر ہتی ہے ، قیام پاکستان کے وقت جو بحث ختم ہوچکی تھی ہم اس کو دوبارہ زندہ کردیتےہیں تاکہ اشرافیہ کا اور سول و ملٹری اسٹیٹس کو ( پرانا نظام) جو 1947ء سے چلا آرہا ہے اس کو تقویت مل سکے اب پاکستان ایسے موڑ پر آکھڑا ہوا ہے جہاں وفاق پاکستان کے سامنے ایسے چیلنجز ہیں اگرہم نے ان چیلنجز کو ختم نہ کیا تو تاریخ ہمیںمعاف نہیںکرے گی اس بات کو ذہن نشین کرنا ہو گا، تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کیثرا لنسلی او ر کیثرالثقافتی ریاست ہے ، نئی نسل اب اپنی قومیت ، زبان کو اپنانا چاہتی ہے جب تک ہم ریاست کے طور پر ان امنگوں، امیدوں کو تسلیم نہیںکرتے تو وفاق کو مضبوط نہیںکر سکتے ، انہوںنے کہا کہ 73ء کی آئینی اسکیم کے تحت تمام سیاسی جماعتوںکا تمام صوبوں میں عکس ہوگا مگر آج جب کروڑوںروپے والے آگے آئے تو سینیٹ میںفیڈریشن کا نہیں صرف بزنس کا نمائندہ ہوگا انہوںنے کہا کہ ایک وفاق کے اندر سینیٹ کو تمام صوبوں کےحوالے سے یکساں نمائندگی تو دے دی مگر کوئی اہم مسئلہ جو جوائنٹ اسٹنگ میں گیا تو کیا ہوا اگر مشترکہ مفاد کونسل کے فیصلے میںتنازع آجائے تو صوبے یا وفاقی حکومت کو مشترکہ مفاد کونسل کے فیصلے کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں لے جا سکتے ہیں ، آئین کے تحت کام کرنے والے اداروںکا احترام کیا جائےانہوں نے کہا کہ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی میںنصاب کنکرنٹ لسٹ میں تھانصاب اب صوبوںکا اختیار ہے اس لیے وفاقی حکومت کا قائم کردہ نصابی بورڈ غیر آئینی ہے ہم صوبائی خود مختاری کی بات کررہےہیںاس میں کوئی دور ائے نہیںہے کہ اگرصوبوںکو اختیارات کے عمل کی منتقلی کو رول بیک( واپس) کرنے کی کوشش کی گئی اور تاریخ دہرانےکی کوشش کی گئی تو تاریخ اپنا حساب خود لے گی وہ حساب کہیںایسا نہ ہو کہ وفاق کی موجودہ صورتحا ل اور حدودمیں خدانخواستہ کوئی تبدیلی آجائے ، بحیثیت ایک قوم ،پارلیمان، پارلیمانی اداروں اور اس کے تحت کام کرنے والے اداروںکا احترام ضروری ہے، انہوںنے کہا کہ3 صوبائی اسمبلیاں کالا باغ پر قراردادیں پاس کرچکی ہیں،اخبارات میں ایک بیوروکریٹ نےکالا باغ ڈیم کے حوالے سے مہم چلارکھی ہے اس کا بیان خلاف آئین ہےاس کے ذہن میں رہے وہ بیور و کریٹ حکومت کا ملازم ہے کالا باغ کا ایشو مشترکہ مفاد کونسل میںجانا چاہیےاگرصوبوںکی مرضی کے بغیر کام ہوگا تو یہ صوبوںکو قابل قبول ہوگا نہ سینٹ کو ،آئین کے اندر طریقہ کار موجود ہے اس کو فالو کیا جائے انہوںنے کہا کہ کم نظری اور پالیسیوں کی وجہ سے آئینی فریم ورک کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو نتائج اچھے نہیںہونگے،انہوںنےکہا کہ طویل جدو جہد کے بعد سینٹ نے پی اے سی میں اپنی نمائندگی تسلیم کرائی یہ کوئی بھیک نہیں تھی 18 ویں ترمیم آئین کا تقاضا تھا اس بات پر حکومت کا مشکورہوں کہ انہوںنے اس حقیقت کو تسلیم کیا،انہوںنےکہا کہ وہ پروفیسر ڈاکٹر جعفر سے اس بات پر اختلاف کرتےہیں کہ سینٹربراہ راست منتخب ہواس طرح سینٹ کی روح متاثرہوگی۔سینٹ کے اپوزیشن لیڈرسینٹر اعتزازا حسن نےکہاہے کہ آرٹیکل 147 صوبائی حکومت کاحق ہے اس پر شرائط ایک صوبے پرچڑھائی کےمترادف ہے دوسرے صوبے میں چھوٹو گینگ نے ریاست بنالی ہے ،بچے اغوا ہورہے ہوں، عیسائیوںکی4 آبادیوںکو جلا دیا گیا ، جہاںجی ایچ کیو،کامرہ ائیربیس پر حملے ہوئے ،بچوں سے اجتماعی زیادتی ہوئی ہو،کہاں گئی گڈگورننس ایسے معاملات پر بھی سینٹ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے انہوںنے کہاکہ فیڈریشن کو بہت سے خطرات ہیں ان میں سب سے بڑا خطرہ دہشتگردی اور عدم برداشت ہے جو ذہنوںمیں ساخت ہوئی ہے اور معاشرے میںسرایت کرگئی ہے اس بارے سینٹ کو سوچنا ہے اس سے وفاق کو خطرہ ہے طرزحکمرانی ناقص ہے لاہور میںایک پراجیکٹ پر جتناپیسہ لگایا جارہا ہے اتنا صوبہ بلوچستان کا پورا بجٹ ہے لاہور کیلئے 134 ارب روپے بجٹ میں رکھے گئےہیں توفیصل آباد کیلئے6،ملتان کیلئے4 اوررحیم یار کیلئے تو چند کروڑروپے رکھے گئے ہیں، امن عامہ کسی صوبےمیںخراب ہوتو وفاق کی جانب سے قانون نافذکرنےوالے دستے بھیج دئیے جاتے ہیں یہ گڈ گورننس نہیں اور آرٹیکل 147 صوبائی حکومت کا حق ہے مگر اس پر شرائط لگائی جاتی ہیںکہ اس شرائط پر نہ بھیجیں،انہوںنےکہاکہ 73 کے آئین میںکلیدی کردار شہید بھٹو کاتھاجوچاہتے تو ایک چھوٹے سے دستخط کرکے جیل سے نکل جاتے ان کےلیےجیل کے دروازےکھل جاتے، 77 کے مارشل لاء میں سرعام کوڑے مارے جاتے تھے5 منٹ میں3-3 سال قید بامشقت بغیر سنےدے دی جاتی تھی، کارکنوںنے قربانیاں دی ہیں شہید بے نظیرنے اپنے والد کاخون آلود علم تھام کر جمہوریت کو مستحکم کیا آج کا دن ان کی قربانیوںکے اعتراف کا دن ہے انہوںنےکہاکہ 73 کا آئین تین بنیادی ستونوںپر قائم ہے اس کےتین ستون جمہوریت، وفاق اور پارلیمانی نظام ہے۔ انہوںنے کہاکہ 18ویں ترمیم میں سینٹ کالیڈنگ رول تھا،18ویں ترمیم کے بعد اختیارات صوبوں کے پاس آ گئے ہیں وفاق صوبوں کو اختیارات منتقل نہیں کرتا اگر وفاق اور صوبوں میں کشمکش ہو تو خطرناک صورتحال پیدا ہو جائے گی ۔ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا غفورحیدری نے کہاکہ ریاست کےقیام کے بنیادی مقاصدکومحور بناکرآگے بڑھنا ہوگا، 73 کے آئین کو طالع آزمائوں نے پائوںتلے روندااور بعض لوگوں نے مٹھائیاں بانٹیں پھر آئین کیسے چلے گا انہوںنے کہا کہ اگر آئین پر عملدرآمد ہوتاتو ان چیلنجز سے نکل چکے ہوتے، انہوںنےکہا کہ ہماری پالیسیوں میںتوازن اور آئین پر عملدرآمد ہوگا تو مملکت ترقی کرے گی ، اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد قیصرنے کہاکہ فیڈریشن ایسی پالیسی ہے جو دستور ساز اداروںکو اکٹھا کرتی ہے 28 جمہوری ممالک ایسے ہیںجو وفاقیت پر یقین رکھتےہیںان میں ایک پاکستان بھی ہے انہوںنے کہا کہ سیاسی عدم استحکام، عدم مساوات اور عدم تحفظ بڑے چیلنجز ہیں ۔ سپیکربلوچستان اسمبلی راحیلہ درانی نے کہاکہ چیئرمین سینٹ رضاربانی کی سینٹ میں جمہوری روایت کے فروغ اور جمہوری استحکام کی کاوشیںقابل تحسین ہیں ۔ سیکرٹری سینٹ امجد پرویز ملک نے خطبہ استقبالیہ دیتےہوئے کہاکہ یہ تقریب جمہوری روایت کےفروغ کیلئے منعقد کی گئی انہوںنے کہاکہ انہوںسابق سینٹر چوہدری اسلم جو 73 میںسینٹ کے ممبر تھے سے اس دور کی یادداشتوں کےمتعلق پوچھا توانہو ںنےبتایا کہ سرکاری ٹی وی اور پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں جو ریکارڈ تھاسب کچھ مارشل لاء کے دوران لے لیا گیا ایم این اے ہاسٹل سے تمام کتب تک اٹھاکرلے گئےتاہم ہم نے میڈیا پر بھروسہ کرکے عوام تک پہنچنےکی کوشش کی ہے سینٹ کا 44واں یوم تاسیس اسی سلسلےکی ایک کڑی ہے۔ سابق چیئرمین سینٹ نیئر بخاری نےکہا کہ 73 کا آئین ایک معاہدہے جو صوبائی خود مختاری کی بات کرتا ہے صوبوںکی مضبوطی سے وفاق مضبوط ہوتا ہے انہوںنےکہا کہ جنہوںنے جمہوری کیلئےقربانیاںدیں وہ قابل تحسین ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر مشاہد اللہ نےکہا ہے کہ جنہوںنے لال مسجد آپریشن کیاایسٹ پاکستان کو علیحدہ کیا ان میں سے کوئی اشتہاری ملزم ہےاور کسی کویاد کرنے والا بھی کوئی نہیں، وفاق اللہ کی ذات ہے باقی سب وحدتیں ہیں، ذہنی آزاد لوگ ڈسپلن کے پابند نہیں ہوتے ، فوج میں ڈسپلن ہے تو سب کی ٹانگ اور ہاتھ ایک ساتھ اٹھتےہیں اور یس سر کرتے ہیں نو سر تو ان میںہے ہی نہیں۔ انہوںنے کہا کہ جب کاکول اکیڈمی میںبچہ جاتا ہے تو اس کی بے عزتی کی جاتی ہے تو بھی یس سر کہتا ہےفوج میں کورٹ مارشل اور کوارٹر گارڈ نہ ہو تو ڈسپلن قائم نہیں رکھا جا سکتا ۔