• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت سے دوسرے معاملات کی طرح، پاک افغان کشیدگی کا معاملہ بھی اتنا سادہ ومعصوم نہیں رہا کہ قطر اور استنبول کی دو چار ملاقاتوں کی ہتھیلی پر کوئی سرسوں جمائی جاسکے ۔ دنیا پھر ایک سرد جنگ کی طرف لوٹ چکی ہے جہاں باہم جنگ آزما گروہ بھی واضح دکھائی نہیں دیتے، اُن کے اہداف ومقاصد بھی ڈھکے چھپے ہیں اور جو اپنی اپنی حدودِ توفیق کے مطابق، ہر کہیں اپنی تخریب گاہیں بنائے بیٹھے ہیں اور کچھ نئی چراگاہوں کی تلاش میں ہیں۔

میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور اَب پھر دُہرا رہا ہوں کہ پاکستان کے ساتھ موجودہ افغان انتظامیہ کا تنازعہ محض چند اختلافات تک محدود نہیں۔ کم وبیش سترہ اٹھارہ برس پرانے، بازوئے شمشیر زَن کو، جسے وہ اپنی حقیقی سپاہ خیال کرتی ہے، بہ یک جنبش قلم، صفِ دشمناں میں دھکیل دینا، کم ازکم اُس کی نظر میں خسارے کا سودا ہے۔ طالبان آسانی سے آمادہ نہیں ہوں گے کہ معتبر دوستوں کی ٹھوس ضمانت پر بھی اپنے اسلحہ خانہ کے سب سے موثر اور ہلاکت آفرین ہتھیار سے دستبردار ہوکر خود کو کلی طورپر غیرمسلح کرلیں۔ دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اُن کی معیشت اور کئی دیگر پہلوئوں کا دارومدار بھی پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ کردار پرہے جو اُن کی تجوری کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔

حالیہ مذاکرات کے دوران، افغان رجیم کا یہ موقف ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا کہ ’’یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے۔ وہ خود اسے کیوں حل نہیں کرلیتا؟ ہم پر اس کی ذمہ داری کیوں ڈالتا ہے؟‘‘ یہ بات برسوں سے دُہرائی جا رہی ہے۔ بلاشبہ ایک اعتبار سے یہ ہمارا داخلی معاملہ تھا اور رہا، اس لئے کہ اس نے اسی سرزمین سے جنم لیا، یہیں پروان چڑھا اور یہاں ہی فتنہ وفساد کے جوہر دکھائے۔ لیکن کیا 2007سے آج تک، گزشتہ اٹھارہ برس میں کچھ نہیں بدلا کہ اسی بے مایہ و بے مصرف دلیل کو دُہرایا جاتا ہے جس کا منترا آج بھی افغان رجیم پڑھ رہی ہے؟

بہت کچھ جاننے اور سمجھنے ، حقائق کی گہرائیوں تک نگاہ رکھنے نیز طالبان اور تحریکِ طالبان کی باہمی گرمجوشی کے تمام پہلوئوں سے آگاہی کے باوجود، پاکستان نے اسے اپنے مسئلے کی نگاہ سے دیکھنے اور اپنی حکمت عملی کے ذریعے حل کرنے کی بیسیوں کوششیں کیں۔ درجنوں آپریشن کئے۔ بیسیوں چھوٹی بڑی کارروائیاں کیں۔ ہزاروں شہیدوں کا لہو دیا۔ اس سب کچھ میں اگر افغان رجیم کا کوئی حصّہ تھا بھی تو انتہائی منفی حد تک، یعنی بجھی چنگاریوں پر تیل چھڑکتے رہے۔ یہ سلسلہ تخلیقِ ٹی ٹی پی کے فوراً بعد 2007ءمیں ہی جاری ہوگیا تھا جو مالا کنڈ، سوات اور نواحی علاقوں سے ہوتا ہوا بڑے کلین اَپ آپریشن کی شکل اختیار کرگیا۔ اسی دوران جنوری میں جنوبی وزیرستان اور ملحقہ علاقوں میں ’راہِ نجات‘ کے نام سے آپریشن جاری رہا۔ دسمبر 2014ءکی خونخوار واردات کی ذمہ داری قبول کرلئے جانے کے بعد بھی، افغانستان حکومت کو براہ راست چیلنج کرنے کی ضِد کے بغیر پاکستان کی پارلیمنٹ نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جو ظاہر ہے ’’سرپرستانِ عالی مرتبت‘‘ کی وجہ سے ناکام رہا اور پھر بات ’ضربِ عضب‘ جیسے بڑے آپریشن تک جا پہنچی۔

دَس سال قبل شروع ہو نے والا آپریشن ’ردالفساد‘ ہنوز کسی نہ کسی نوع جاری ہے۔ کہیں کہیں بات چیت کے دریچے کھلتے رہے۔ سیز فائر کی کرنیں بھی پھوٹتی رہیں۔ برف پگھلنے کے آثار بھی دکھائی دیتے رہے لیکن معاملہ یہ تھا کہ مسئلے کی جَڑ وہیں کی وہیں تھی۔

پاکستان کو اپنا معاملہ گھر کے اندر سے ٹھیک کرنے کی نصیحت کرنیوالوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ آپریشن ہم نے خود کئے۔ اپنے سرمائے سے کئے۔ اپنے لہو سے کئے۔ کوئی 2600 کلومیٹر طویل افغانستان سرحد پر حفاظتی باڑ تو ہم نے لگوائی جس پر دو ارب روپے کے سرمائے کا بوجھ لگ بھگ پاکستان نے اٹھایا۔ یہ بھی مت بھولئے کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد بھی پارلیمنٹ اور قومی جذبات کے ترجمان ’نیشنل ایکشن پلان‘ کے 23 نکات میں ہم نے ننانوے فی صد ذمہ داریوں کا بوجھ خود ہی اٹھایا تھا اور اندرونی طور پر اس کا ردّعمل بھی برداشت کیا۔ ایک قومی ایجنڈا سیٹ کیا، قتل کے الزام میں بڑی سزائیں دیں، فوجی عدالتوں کی راہ ہموار کرنے کیلئے آئینی ترمیم کی، نئے ادارے بنائے، کڑے قوانین اور ضابطے نافذ کئے، میڈیا پر قدغنیں لگائیں۔ گویا سبھی کچھ اپنے سر لے لیا۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ہم کتنا کچھ کرپائے مگر اس حقیقت سے کون انکار کریگا کہ پاکستان نے بھرپور ’اندرونی‘ کوششیں بھی کر ڈالیں جن کے بارآور نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ افغان رجیم اُنہیں زندہ رکھنے کے درپے تھی اور اُنہیں دانہ، پانی، پناہ سب کچھ دے رہی تھی۔ گویا سینۂِ شمشیر سے باہر تھا دَم شمشیر کا۔

اب یہ لوگ کہہ رہے ہیں ’’پاکستان خود کیوں کچھ نہیں کرلیتا؟‘‘ تنگ آ کر پاکستان نے کچھ کیا ہے تو افغان انتظامیہ نے ہاہاکار مچا دی ہے۔ اتنی سی بات نہیں بتائی جا رہی کہ چلیں آپ (افغان حکومت) کی تو ہمارے ساتھ جنگ بندی ہوگئی ہے، جو آپ کی چھتوں منڈیروں پر بیٹھے توپیں داغ رہے ہیں، اُن سے آپ کا اَب رشتہ وتعلق کیا ہے؟ اگر نہیں ہے تو پاکستان کو کرنے دیں جو وہ کرنا چاہتا ہے یا پھر پاکستان ہی کی طرح آپ بھی اُن کے خلاف سرگرم ہوجائیں۔نہ معزز مہمانوں کو زحمت دیں نہ سفارت کاری کا بھرم گنوائیں۔

قومی بیانیے کے صرف ایک نکتے کے بارے میں افغان انتظامیہ سے مدد مانگی گئی تھی اور وہ تھا کہ ’’پاکستان میں افغان مہاجرین کی رجسٹریشن اور واپسی کے عمل کو منظم کیاجائے۔‘‘ اُن سے یہ کام بھی نہ ہوپایا۔ اُلٹا اسے بھی ہماری فردِ جرم بنا ڈالا۔ تو اب پاکستان جانے اور وہ جانیں، جو پاکستان سے جنگ آزما ہیں۔ جو روز ہمارے شہیدوں کی لاشیں گرا رہے ہیں، روز ہمارے گھر ماتم کدے بنا رہے ہیں۔ یہ بھیانک کھیل گرم جوش میزبانی اور بے سمت سفارتکاری سے زرا آگے کا ہے۔ معاملہ ایک نازک موڑ تک پہنچ چکا ہے۔ کیا کابل قیادت اس کی اہلیت رکھتی ہے؟

اگر پاکستان اتنا کچھ کرلینے اور اتنے گہرے زخم کھالینے کے بعد اپنے عوام، اپنی سرزمین کے تقدس اور اپنی قومی سلامتی کے لئے ایسے سرکش گروہوں کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر روکتا یا اُن کی سرکوبی کرتا ہے جو افغانستان کی سرزمین میں پناہ لئے بیٹھے ہیں تو اُس پر کابل کو جِز بِز ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بہتر ہوگا کہ موجودہ مذاکرات میں جو بھی ثالثی نظام وضع ہو، اُس پر موثر عمل درآمد کے نکتے کو سب سے باعمل بنایا جائے۔ اگر ایسا نہ ہو ا تو یہ کوشش بھی ماضی کی کئی کوششوں کی طرح بے سود ٹھہرے گی۔

پاکستان بہرحال ایک نہایت مثبت، تعمیری، نتیجہ خیز اور بامعنی مذاکرات چاہتا ہے جو محض لیپا پوتی تک محدود نہ رہیں بلکہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے معاون ثابت ہوں۔ اس ضمن میں قطر اور ترکی کی کوششیں نہایت قابل احترام ہیں لیکن جب تک یہ چشمہ کابل کے سنگ زاروں سے نہیں پھوٹے گا، بات آگے نہیں بڑھے گی۔

تازہ ترین