سردار دائود خان بچوں سمیت قتل کردیے گئے۔ثور انقلاب آگیا اور نورمحمد ترکئی صدر بن گئے۔ماسکو مطمئن ہوگیا۔ڈیڑھ سال ہی گزرے تھےکہ ترکئی کو اپنے ہی انقلابی ساتھی حفیظ امین نے راستے سے ہٹادیا۔ماسکو پریشان ہوگیا۔دو ماہ گزرے تھے کہ سوویت افواج نے ایوان کا گھیرائو کر کے حفیظ کو قتل کردیا۔اقتدار ببرک کارمل کے ہاتھ میں چلا گیا۔ ماسکو پھر سےمطمئن ہوگیا۔ماسکو مطمئن ہوگیا تو واشنگٹن بےچین ہوگیا۔ اس بے چینی نےافغان مجاہدین کوجنم دیدیا۔مجاہدین نےدس برس تک واشنگٹن کےحصے کی جنگ لڑی۔ بالآخر سوویت افواج کا انخلاہوگیا۔مجاہدین کے بیچ اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی۔صدر نجیب اقوام متحدہ کے دفتر میں محصور ہوگئے۔اقتدار کی بندر بانٹ میں وزارت عظمی کا قرعہ گلبدین حکمتیار کے نام نکل آیا۔صدارت کے حقدار استاد ربانی ٹھہرے۔وزارت دفاع احمد شاہ مسعود کے حصے میں آگئی۔دفاع کی وزارت مسعود کو جچتی بھی تھی۔انکی گوریلا ذہانت کے دشمن بھی قائل تھے۔مگر کابل میں انکی موجودگی گلبدین سے ہضم نہ ہوئی۔اپنے حصے پرگزارا کرنے کی بجائے گلبدین نے کابل پر راکٹ برسانا شروع کر دیے۔ کابل کی بنیادیں ہل گئیں۔پانچ برس کی خانہ جنگی سے طالبان نے جنم لے لیا۔قندھار سے آئے اور کابل پر قبضہ کرلیا۔سابق صدر نجیب اللہ کو اقوام متحدہ کے کمپائونڈ سے نکال کر بھائی سمیت چوک میں لٹکادیا۔گلبدین حکمت یار سمیت سب مجاہد لیڈر دہشت گرد ہوگئے۔ افغانستان سے نکل گئے۔احمد شاہ مسعود دھن کے پکے تھے۔کابل سے تو نکل گئے افغانستان سے نہیں نکلے۔ پنجشیر میں مورچہ لگا کر بیٹھ گئے۔چھ برس کے مسلسل حملوں کے بعد بھی طالبان احمد شاہ مسعود سے پنجشیر نہیں چھین سکے۔ان کی تصویر مزاحمت کی علامت بن گئی۔ان لوگوں کے وہ ہیرو بن گئے جو طالبان کے فرسودہ نظام سے تنگ تھے۔مگر طالبان ہمارے ہیرو تھے۔اسلئے احمد شاہ مسعود یہاں ولن بن گئے۔ ننانوے کا سال آگیا۔اکتوبر میں پاکستان کی ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔اقتدار کی زمام جنرل مشرف کے ہاتھ میں چلی گئی۔ستمبر میں احمد شاہ مسعود کوخود کش حملے میں مار دیاگیا۔صرف دو دن بعد ستمبر کی 11 تاریخ آگئی جسے ہم نائن الیون کہتے ہیں۔ ہائی جیک کیے گئے امریکی طیارے ورلڈ ٹریڈ ٹاور سے ٹکرا دیے گئے۔دنیا بدل گئی۔وارآن ٹیرر کا نعرہ لگ گیا۔کچے دھاگے سے بندھی ہوئی طالبان کی حکومت ایک چھینک سے گرگئی۔ڈیزی کیٹر بم افغانستان میں برس رہے تھے۔جیٹ طیارے وزیرستان میں بمباری کررہے تھے۔کابل میں زندگی کا رہا سہا امکان بھی سکڑتا جا رہا تھا۔پشاور میں روشن فکری کے چراغ تیزی سے بجھ رہے تھے۔میدان ٹی ٹی پی کے اور ایوان مجلس عمل کے قبضہ قدرت میں جا رہے تھے۔ اچانک خبر آتی ہے کہ طالبان کا ایک دھڑا گڈ ہوگیا ہے۔کچھ دن بعد پتہ چلتا ہے کہ غلط فہمی ہوگئی تھی، سب بیڈ کے بیڈ ہی ہیں۔بیڈ گڈ اور گڈ بیڈ کی موسیقی ایک عرصے تک چلتی ہے۔ہوتے ہوتے سب ایک دن گڈ ہو جاتے ہیں۔دوحہ میں مذاکرات ہوتے ہیں۔صدر اشرف غنی ایوان سے رخصت ہوجاتے ہیں اور ملا ہیبت اللہ نازل ہو جاتے ہیں۔یہاں طالبان ولن بن جاتے ہیں اور دلوں میں احمد شاہ مسعود کیلئے احترام پیدا ہوجاتا ہے۔
یہ سب کیا تھا؟ یہ طاقت کا بے رحم کھیل تھا۔اس کھیل میں پورے عراق کو ملبے کا ڈھیر بناکرکہہ دیاجاتا ہے کہ سوری ہمیں تباہ کن ہتھیار نہیں ملے۔شام میں القاعدہ کیخلاف جنگ چل رہی ہوتی ہے اور انجام کار القاعدہ ہی اقتدار میں آجاتی ہے۔افغانستان میں طالبان کیخلاف جنگ چل رہی ہوتی ہے اور طالبان ہی ا قتدار میں آجاتے ہیں۔پیچھے انتہا پسندی کا مبہم سا ایک عنوان رہ جاتا ہے اور پاکستان افغانستان سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اسکے ذمہ دار تنہا تم ہو۔اس کا خاتمہ بھی تم ہی کروگے۔حالانکہ اس کا ذمہ دار یونیورسٹی آف نیبراسکا میں قائم افغان اسٹڈی سینٹر بھی تو ہوتا ہے۔اسی سینٹر کا ترتیب دیا ہوا عسکری بیانیہ ہوتا ہے جو پہلے افغانستان آتاہے پھر پشاور کے مہاجر کیمپوں میں پہنچ جاتا ہے۔وہاں سے عسکری تنظیموں کے ہاتھ لگتا ہے اور بہت جلد پاکستان بھر میں سرایت کر جاتا ہے۔یہی بیانیہ پاکستان اور افغانستان میں مذہب کی سب سے بڑی تعبیر بن جاتا ہے۔کھلاڑی تو اپنی جنگ دس برس میں لڑ کر نکل جاتا ہے، مگر افغانستان اور پاکستان اگلے پینتالیس برسوں تک اس تعبیر اور بیانیے کی قیمت چکا رہا ہوتےہیں۔
جیسے خطے میں بدامنی کا آنا منصوبے کاحصہ ہوتا ہے، ویسے ہی تنازعات کا چھوڑجانا منصوبے کا حصہ ہوتا ہے۔جنگی بیانیے لانے والوں کو کیا نہیں پتہ کہ بیانیے کا خاتمہ کیسے ہوتا ہے؟جانتے ہیں، مگرخاتمہ نہیں کرنا چاہتے۔بیانیے کاخاتمہ ہوگیا تو تنازعے ختم ہوجائیں گے۔تنازعے ختم ہوگئے تو مداخلت کا جواز کہاں سے آئے گا۔سچ یہ ہے کہ خطے میں موجود تنازعات خطے کی منشا نہیں ہیں۔باقی دنیا کی طرح یہاں کے لوگ بھی امن چاہتے ہیں۔یورپ کی طرح یہ بھی اپنی سرحدوں کونرم کرنا چاہتے ہیں۔کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور زندگی کی بات کرنا چاہتے ہیں۔مگر چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔بات تو تب ہے جب تقدیر لکھنے والا قلم بھی انکے ہاتھ میں ہو۔انکے ہاتھ میں صرف بیلچہ ہوتا ہے اور سر پر FATF جیسی دو دھاری تلوار ہوتی ہے۔ہر دو جنگوں کے بیچ ایک وقفہ آتا ہے،جسمیں انہوں نے جنگ کا ملبہ سمیٹنا ہوتا ہے۔ملبہ اٹھانے کے اس عمل میں دوست دشمن اور دشمن دوست ہوجاتے ہیں۔ہیرو ولن اور ولن ہیرو ہوجاتے ہیں۔لوگ تاریخ کے دفتر کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔نوک جھونک ہوتی ہے اور بیلچے آپس میں ہی چل جاتے ہیں۔پڑوسی ثالث بننے آجاتے ہیں۔کبھی کعبے میں تو کبھی دوحے میں عہد و پیمان ہوتے ہیں۔ہوتا مگر وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ٹھیک ہے صدر ٹرمپ جنگ نہیں چاہتے ہوں گے، مگر بگرام ائیربیس تو انہیں بھی چاہیے اور کسی بھی قیمت پر چاہیے۔لگتا یہی تھا کہ اس بار موقع ہاتھ آیا ہے۔اب لگ رہا ہے کہ جوہاتھ آیا تھا وہ ایک وقفہ ہی تھا۔موقع ہوتا تو ہم مشورے دیتے۔چونکہ وقفہ ہے،اسلیے دشنام والزام کا سلسلہ ہی مناسب رہے گا۔آئو عندلیب ملکر ایک دوسرے کو تب تک گالیاں دیں جب تک اگلا کھلاڑی تسمے کس کر پویلین سے نکل نہیں آتا۔