• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ عیدالاضحی کے موقع پرمیں نے ایک کالم لکھاجس میں شہر کی صفائی کے حوالے سے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی تعریف کی گئی تھی۔یہ تعریف اس لیے تھی کہ اتنے وسیع پیمانے پرجانورقربان ہوئے لیکن شہرمیں تعفن پھیلانہ کوئی آلائشیں نظر آئیں۔ LWMC کے تمام اسٹاف کو مبارک باد دی اور ان کو سراہا۔ کچھ دنوں بعد ایک صاحب نے مجھے فون کیا اور پراسرارانداز میں پوچھا کہ کیا ویسٹ مینجمنٹ کے فلاں بندے نے آپ سے رابطہ کیاتھا؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔اس پرانہوں نے مبینہ طور پرمزید پراسرار انداز میں جو کچھ بتایاوہ سن کرمیرا موڈ فریش ہوگیا۔فرمانے لگے کہ ادارے کے چیئرمین صاحب کی غالباً سی ای او کے ساتھ مخاصمت چل رہی ہے چونکہ آپ نے کالم میں صرف چیئرمین صاحب کو مینشن کیا ہے لہٰذا سی ای او کو شک ہے کہ آپ دونوں کہیں آپس میں ملے تو نہیں ہوئے؟میری ہنسی نکل گئی۔بتایاکہ حضور میں نے تو ویب سائٹ سے دیکھاتھا کہ سب سے پہلا نام کس افسر کا ہے، سو چیئرمین کا نام لکھ دیا۔نہ ان سے کبھی ملاقات ہوئی نہ انہوں نے کبھی شکریہ ادا کرنے کی زحمت کی۔

میرا تجربہ ہے کہ اکثر سرکاری اداروں میں یہی معاملات درپیش ہوتے ہیں۔ان کی تعریف میں جو مرضی لکھ دیں یہ اسے اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن دو لائنیں بھی ان کیخلاف آجائیں تو اِنہیں ’تڑفلی‘ مچ جاتی ہے۔لاہور ویسٹ مینجمنٹ اچھاکام کر رہی ہے لیکن ان کے اندر جو سازشیں پل رہی ہیں وہ ابھی تک میڈیا پرنہیں آئیں، سی ایم پنجاب اگر تھوڑی سی تحقیق کریں تو شائداندر کی ساری کہانی سمجھ جائیں۔نہ چیئرمین میرے کچھ لگتے ہیں نہ سی ای او۔ ادارے کو سنبھالیں۔اچھے کام کی تعریف ہوگی اور کسی قسم کی گڑبڑکا ذکر بھی پورے اہتمام سے ہوگا۔

٭٭٭٭

تمام تر ’پانی والی توپوں‘ کے باوجودلاہور میں اسموگ ختم نہیں ہوسکی۔کچھ کمی ضرورہوئی ہے لیکن نہ ہونے کے برابر۔شایداس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسموگ پانی کی پھوار سے کہیں زیادہ اوپرہے۔اس معاملے میں زمینی کارروائی کی بجائے’ایئراسٹرائیک‘ کی ضرور ت ہے۔اس وقت شہر میں آدھی سے زیادہ آلودگی چنگ چی رکشے پھیلا رہے ہیں۔ان کا سدباب بہت ضروری ہے، ویسے بھی جن سڑکوں پر اسپیڈو بس ،میٹرو بس، اورنج ٹرین اور الیکٹرانک بسیں ہر پانچ منٹ بعد آجارہی ہیں وہاں اِن رکشوں کی موجودگی روکنی چاہیے۔دو نمبر موبل آئل پرسختی سے کنٹرول کریں جسکی وجہ سے دھواں پیدا ہوتاہے۔آپ جب اپنی گاڑی کاانجن آئل چینج کروانے جاتے ہیں تو آپ کی گاڑی کا پراناآئل ایک بڑے سے ڈبے میں نکال کرنیا آئل ڈالا جاتاہے۔کبھی سوچاہے کہ یہ پرانا آئل کہاں جاتاہے؟ یہ سارا کالا بھجنگ آئل بھی فروخت ہوتاہے اور اسے لینے والوں میں ا کثریت اُن کی ہوتی ہے جو اِسے دوبارہ سے صاف کرکے نئی پیکنگ میں بیچ دیتے ہیں۔چونکہ سردیاں شروع ہوگئی ہیں اس لیے باربی کیو کی دکانوں پر بھی رش بڑھ گیا ہے۔کوئلوں کا یہ دھواں بھی ٹنوں کے حساب سے روز اسموگ کو طاقتور بنارہا ہے،یہ دھواں کہاں جاناچاہیے؟ کم ازکم مجھے تو نہیں پتا۔روز صبح جو سڑکوں کی صفائی ہوتی ہے اوربڑے بڑے جھاڑو دیے جاتے ہیں اُن کی دھول بھی اسموگ کو تقویت دیتی ہے اور وہ ٹرک جس کے پیچھے بڑے بڑے گول برش لگے ہوتے ہیں رات گئے جب فٹ پاتھ کے کنارے صاف کرتا ہوا آگے بڑھتاہے تو کتنا ہولناک گردوغبار اڑتاہے۔اس پر پہلے چھڑکاؤہی کرلیا کریں۔

٭٭٭٭

پہلے کوئی وڈیو لیک ہوتی تھی تو ملزم کا دعویٰ ہوتا تھا کہ یہ’ڈیپ فیک‘ سے بنائی گئی ہے۔اب اے آئی آگئی ہے۔سو جس کی وڈیو اصلی ہوتی ہے وہ اسے اے آئی کہہ دیتا ہے اور جس کی نقلی ہوتی ہے وہ بھی اے آئی کا نام لے دیتاہے۔لوگوں میں بڑی کنفیوژن ہے کہ کیسے پتا چلایا جائے کہ کوئی وڈیو اصلی ہے یانقلی۔فی الحال بڑاآسان سا طریقہ ہے۔اے آئی سے بنی وڈیو میں سب کے ری ایکشن شامل نہیں ہوتے۔یعنی اگر ایک پل ٹوٹتاہوادکھایا گیا ہے جس پرلوگ کھڑے ہیں اور وہ گرجاتے ہیں تو آپ دیکھئے گا کہ چند سامنے کے لوگ بوکھلا کر گرتے ہیں، باقی خوشی خوشی اطمینان سے گر جاتے ہیں۔اے آئی کے چہرے بھی سمجھ آجاتے ہیں اور انٹرنیٹ پرایسی فری سائٹس بھی موجود ہیں جن پر آپ یہ وڈیو شامل کرکے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا یہ اوریجنل ہے یا اے آئی نے بنائی ہے۔آرٹیفیشل انٹیلی جنس آپ کی آواز کاپی کرسکتی ہے، شکل بنا سکتی ہے لیکن سوچ تک نہیں پہنچ سکتی جب تک کہ آپ اسے رسائی نہ دیں۔اے آئی کی وڈیووہی لوگ نہیں پکڑ پاتے جوفیک نیوز بھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔آپ لوگوں سے کسی خبر کا حوالہ مانگ لیں تو وہ یہ ذمہ داری بھی آپ پرڈال دیتے ہیں کہ’خود ڈھونڈو‘۔

٭٭٭٭

بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہربندہ اس کوشش میں ہے کہ کچھ ایساانتظام ہوجائے جس سے اسکے مالی دُکھ درد دورہوسکیں۔ کیسینو تو ہیں نہیں، لے دے کے پرائز بانڈپرقسمت آزمائی کی جاسکتی ہے۔اس میں بھی انکی قسمت زیادہ ساتھ دیتی ہے جنہوں نے پوری پوری سیریل کی لسٹیں خرید رکھی ہوتی ہیں۔عام بندہ توساری زندگی ساڑھے سات سووالا بانڈ پیٹی میں چھپائے دعائیں مانگتا رہتاہے۔میرے ایک دوست کو بانڈ خریدنے کا بہت شوق تھااور پھر وہ اپنے بانڈ پر مختلف لوگوں سے پھونکیں بھی مرواتاتھا تاکہ پہلے چارانعاموں والے خوش نصیبوں میں شامل ہوسکے لیکن خوش نصیبی ہمیشہ پھونک مارنے والے کے حصے میں آئی جسے فوری ہدیہ مل جاتا تھا۔ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ کبھی کوئی ایسا نمبر بھی لگا جو تمہارے بانڈ کے نمبر کے قریب قریب ہو۔ا س پر اُس کی آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے۔بولا’ہاں! ایک دفعہ تو میں نمبروں میں اُنیس بیس کے فرق سے کروڑ پتی بنتے بنتے رہ گیا۔ جو پہلا انعام لگا اس کا نمبر تھا112314، اور جو میرے پاس بانڈ تھا اس کا نمبرتھا890919۔‘

تازہ ترین