نظریہ ارتقا میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جسے Missing Link یعنی گمشدہ کڑی کہا جاتا ہے، اِس سے مراد وہ جاندار ہے جو دو مختلف اقسام کے درمیان ایک درمیانی شکل سمجھا جاتا ہے، یعنی ایسا جاندار جو پرانے اور نئے روپ، دونوں کی خصوصیات رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر اگر بندر سے انسان تک ارتقا ہوا تو درمیان میں کوئی ایسی مخلوق ہونی چاہیے جس میں دونوں کی نشانیاں ہوں،یہی ’’گمشدہ کڑی‘‘ کہلائے گی۔ ویسے جدید سائنس نے اب واضح کر دیا ہے کہ ارتقا کسی سیدھی زنجیر کی طرح نہیں ہوتا بلکہ یہ اُس درخت کی طرح پھیلتا ہے جسکی بہت سی شاخیں ہوں، اِس لیے اب سائنس دان گمشدہ کڑی کی بجائے Transitional Fossil کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ لوگ کبھی مطمئن نہیں ہوتے، جب بھی کوئی نیا فوسل یا گمشدہ کڑی ملتی ہے تو وہ اصرار کرتے ہیں کہ اِس سے اگلی کڑی ڈھونڈ کر لاؤ تو مانیں، اور جب اگلی کڑی مل جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ اب اس کے آگے اور پیچھے والی دو کڑیاں کہاں ہیں، وہ لاؤ تو بات بنے۔ گویا، نہ اُن کے سوالات ختم ہوتے ہیں اور نہ وہ کبھی مطمئن ہوتے ہیں۔ خاطر جمع رکھیں، نظریہ ارتقا ہمارا موضوع بحث نہیں ہے، موضوع یہ ہے کہ ہمارے دانشور کب مطمئن ہوں گے ۔
دنیا میں نڈر اور بیباک صحافی اُسے تسلیم کیا جاتا ہے جو حکومتِ وقت اور اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کی پروا کیے بغیر حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرے۔ اے ڈی چوہدری جب مسلم اخبار کے مدیر تھے تو انہوں نے اخبار کی پالیسی دو سطروں میں بیان کر رکھی تھی: The job of a journalist is to tell a perfect government that you are not perfect. ۔ یہ بات ایسی غلط بھی نہیں کیونکہ اگر حکومت کا ہی موقف دہرانا ہو تو اُس کیلئے صحافت میں قدم رکھنے کی ضرورت نہیں، بہتر ہے بندہ کسی ایڈورٹائزنگ کمپنی میں نوکری کر لے۔ لیکن اپنے ملک میں بات ذرا پیچیدہ ہو گئی ہے، یہاں رپورٹر، صحافی، دانشور اور لکھاری میں فرق ختم ہوتا جا رہا ہے، بلکہ اِن میں ایک نئی قسم یو ٹیوبرز اور وی لاگرز کی بھی شامل ہو گئی ہے۔ لیکن اِن تمام جملہ اقسام میں سے میرا سوال خالصاً دانشوروں سے ہے کہ وہ اپنے ملک کے ”ارتقا“ سے کب مطمئن ہونگے، کون سا ایسا فوسل دریافت ہوگا یا کون سی ایسی گمشدہ کڑی ملے گی کہ یہ دانشور پاکستان کے بارے میں کلمہ خیر لکھیں گے۔ میں جن دانشوروں کا ایکس پر تعاقب کرتا ہوں اُن میں سے اکثریت کے منہ سے میں نے کبھی پاکستان کے بارے میں مثبت بات نہیں سنی، ’جس نے ڈالی بری نظر ڈالی‘۔ جب بھی معیشت، دفاع، داخلہ یا خارجہ پالیسی کے بارے میں کوئی اچھی خبر آتی ہے یہ دانشور اُس میں سے مین میخ نکالتے ہیں اور پھر ثقیل قسم کی انگریزی میں ٹویٹ کرکے وہی سوال کرتے ہیں کہ پہلے اِس سے آگے اور پیچھے کی دو کڑیاں تلاش کرکے لاؤ پھر بات کریں گے۔
آج سے دو سال پہلے پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، کاروبار ٹھپ تھا، درآمدات بند تھیں، شرح سود 24فیصد پر تھی، ڈالر قلانچیں بھر رہا تھا، معیشت دان سر پکڑ کر بیٹھے تھے، صنعتیں ملک سے باہر منتقل ہو رہی تھیں اور لوگ سرمایہ دبئی میں لگا رہے تھے۔ ہر دم یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ ’ہو رہے گا کچھ نہ کچھ۔‘ آج حالات کہیں بہتر ہیں، ڈالر کی اُڑان رک چکی، درآمدات پر کوئی پابندی نہیں، شرح سود11 فیصد پر ہے اور کاروبار چلنا شروع ہوا ہے۔ آئیڈیل کچھ بھی نہیں مگر دو سال سے موازنہ کریں تو یہ کسی کرشمے سے کم نہیں۔ بھارت کو بھی پاکستان کے بارے میں یہی غلط فہمی تھی جو ہمارے دانشوروں کو تھی، اسی گمان میں بھارت نے پہلگام واقعے کے بعد پاکستان پر حملہ کیا، اور باقی تاریخ ہے۔ خارجہ محاذ پر تو خیر پاکستان اِس وقت چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا ہے، پکڑائی نہیں دے رہا، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ڈونلڈ ٹرمپ پاکستانی قیادت کی تعریفوں کے پُل نہ باندھے۔ اور رہی بات داخلی امور کی تو کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ مذہبی انتہا پسندی کے جس جِن کو فیض آباد میں بوتل سے باہر نکالا گیا تھا اسے اِس قدر آسانی کے ساتھ مریدکے میں واپس بند کر دیا جائے گا۔ اور تازہ ترین معرکہ افغانستان کے ساتھ ہوا ہے، حالیہ تاریخ میں پہلی مرتبہ افغان طالبان حکومت کو اُس زبان میں سمجھایا گیا ہے جو انہیں بہت اچھی طرح سمجھ آتی ہے، اُس سے کافی افاقہ ہوا ہے، اور علاج ابھی جاری ہے، امید ہے کہ جلد پاکستان اپنی اِس مغربی سرحد سے برپا ہونے والی شورش پر بھی قابو پا لے گا۔
میں نے اوپر جو باتیں محض چار پانچ سطروں میں نمٹائی ہیں، یہی باتیں اگر کوئی پی ایچ ڈی ڈاکٹر لکھتا تو ہر موضوع کو علیحدہ علیحدہ کرکے مقالہ کی صورت میں کسی جرنل میں شائع کرواتا، لیکن افسوس کہ نہ ہم دانا ہیں اور نہ ہی کسی ہنر میں یکتا! خیر، مدعا یہ تھا کہ ہمارے دانشور کب مطمئن ہوں گے۔ کیا ہم سب یہ نہیں چاہتے تھے کہ افغانستان سے دراندازی بند ہو، اندرون ملک قتل کے فتوے لگانے والوں کو لگام دی جائے، ریاست کی رِٹ قائم کی جائے، شرح سود کو نیچے لایا جائے، ہندوستان کو مناسب ڈوز دی جائے، خارجہ سطح پر پاکستان کی تکریم ہو....اب جبکہ پاکستان نے یہ سب کچھ کردکھایا ہے تو ہم اب بھی مطمئن نہیں، ہمیں اگلا فوسل اور گمشدہ کڑی چاہیے، اور جس دن وہ بھی مل گئے اِس روز ہم اِس سے اگلے فوسل کا مطالبہ کریں گے اور چل سو چل۔ مجھے تو شک ہے کہ اگر کسی دن پاکستان کے سارے مسائل حل ہو گئے تو اُس دن یہ دانشور کیا سودا بیچیں گے؟ شاید پھر یہ شک کریں کہ یقیناً کہیں کوئی عالمی سازش ہو رہی ہے، یا کسی امپائر نے اشارہ کیا ہے، یا امریکہ کو فوجی اڈے فروخت کر دیے گئے ہیں۔ جب سی پیک میں پیش رفت ہوئی تو بولے، ”یہ تو چین کا مفاد ہے“۔ جب ایکسچینج ریٹ مستحکم ہوا تو بولے، ”یہ تو مصنوعی ہے“۔ جب فیٹف سے نکلے تو بولے، ”یہ تو وقتی ہے“۔یوسفی صاحب ”آبِ گُم“ میں قبلہ کے بارے میں لکھتے ہیں: ” آپ کچھ بھی کہیں، کیسی ہی سچی اور سامنے کی بات کہیں، وہ اس کی تردید ضرور کریں گے۔ کسی کی رائے سے اتفاق کرنے میں اپنی سُبکی سمجھتے تھے۔ اُن کا ہر جملہ ’نہیں‘ سے شروع ہوتا تھا۔ ایک دن کانپور میں کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔ میرے منہ سے نکل گیا کہ ’آج بڑی سردی ہے‘ بولے ’ نہیں۔ کل اِس سے زیادہ پڑے گی۔‘ یہی ہمارا حال ہے۔ کوئی کہے کہ پاکستان کے حالات بہتر ہو رہے ہیں تو ہم کہتے ہیں ’نہیں۔ میرے سے پوچھتے تو زیادہ بہتر ہوتے!‘