• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی خطہ اور کوئی زمانہ اچھے انسانوں سے خالی نہیں ہوتا۔ یہ البتہ ہمارے بخت کے پیچاک ہیں کہ ہمیں اپنے جوار کے خس و خاشاک سے واسطہ پڑتا ہے یا ہمارے وقفہ حیات میں موجود لعل و گہر ہمیں نصیب ہوتے ہیں۔ درویش زندگی کا تہ دل سے شکر گزار ہے کہ سفر حیات میں خوش خصال بزرگوں کی بے پناہ شفقت نصیب ہوئی، صاحبان علم اساتذہ سے استفادے کا موقع ملا، یگانہ روزگار ہستیوں کے بے لوث احسانات گنوانے میں افشائے امانت کا اندیشہ حائل ہوتا ہے۔ سرنوشت میں ایسے دوستوں سے تعلقِ دلی لکھا گیا، جنہیں جاننا بھی کسی اعزاز سے کم نہ ہوتا۔ لطف یہ ہے کہ جن ہم عصروں سے ابتدائی تعارف کسی قدر منفی رنگ لیے تھا، ان سے قربت کا موقع ملا تو خود اپنی فہم پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ طبائع انسانی کا تنوع بجائے خود ایسا کوچہ مصور ہے کہ آنکھ بھر کر دیکھنے کی مہلت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ ’رزم گہ حیات میں پلک جھپک نہیں سکی‘۔ آج ایک ایسے ہی نابغہ روزگار دوست کا ذکر رہے۔ فاروق عادل کہنہ مشق، دیانت دار اور صاحب علم صحافی ہیں، نثر میں دلیل کو متانت سے توازن بخشا ہے۔ تاریخ میں تحقیق کے موتی رولتے ہیں۔ خاکہ نگاری میں اپنا ایک رنگ نکالا ہے۔ اب تو خیر سے ڈاکٹریٹ کے علمی درجے پر پہنچ گئے ہیں اور ڈاکٹریٹ کا مقالہ بھی ’ابلاغی اضطراب‘ کے دقیق علمی موضوع پر رقم کیا ہے۔ کسی پیش پا افتادہ ’جواب مضمون‘ سے قرطاس ابیض کو سیاہ نہیں کیا۔ ڈاکٹر فاروق عادل نے ایک جمہوری دانشور کے طور پر اپنی علمی تحقیق میں ان عوامل کا تعین کیا جو جمہوریت کی سانسیں روک کے شخصی آمریت کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ انہیں ڈاکٹر فاروق عادل لکھتے ہوئے کسی قدر غیریت کا احساس ہوتا ہے۔ ہمیں تو گزشتہ صدی کے آخری عشروں کا وہی عامل صحافی فاروق عادل بھاتا ہے جو کبھی کراچی کی لہو رنگ گلیوں میں موٹر سائیکل پر گولیوں کی بارش میں گرتا پڑتا خبر نکال لاتا تھا، پریس کانفرنس میں ایک آدھ ایسا چبھتا ہوا سوال کرتا کہ طرم خان سیاستدانوں کی دستار کے پیچ و خم کھل کر گریبان میں آ گرتے۔ ہفت روزہ ’تکبیر‘ میں محمد صلاح الدین شہید کے لاڈلے ہمکار تھے۔ اپنی رائے دینے میں کسی منفعل گریز پائی کے قائل نہیں۔ اختلاف مگر اس سلیقے سے کرتے ہیں کہ انکا مقابل زچ نہیں، قائل ہو کر اٹھتا ہے۔ ڈاکٹر فاروق عادل 15 ستمبر 1962ء کو لیاقت پور ضلع رحیم یار خان میں پیدا ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ اولاد اپنے والدین کے کردار کی حقیقی گواہی ہوتی ہے۔ یہ اصول حکیم غلام حسین عادل کے صاحبزادے فاروق عادل کو دیکھ کر سمجھ آتا ہے۔ حکیم صاحب مرحوم دین دار اور بااصول شخصیت تھے۔ جماعت اسلامی کی فکر سے شغف تھا لیکن کسی جماعتی منصب سے بے نیاز تھے۔ فرقہ واریت سے نفور تھا۔ طب میں پیشہ ورانہ مہارت اپنی جگہ مگر دراصل معاشرت کے نباض تھے۔ ایسے لوگ اپنے ضمیر کی درون خانہ روشنی میں نپے تلے قدموں سے زندگی گزارتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق عادل کم عمری ہی میں اہل خانہ کے ہمراہ سرگودھا منتقل ہو گئے تھے جہاں وزیر آغا، غلام جیلانی اصغر، ڈاکٹر خورشید رضوی اور ریاض احمد شاد ایسے نجم ہائے فروزاں نے کہکشاں سجا رکھی تھی۔ تب سرگودھا میں صحافت کا اپنا ایک مرکز فروغ پارہا تھا۔ فاروق عادل نے سرگودھا ہی میں دیوار صحافت پر لام الف لکھنا شروع کیا۔1985 ء میں کراچی یونیورسٹی میں صحافت کی تعلیم پانے پہنچے۔ سوئے اتفاق سے اسی برس اپریل میں طالبہ بشریٰ زیدی کی حادثاتی موت سے عروس البلاد میں آگ اور خون کا کھیل شروع ہوا۔ فاروق عادل دن میں تعلیم حاصل کرتے اور راتیں مختلف اخبارات میں ملازمت کیلئے وقف تھیں۔ کراچی یونیورسٹی سے صحافت میں بی اے آنرز اور ایم اے کی اسناد حاصل کیں۔اس دوران ڈاکٹر طاہر مسعود سے خصوصی تلمذ رہا۔ابتدائی عمر میں صحافت کی ریاضت کام آئی ۔ ’تکبیر ‘سے وابستہ ہوئے تو ان کے جوہر کھلے۔ تکبیر کے مدیر صلاح الدین ہمارے ملک کے تین بڑے ہم نام اکابر میں شامل تھے۔ ادبی دنیا کے مولانا صلاح الدین احمد ، مشرقی پاکستان میں شعراور صحافت کے گہر گمنام صلاح الدین محمد اور تکبیر کے محمد صلاح الدین شہید۔ فاروق عادل نے بیک وقت تحقیقی صحافت اور انٹرویوکے شعبوں میں اپنی مہارت منوائی۔ اس کامیابی کے پس پشت وہ سیاسی شعور کارفرما تھا جو انہوں نے کم عمری ہی میں تحصیل کیا تھا۔ 80 ء کی دہائی کے آخر میں فاروق عادل نے شعبہ صحافت میں تدریس بھی شروع کر دی ۔ ستمبر 2013ء میں مرحوم ممنون حسین صدر پاکستان کے منصب پر متمکن ہوئے تو فاروق عادل انکے پریس سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اقتدار کی راہداریوں میں انسان کی حقیقی قامت برآمد ہوتی ہے۔ فاروق عادل نے اقتدار کی قربت سے ذاتی منفعت کی بجائے عقب نشین رہتے ہوئے قومی خدمت کا فرض اس خوش اسلوبی سے نبھایا کہ باید و شاید۔ جس وقار سے ایوان صدر میں داخل ہوئے تھے اس سے کہیں زیادہ احترام سمیٹ کر رخصت ہوئے۔ مشاہدات کی دولت قدرِ زائد قرار پائی۔ اس بنیاد پر شخصی خاکوں اور تحقیقی کتب کی تصنیف پر توجہ کی۔ پاکستان کے سیاسی منظر کا کون سا رنگ اور کون سی شخصیت ہے جس پر فاروق عادل نے قلم نہیں اٹھایا اور شخصیت نگاری کا حق ادا نہیں کیا۔ عام طور پر شگفتہ نگاری سے مراد مطائبات کا ملبہ سمجھا جاتا ہے۔ فاروق عادل کو اس سے تعلق نہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ پایاب ندی ایسے ٹھہرائو سے بات کہتے چلے جاتے ہیں کہ دل سے نکلتی اور دلوں پر اترتی ہے۔ سیاست دان فرشتے نہیں ہوتے۔ فاروق عادل نے بہت سی متنازع شخصیات پر بھی قلم اٹھایامگر اس خوبصورتی سے کہ حقیقت کے بیان کو طنز کے گھائو سے آلود ہ نہیں کیا۔ انکی خاکہ نگاری میں ایک خاص وصف تحریر کا آخری جملہ ہوتا ہے۔ جامع، درست اور مہین۔ موسیقی کی اصطلاح میں بات کی جائے تو فاروق عادل کا خاکہ سم پہ ختم ہوتا ہے اور پڑھنے والا دیر تک اسکے جادو میں گرفتار رہتا ہے۔ ہماری صحافت کے اس دور انحطاط میں بھی اعلیٰ اور معتبر صحافیوں کی بڑی تعداد موجود ہے، مجھے مگر فاروق عادل کا ہم عصر ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔

تازہ ترین