ہمارے ارد گرد ایک اور آئینی ترمیم کی سرگوشیاں بلکہ تذکرے جاری ہیں۔ مہذب ملکوں میں آئین کی تعمیل زیادہ زیر عمل رہتی ہے مگر ہمارے ہاں آئین میں ترمیم اور تبدیلیاں زیادہ زیر بحث رہی ہیں بلکہ آئین کو کئی بار برسوں تک سرد خانے میں بھی ڈالا گیا ۔ہم آئین کے بغیر بھی رہنا سیکھ چکے ہیں۔ واہگہ سے گوادر تک ملک کی اکثریت جس ڈھب سے جینے پر مجبور ہے اگر انکے 24 گھنٹوں کی اذیتیں، قدم قدم مایوسیاں،مافیا سے ٹکراؤ، بے چینی اور بے بسی کا ذرا سا بھی علم ہمارے سیاسی اور عسکری قائدین کو ہو جائے اور انکا ضمیر بھی جاگتا ہو تو وہ ساری مسندیں ،محلات، اپنا لاؤ لشکر چھوڑ کر خلق خدا کے حضور سرنگوں ہو جائیں اور دل سے معافی مانگیں۔ پھڑپڑاتے کپڑوں میں لہراتے ماہرین معیشت اپنی چرب زبانی کی کھاتے، تجزیہ کار بھی اگر ایک دن غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گاڑی کھینچتے دس بارہ بچوں کے ماں باپ کیساتھ گزار لیں تو وہ اپنے سارے فلسفے واپس لے لیں اپنے تجزیوں سے معذرت کر لیں۔ کیا کبھی کسی نے تحقیق کی کہ گجرات اور آس پاس کے ضلعوں کے نوجوان ڈنکی کیوں لگاتےہیں۔ اپنی جان کا خطرہ مول لے کر یورپ کیوں جانا چاہتے ہیں۔ ہم تو یہ کہہ کے بھول جاتے ہیں کہ صرف پیسے کا لالچ ہے۔ راتوں رات کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں۔ اپنے شریکوں کے پکے مکان دیکھ کر حسد میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یقین جانیے کہ ہماری یہ سوچ بہت ہی سطحی ہے۔ ہم فراموش کر دیتے ہیں کہ ہم جس خطے میں بس رہے ہیں۔ یہاں کی صدیاں علم و ادب سے مالا مال رہی ہیں ہر چند کہ یہاں جمہوریت نہیں بادشاہتیں رہیں لیکن ہم اپنے شاندار ماضی میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرتے ۔ہمارے نوجوان اٹلی، یونان، برطانیہ، فرانس سمیت یورپ کے جن ملکوں میں جانےکیلئے اپنے ہنستے بستے گھر چھوڑتے ہیں یہ سارے ملک اُن دنوں ایک گہرےاندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے جب ہمارے اکابر نےساتویں صدی عیسوی سےبارہویں صدی عیسوی کے درمیان یونان کے فلسفے، سائنس، حکمت، 'فلکیات، الجبرا،ریاضی کو یونانی سے عربی میں منتقل کیا۔ اسےAge of translation کہا گیا،ترجمے کی صدیاں۔ یونانی سے عربی میں اس حکمت کو ہمارے علماء نے منتقل کیا۔ پھر عربی سے ان خزانوں کو یورپ کے اسکالرز نے انگریزی میں ڈھالا۔یوں یورپ میں تحریکِ احیائے علوم چلی۔ نشاۃ ثانیہ کا ظہور ہوا۔ ہم ان قوموں سے پہلے سے مہذب تھے۔ ہماری اپنی تہذیبیں ،اپنے تمدن ،اپنی ثقافت اپنا ادب اور اعلیٰ معیاری شاعری تھی اور سب سے اہم قدر فرد کی عزت اور فرد کی وقعت تھی۔ ہمارے سماج میں فرد کو گنا نہیں تولا جاتا تھا ۔اس کو اپنی صلاحیتوں کے استعمال اور اظہار کا بھرپور موقع دیا جاتا تھا۔ انگریز سامراج اپنے خدمت گاروں کو جن خلعتوں، وظیفوں اور جاگیروں سے نواز کر گیا۔ اس نے ہمارے معاشرے سے جو سب سے قیمتی قدر چھین لی ہے وہ عزت نفس ہے۔ یہ بڑے جاگیردار، وڈیرے، خوانین، چوہدری اپنی عزت چونکہ انگریز کے قدموں میں ڈال کر وظیفہ خوار بنے تھے۔ اسلئے انکے نزدیک عزت نفس ،دوسروں کا احترام کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ اپنے سے کمتر کو تو انسان بھی نہیں سمجھتے۔ لیکن ہر صاحب مرتبہ کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دیتے ہیں۔ اور اگر کوئی عالمی عہدے دار ہو تو انکی باچھیں کھل جاتی ہیں صرف اپنی ہی نہیں اپنے ملک اپنے قبیلے کی دستار بھی اس صاحب جاہ و جلال کے سامنے پھینک دیتے ہیں ۔بحیرہ روم کے پانیوں میں اپنی جانیں قربان کرنے والے عزت نفس کے محتاج ہیں۔ اپنی صلاحیتیں اپنے معاشرے کے استحکام کیلئے وقف کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن ملک میں ایسا کوئی نظام نہیں۔ جہاں ہر فرد کی اپنی سوچ اپنی اہلیت کو برتنے کا موقع نصیب ہو ۔ یہاں جاگیردار سرمایہ دار اعلیٰ سرکاری عہدے دار اپنے اپ کو عقل کل سمجھتے ہیں۔ ان کو اگر آپ کبھی اپنے ہم وطنوں کی اکثریت کی زبوں حالی کی طرف متوجہ کرنا چاہیں تو ان کا بے ساختہ جواب یہ ہوتا ہے کہ’’مجھے سب خبر ہے‘‘ اس لیے وہ یہ حقیقت حال سنتے ہیں اور نہ بہتری لانا چاہتے ہیں۔رفتہ رفتہ 78 سال میں ہم نے ایسا سسٹم وضع کر لیا ہے جہاں چند افراد کروڑوں انسانوں کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں۔ یونیورسٹیاں، دینی مدارس، کالج، تحقیقی ادارے، پلاننگ سیل ،پالیسی بورڈ کچھ بھی تحقیق کریں، نئے نئے کورس وضع کریں، ڈگریاں سرٹیفیکیٹ کسی کام کے نہیں۔بڑے بڑے فیصلے بڑے کر لیتے ہیں۔ چاہے وہ دفاعی معاہدے ہوں ۔ ان کیلئے متعلقہ محکموں کے سینکڑوں درجہ بدرجہ تجربہ کار افسران سے صوبائی اسمبلیوں قومی اسمبلی سینٹ کے ارکان سے مشورہ نہیں کیا جاتا حالانکہ ان اہم حساس معاملات پر معاہدوں سے پہلے ان منتخب اداروں میں کوئی مباحث ہونے چا ہئیں ۔دنیا بھر میں ٹیکنالوجی تبدیل ہو رہی ہے۔ یورپ میں تحریک احیائے علوم کے ذریعے امریکہ میں اپنے آئین کی تعمیل سے،عدلیہ کی اصولی آزادی سے ایسا ماحول وجود میں آ چکا ہے کہ وہاں ہر فرد کی عزت ہے،اس کے اپنے حقوق ہیں۔ ہمارے بہت سے خاندان امریکہ یورپ میں جا کر بچوں کی ولادت کا اہتمام اسی لیے کرتے ہیں کہ ان ملکوں میں پیدائش انکی اولاد کو ان حقوق کا حقدار کر دیگی۔ ان معاشروں میں ہر فرد کی صلاحیت کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ہم نے ایسا سماج تخلیق کیا ہے اور اس کو مستحکم بھی کر دیا ہے کہ برسوں کی تحقیق اور جدوجہد کرنیوالے رہنماؤں کی مشاورت سے منظور کردہ آئین کی تعمیل کے بجائے اپنی ضروریات کے مطابق آئین میں ترامیم کر کے اس کی جمہوری روح ہی بدلتے رہتے ہیں ۔قوانین بھی اپنی منشا کے مطابق تبدیل کر لیتے ہیں۔ آئین میں ترامیم کیلئے مطلوبہ اکثریت نہ ہو تو مخالفین کو کس طرح رام کیا جاتا ہے یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔ایک المناک مشاہدہ یہ ہے کہ باہر سے آنیوالی جمہوری روایات اور عدلیہ کی خود مختاری کو تو ہم مسترد کرتے ہیں لیکن باہر سے آنے والے فیشن ،ذائقوں ،کھانوں اور طرز زندگی کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے کھانوں میں اب مامتا رہی ہے اور نہ رہنے سہنے میں سگھڑپن، سلیقہ نہ قرینہ۔ ہم اس وقت خود کار ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف شخصی حکمرانی کو فروغ دے رہے ہیں اور یہ بظاہر دو متضاد رحجانات ہیں ۔کیا کسی نے غور کیا کہ دنیا میں اس وقت جدید علوم کے حصول، 'تیز رفتار ٹیکنالوجی کے استعمال اور نئے نئے آفاق کی تسخیر کیلئے جو دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کیا ہم پاکستان بحیثیت قوم اور ہمارے سارے صوبے اور وحدتیں اس میں شامل ہیں۔ کیا کوئی قومی سیاسی پارٹی اپنے کارکنوں کو اس خود کار مستقبل اور خوشحال سماج کیلئے ولولہ تازہ دے رہی ہے۔ ہمارے نوجوان جن ملکوں میں جانے کیلئے قربانیاں دیتے ہیں کیا ہم وہاں کا مہذب معاشرہ اپنے ہاں لانا چاہتے ہیں؟