مصوری کی نمائشوں کے دعوت نامے تو ملتے رہتے ہیں مگر جانے کا اتفاق خال خال ہی ہوتا ہے، پچھلے ہفتے ہمارے ایک دوست ہیں شاعر اور فلم ساز عمار عزیز، انہوں نے بلایا تو انکار نہیں ہو سکا۔ سو ہم جیل روڈ پر واقع ایک آرٹ گیلری پہنچے۔ پینٹنگز دیکھیں، متمول شائقینِ مصوری دیکھے، تازہ دم آرٹسٹوں سے ملے اور فنِ مصوری پر ان کی باتیں سنیں۔ لیکن اب آ جائیں اس آرٹ کے نمونے کی طرف جس نے راہوارِ خیال کو خوب زور سے ایک قمچی رسید کی۔ لکڑی سے ایک’’چڑھائی‘‘ بنی ہوئی ہے، ایک عورت ایک ہارمونیم کو دھکا لگا کر نشیب سے فراز تک پہنچانے کی سعی کرتی نظر آرہی ہے۔ ہم نے فن کے کسی عمیق نظر پارکھ جیسا لب و لہجہ اپناتے ہوئے تبصرہ کیا ’’ یہ آرٹ پِیس بناتے ہوئے غالباً آرٹسٹ کے تحت الشعور میں یونانی دیومالا سے ماخوذ سسی فس کی کہانی رہی ہو گی۔‘‘ آرٹ کے اس نمونے کی خالق سحر مرزا نے انتہائی احترام اور پُر انکسار لہجے میں انکشاف کیا کہ یہ آرٹی فیکٹ فن کی معراج پر پہنچنے کی سعی لاحاصل کا استعارہ ہے اور اس کا نام ہی ’’سسی فس‘‘ ہے۔ ہم نے اُس شام فنونِ لطیفہ پر مزید تبصروں سے گُریز کیا۔یونانی دیومالا میں سسی فس کو خداؤں نے سزا دے رکھی تھی کہ وہ ایک چٹان کو دھکیلتا ہوا پہاڑ کی چوٹی کی طرف لے جاتا تھا، اور جب چوٹی قریب آ جاتی تو چٹان دوبارہ لڑھک کہ دامنِ کوہ میں پہنچ جاتی، ہر روز سسی فس یہ مشقت دہراتا، اسے یہ سزا ابد تک بھگتنا تھی۔ مختلف فلسفیوں اور مفکرین نے سسی فس کی کہانی کی مختلف تشریحات کر رکھی ہیں، کوئی اسے چڑھتے اور ڈوبتے ہوئے سورج کی علامت سمجھتا ہے، اور کوئی آتے جاتے سانس کی۔ حکیم ایپی کیورس کے ایک پیروکار لو کریشس نے اسے سیاست دانوں کا استعارہ بتایا ہے، جو کوہِ جبر و اختیار کی چوٹی پر چڑھنے کی سعی لاحاصل میں ابد تک مبتلا کر دیے گئے ہیں۔ بہرحال، ہمیں تو سسی فس کی کہانی اپنی کہانی سے حیرت انگیز حد تک مشابہ لگتی ہے، یعنی ریاستِ پاکستان اور اس میں بسنے والوں کی کہانی سے۔ ایک بھاری پتھر ہے، جسے ہم قریباً آٹھ دہائیوں سے پہاڑ پر چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، پتھرچوٹی کے قریب آ کر پھر ڈھلان پر لڑھک جاتا ہے، ہم یہ بے سود مشق دہراتے چلے جا رہے ہیں، کیا ہمارے خداؤں کی عطا کردہ یہ سزا ہمیں ابد تک بھگتنا ہو گی؟ہم نے ایک بھاری پتھر پہاڑ پر چڑھانا شروع کیا، قریباً نو سال کی مشقت کے بعد 1956 میں ہم کوہِ آئین کی چوٹی پر پاؤں جما ہی رہے تھے کہ 1958ءمیں یہ چٹان لڑھکا کے دوبارہ نشیب میں پہنچا دی گئی۔ پھر 1973میں یہ بھاری پتھر سرِ کوہ پہنچا ہی تھا کہ 1977ءمیں اسے دوبارہ ڈھلانوں کے سپرد کر دیا گیا۔ یہ پتھر 1988ءمیں پھر دھکیلنا شروع کیا، 1999ءمیں خدائوں نے پھر گرا دیا۔ اس کے علاوہ بھی درجن بھر چڑھائیاں اترائیاں ہم نے دیکھ رکھی ہیں۔ کبھی وفاق مضبوط کرتے ہیں کبھی صوبے، کبھی ون یونٹ بناتے ہیں، کبھی شدت سے نئے صوبوں کی بحث آغاز کر دیتے ہیں، کبھی علاقہ غیر بناتے ہیں، کبھی ضم کر لیتے ہیں، کبھی سینے سے لپٹاتے ہیں کبھی خوارج قرار دے دیتے ہیں، کبھی’’افغان باقی کوہسار باقی‘‘کا نعرہ لگاتے ہیں، کبھی ’’نمک حرام‘‘کی گردان کرتے ہیں، کبھی پارلے مانی نظام کا پتھر چڑھاتے ہیں، کبھی صدارتی نظام کا، اگر ’’وفاداری بہ شرطِ اُستواری اصل ایماں ہے‘‘ تو ہم انتہائی بے ایمان واقع ہوئے ہیں۔ اپنے دائیں بائیں دیکھیں، جمہوریتوں نے بھی ترقی کی اور آمریتوں نے بھی، شرط صرف صدقِ دل سے ایک منتخب شدہ راستے پر چلنا تھا۔یہ سارا قصہ ستائیسویں ترمیم کی بازگشت سے یاد آیا۔ اس متوقع ترمیم کا ہدف اٹھارویں ترمیم کی زلفیں سنوارنا بتایا جا رہا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے تک ہم اٹھارویں ترمیم کی حکمت کے قائل تھے، 2010 میں ہم نے طے کیا کہ یہ ترمیم آخرِ کار صوبائی خودمختاری کا خواب سچا کرنے جا رہی ہے، یہ ترمیم اختیارات مرکز سے لے کر صوبوں کو منتقل کر دے گی، این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کو محاصل سے اکٹھی ہونے والی آمدن تقسیم کر دی جائے گی، مالی وسائل نچلی سطح پر منتقل ہو جائیں گے، سب اچھا ہو جائے گا۔ اب سنتے ہیں کہ کچھ اختیارات مرکز کو واپس کرنے ہیں کیوں کہ’’جوک از کیریڈ ٹو فار‘‘۔ تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے محکمے مرکز کو لوٹانے کی بات ہو رہی ہے، این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کرنے پر غور ہو رہا ہے۔ ایک مختصر کہانی سن لیجیے، کہانی کا عنوان ہے’’کوبرا افیکٹ‘‘۔ انگریز راج میں برصغیر میں سانپوں کی تعداد بہت بڑھ گئی، برطانوی سرکار نے ایک اسکیم چلائی کہ جو بھی سانپ مار کے حکومت کے پاس لائے گا اسے انعام دیا جائے گا، لوگ سانپ مار کے جمع کروانے لگے اور انعام پانے لگے۔ پھر سیانوں نے سوچا دو چار سانپوں سے آخر کتنے پیسے کمائے جا سکتے ہیں، انہوں نے سانپوں کی فارمنگ شروع کر دی، اس طرح سینکڑوں سانپ پیدا ہوتے اور ان کی میتیں جمع کروا کے خطیر رقم حاصل کی جانے لگی، حتیٰ کہ سرکار کو یہ سکیم بند کرنا پڑی۔ اس صورتِ حال سے کوبرا افیکٹ کی اصطلاح ایجاد ہوئی، یعنی ایک مشکل کو حل کرتے کرتے ایک بڑی مشکل پیدا کر لینا۔ ریاستِ پاکستان کو مسلسل کوبرا افیکٹ کا سامنا ہے، ہم جس مشکل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں’’سیانے‘‘اس کا توڑ نکال لیتے ہیں، اور ہم کسی بڑی مشکل کا شکار ہو جاتے ہیں۔کوبرا افیکٹ کی طرح سسی فس کی کہانی بھی سچی ہے، سو فی صد سچی۔ ہم دہائیوں سے اپنی آنکھوں کے سامنے سسی فس کو پہاڑ پر ایک سنگِ گراں چڑھاتے ہوئے اور پھر اس بھاری پتھر کو نیچے لڑھکتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ کیا سسی فس کی سزا دائمی ہے؟ رحم، خداوندگانِ سسی فس، رحم!