امریکی سیاست ہمیشہ سے طاقت اور نظریے کے درمیان ایک مسلسل مکالمہ رہی ہے۔ سترہویں صدی کی نوآبادیاتی بستیاں جب ایک نئی ریاست کے تصور میں ڈھلیں تو اُن کے خمیر میں آزادی کا خواب بھی تھا اور امتیاز کی دراڑ بھی۔ تھامس جیفرسن کے الفاظ میں ’’تمام انسان برابر پیدا ہوتے ہیں‘‘ مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ یہ برابری جلد ہی رنگ، مذہب اور سرمایہ کے پیمانوں میں بٹ گئی۔
سول وار سے لے کر عظیم کساد بازاری تک، میکارتھی ازم سے لے کر سول رائٹس موومنٹ تک ہر دور میں امریکہ نے اپنے اندر ایک داخلی جنگ لڑی جو طاقت کے ایوانوں اور عوام کی گلیوں کے درمیان جاری رہی ۔ بیسویں صدی کے وسط میں روزویلٹ کی نیو ڈیل نے سرمایہ پر ریاست کی گرفت مضبوط کی تو ریگن ازم نے اس گرفت کو توڑ کر سرمایہ کو پھر سے مقدس بنا دیا۔ 9الیون کے بعد امریکی سیاست نے خوف کو قومی شناخت میں بدل دیا اور امن کے نام پر جنگوں کا آغاز کیا۔ اسی طوفانی فضا میں ایک نئی نسل اُبھرنے لگی جس نے اقتدار کے بجائے اخلاقیات کو سیاست کا محور بنانے کا خواب دیکھا۔
یہ وہ نسل تھی جس نے اوباما کی کامیابی میں رنگ برنگے امریکہ کی ایک مختصر جھلک تودیکھی لیکن جلد ہی ٹرمپ ازم کے عروج نے اُسے یہ احساس دلایا کہ یہ خواب ابھی ادھورا ہے۔ اب وہی خواب ایک نئی صورت میں لوٹا ہے ایک ایسے شہر سے جہاں دنیا کی معیشت کی سانسیں بندھی ہیں مگر اب وہاں ایک نوجوان شخص اقتدار میں آیا ہے جو دولت کے بجائے ضمیر کو مرکز مانتا ہے۔ ظہران ممدانی کی کامیابی اس طویل امریکی جدوجہد کی تازہ ترین قسط ہے ۔ ظہران ممدانی ایک ایسا نام جو نہ کسی نسل یا مذہب کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ ایک فکری انقلاب کا استعارہ بن چکا ہے۔ وہ شہر جسکی زمین پر سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے خیمے نصب کیے۔ جہاں اسٹاک ایکسچینج کا ہر اشارہ دنیا کی معیشت کی نبض کی مانند سمجھا جاتا ہے وہاں آج ایک ایسے نوجوان نے اقتدار سنبھالا ہے جس کا منشور طاقت نہیں بلکہ توازن، منافع نہیں بلکہ مساوات اور سیاست نہیں بلکہ خدمت ہے۔
ظہران ممدانی کے فکری پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک سیاست دان نہیں بلکہ فہم و دانش کی روایت سے نکلے ہوئے ایک سنجیدہ اورباشعور نوجوان ہیں۔ ان کے والد پروفیسر محمود ممدانی افریقہ، استعماریت اور مابعد نوآبادیاتی فکر کےحوالے سے دنیا بھر میں ایک منفرد اور مستند حیثیت رکھتے ہیں۔ والدہ میرا نائر فلم سازاور سماجی شخصیت ہیں۔ان کے انتخابی نعروں میں کوئی مصنوعی چمک نہیں تھی۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ ’’ہم شہر کے توازن کو واپس لائیں گے جہاں کرایہ مکان سے زیادہ انسان کے اعصاب پر بھاری نہ ہو اورجدھر ایک بس کا کرایہ لوگوں کے درمیان فاصلہ نہ بنے‘‘۔ یہ جملے زبانی جمع خرچ نہیں تھے بلکہ اُس پسِ منظر کی آواز تھے جو پچھلے کئی سال سے امریکہ میں پھیلتی ہوئی طبقاتی کشمکش کی عکاسی کرتا ہے۔ کورونا وبا کے بعد امریکہ کے بڑے شہروں میں طبقاتی خلیج مزید گہری ہو چکی ہے۔
ایک طرف مین ہٹن کے بلند و بالا ٹاورز میں دولت کی برف جمی ہے دوسری جانب برونکس اور بروکلین کی گلیوں میں غربت کا دھواں اٹھتا ہے۔ ظہران ممدانی کی تحریک نے انہی گلیوں سے جنم لیا جہاں لوگوں نے خواب نہیں بلکہ حقیقت کے بوجھ اٹھائے ہوئے تھے۔ ان کی کامیابی دراصل امریکہ کی اُس نئی نسل کا بیانیہ ہے جو تھک چکی ہے نسل پرستی سے، سرمایہ دارانہ لالچ سے اور ان وعدوں سے جو کبھی پورے نہیں ہوئے۔ وہ نوجوان جنہوں نے برنی سینڈرز کے نعرے میں سچائی دیکھی تھی وہی اب ظہران ممدانی کے اندر اُس خواب کی تجدید محسوس کررہے ہیں۔ یہ کامیابی روایتی امریکی اشرافیہ کیلئے بھی ایک صدمہ ہے۔ سابق گورنر اینڈریو کومو جیسے تجربہ کار سیاست دان کے مقابل ظہران کی جیت اس بات کا اشارہ ہے کہ عوام اب طاقت کے خاندانی تسلسل سے تنگ آچکے ہیں۔ یہ وہی تبدیلی ہے جو کبھی امریکہ نے جان ایف کینیڈی کے انتخاب میں دیکھی تھی مگر اس بار یہ تبدیلی سفید فام ایوانوں سے نہیں بلکہ براؤن اور سیاہ فام محلوں سے اٹھی ہے۔ اپنی وکٹری تقریر میں ظہران ممدانی نے کہا: ’’نیویارک کے عوام نے ثابت کیا کہ طاقت عوام کے پاس ہے۔ میری شناخت ایک مسلمان کی ہے اور مجھے اس شناخت پر کوئی شرمندگی نہیں بلکہ ہمیشہ فخر رہے گا‘‘۔
یہ جملہ فتح کا اعلان نہیں بلکہ تاریخ کے سینے پر کندہ ایک یادگار جملہ ہے جو جملہ آنے والے وقت کو یاد دلاتا رہے گا کہ طاقت کا سرچشمہ ایوان نہیں، انسان اورعوام ہیں ۔امریکہ جو کبھی دنیا کو اپنے نظریے کے آئینے میں دیکھتا تھا اب پہلی بار اپنے ہی چہرے کا مطالعہ کررہا ہے۔ ممدانی کی جیت نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ’’امریکن ڈریم‘‘ کا وارث کون ہے وہ جو صدیوں سے اس نظام کا حصہ ہے یا وہ جو اس نظام میں نئی روح پھونکنے آیا ہے؟یہ سوال درحقیقت سیاسی نہیں تہذیبی ہے۔ کیونکہ تاریخ کے بڑے سوال اقتدار سے نہیں انسان سے جڑے ہوتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں اس جیت کا اثر حیرت اور امید کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھا گیا۔یہاں کے مبصرین جانتے ہیں کہ ممدانی کے لہجے میں وہ توازن ہے جو مشرقی روح اور مغربی عقل کے ملاپ سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ شخص اگر عالمی سیاست میں داخل ہوا تو بیانیہ بدل جائے گا وہ بیانیہ جس میں طاقت کے بجائے مکالمہ، تصادم کے بجائے تعلق اور مفاد کے بجائے معانی ہوں گے۔چین، روس، اور یورپ تینوں کیلئے ممدانی کا ابھار ایک نئی سائنس اور ایک نئی ریاضی ہے۔