27؍ویں ترمیم کے بارے میں پہلے سرگوشیاں، پھر افواہیں اور اب کھلے عام اعلانات سنے۔ سیاست میں انقلابی تبدیلیوں کو سمجھنے کیلئے تاریخ اور علم سیاسیات کی مدد لینا پڑتی ہے۔ راج نیتی کے لفظ کو بالی وڈ نے بدنام کرکے پیش کیا ہے ویسے اسکے لفظی معانی ریاست کو چلانے کے طریق یعنی State craftکے ہوتے ہیں۔ صدیوں پہلے ٹیکسلا میں پیدا ہونیوالے چانکیہ کو ٹلیہ نے ’ارتھ شاستر‘ لکھ کر ریاست اور سیاست چلانے کے ہتھکنڈے بنائے تھے۔ چانکیہ کے 18 سوسال بعد میکاولی نے ’دی پرنس‘ لکھ کر ریاست کاری اور سیاست کاری کے اصولوں کو زندہ مثالوں کے ساتھ بیان کیا۔ چانکیہ اور میکا ولی دونوں طرز حکمرانی میں کہنے کچھ اور کرنے کچھ کو سیاست کی خشت ِاول قرار دیتے ہیں ان دونوں کی تشریح کے مطابق ریاست کاری کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک گُپت راج نیتی یا Covert statecraft کہلاتی ہے جبکہ دوسری دِکھت راج نیتی یا Overt statecraft کہلاتی ہے۔ گُپت سیاست یاراج نیتی، بغیر اعلان کئے اپنےعزائم کی طرف بڑھنے کو کہتے ہیں، عام مفہوم میں اسے خفیہ یا خاموش ریاست کاری بھی کہا اور سمجھا جاتا ہے چانکیہ کا پسندیدہ انداز حکمرانی یہی ہے جبکہ علانیہ ریاست کاری یا شفاف سیاست میں ہر چیز عوام کو بتاکر، انہیں سمجھا اور مناکر کی جاتی ہے اسے نظر آنے والی یا دِکھت راج نیتی کہا جاتا ہے۔
چانکیہ کوٹلیہ اور میکا ولی کے دنیا میں چاہنے والے بھی بہت ہیں اور بڑے نامور حکمران ان کے نظریات پر عمل اپنی کامیابی کیلئے ضروری سمجھتے تھے مگر دوسری طرف روشن خیال اور جمہوری سوچ والے، چانکیہ اور میکا ولی کی سیاست کو عیاری اور مکاری قرار دیکر انہیں ظلم وجبر کے نظام کو تسلسل دینے کا ذمہ دار بھی قرار دیتے ہیں۔ انقلاب فرانس اور دنیا میں سیاسی اور فکری تبدیلیوں کے بعد سے شفافیت، علانیہ سیاست اور عدم تشدد کو چانکیہ سیاست پر ترجیح دی جاتی ہے۔ چانکیہ یا میکاولی کی سیاست میں حکمران کا ریاست پر رعب اور خوف ہونا ضروری ہے، میکاولی نے لکھا ہے اگر کسی کا باپ مار دیں تو صلح ممکن ہے لیکن کسی کی زمین یا جائیداد چھین لینے سے صلح نہیں ہوسکتی۔
عصرِ حاضرمیں دنیا کے اکثر ممالک کے بیشتر سیاستدان دعویٰ تو یہی کرتے ہیں کہ وہ دِکھت راج نیتی Overt politicsکرتے ہیں مگر حقیقت اسکے برعکس ہے۔ اب بھی دنیا بھر میں گُپت راج نیتی کا دور دورہ ہے۔ آزادیاں محدود ہیں، لوگ محکوم ہیں، جاسوسوں کا جال ہے، سازشوں کا ہجوم ہے، دشمنوں کے خلاف چالبازی جائز ہے اور حکمرانی کیلئے ہر ظلم روا ہے ۔یہی چانکیہ کو ٹلیہ کی گُپت راج نیتی تھی۔ کوٹلیہ راولپنڈی اور اسلام آباد سے ملحقہ ٹیکسلا میں پلا بڑھا اور اپنی چانکیہ فلاسفی کو اپنی زندگی میں ہی آزماتا رہا چانکیہ نے اپنی زندگی میں ہی نندہ حکمرانوں کو شکست دلوائی کہ انہوں نے ایک بار چانکیہ سے بدتمیزی کی تھی، چانکیہ نے اپنے ساتھ ہونیوالی بدتمیزی کو کبھی نہ بھلایا طاقتور نندہ سلطنت کے مقابلے کیلئے پہلے ایک اہل امیدوار چندرگپت موریا کو تلاش کیا پھر اسے تربیت دیکر میدان میں اتارا، نندہ حکمرانوں اور انکی سیاست کو ختم کردیا، یوں طاقتور موریہ سلطنت کی بنیاد پڑی۔ چانکیہ نے سکندر اعظم کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے یونانی حکمرانوں کیخلاف طاقتور بیانیہ بنایا اُن پر ریاستی حملے کی بجائے ان کیخلاف چھوٹے چھوٹے قبائل سے بغاوتیں کرواکے انہیں زِچ کردیا، انکے خلاف جاسوسوں کا جال بچھایا، بھکشو، جوگی اورتاجر سب موریہ حکمران کے ایجنٹ بن گئے، حد تویہ ہوگئی کہ یونانی حکمران سلیوکس اپنی فوج سمیت ہندوستان چھوڑ کر یونان واپس چلا گیا۔ چانکیہ وہ واحد فلاسفر ہے جس نے اپنی گُپت راج نیتی کے ذریعے مادی فتوحات حاصل کیں، وہ خود چندر گپت موریہ کا وزیراعظم تھا۔ چندر گپت موریہ روحانیت کی راہوں پر نکلاتو اس نے جین مت اختیار کرلیا، اسکا بیٹا نیا بادشاہ بنا تو اس نے بھی چانکیہ کو اپنا وزیراعظم قائم و برقرار رکھا اور اسی کی دی ہوئی پالیسیوں پر چلتا رہا۔
ٹیکسلا اور راولپنڈی اسلام آباد کا فاصلہ ہی کتنا ہے منٹوں میں طے ہوجاتا ہے ٹیکسلا کے میوزیم میں خوابیدہ رقاصہ کی مورتی موجود ہے تاہم چانکیہ کی ارتھ شاستر جنوبی ہندوستان کے شہر میسور سے کئی صدیوں بعد بازیافت ہوئی۔ گندھارا تہذیب کی اگر خوابیدہ رقاصہ، موہنجودڑو کی 14 سالہ ڈانسر سمبارا کے روپ میں ہڑپہ تہذیب میں دوبارہ زندگی پاسکتی ہے تو چانکیہ کے کریاکرم کی راکھ بھی مارگلہ کے پہاڑوں اور شہروں تک ضرور پہنچ رہی ہوگی۔ 27 ویں ترمیم میں گُپت راج نیتی کا استعمال جاری ہے، اٹھارہویں اور آٹھویں ترمیم کو اپنانے سے پہلے عام مباحث ہوئے تھے جس سے معاملات کافی حد تک واضح ہوگئے تھے مگر ابھی تک بہت سے معاملات پر گہری دھند چھائی ہوئی ہے دھند کے موسم میں کئے جانیوالے فیصلے روشنی کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ ایمونیل کانٹ نے کیا خوبصورت بات کہی تھی کہ’’ وہ سیاسی اصول کبھی درست نہیں ہوسکتا جسے عوام کے سامنے نہ لایا جاسکے۔‘‘
ٹیکسلا کے ٹیلوں سے گُپت راج نیتی کی کلاسیکی موسیقی تو مارگلہ کی بستیوں تک پہنچ رہی ہے مگر اپنے آج کل کے اتحادی امریکہ کے بڑ بولے صدر کی علانیہ دِکھت راج نیتی کے بدلے ہوئے راگ کی صدا نہیں پہنچ پارہی۔ ٹرمپ دِکھت بلکہ کچھ زیادہ ہی دِکھت راج نیتی کے ذریعے سب کچھ بدل رہا ہے مگر مارگلہ میں بیٹھے کچھ افراد اب بھی گُپت سیاست کررہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ان ترامیم کی تجویز کے نام نامی کون سےہیں؟ اورکون سے چانکیہ صاحبان اس کمیٹی میں شامل ہیں جنہوں نے یہ فیصلے کیے، ان کے نام بھی گُپت یا خفیہ نہیں رکھنے چاہئیں کیونکہ کل کو تاریخ کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ حکومت یا اداروں کو نہیں ان شخصیات کو ملنا چاہیے۔ یہ اندازہ تو ہے کہ اداروں اور حکومت نے مل کرہی ترمیم کا فیصلہ کیا ہوگا مگر ادارے اور حکومتیں بھی اشخاص پر مشتمل ہوتی ہیں، اشخاص ہی اداروں اور حکومتوں کی غلط یا صحیح ذہن سازی کرتے ہیں۔ شریف الدین پیرزادہ ہوں تو جمہوریت کےاندر بھی آمریت کے رستے کھلنے شروع ہوجاتے تھے، ایس ایم ظفر ہوں تو آمر کے ساتھی ہونے کے باوجود جمہوری رستے وا کر دیتے تھے۔ افراد کی سوچ، فکر اور رویے ہی فیصلوں کی بنیاد ہوتے ہیں۔ یہ ترامیم جس بھی چانکیہ یا ایمانویل کانٹ کا فلسفہ ہیں اسے سامنے آکر ان ترامیم کی عوامی سطح پر وکالت کرنی چاہئے۔ یہ فیصلہ ساز چپ شاہ بن کر ملک، صوبوں، اداروں اور افراد کیلئے انقلابی فیصلے کررہے ہیں ان سے پوچھے بغیر، انہیں بتائے بغیر اور ان سے مشورہ کئے بغیر۔
مانا کہ یہ ملک Ungovernable ہوچکا، ریاست کے ادارے کمزور اور مافیاز مضبوط ہوچکے ہیں، یہ بھی تسلیم کہ آئین جامد نہیں ہوتے انہیں وقت کے ساتھ بدلنا پڑتا ہے یہ بھی قبول کہ فیصلہ ساز ہمیشہ Creative minority یعنی تخلیقی اقلیت سے ہوتے ہیں مگر آج کی دنیا کا جھوٹا سچا دستور یہی ہے کہ دِکھت راج نیتی سے کام لیا جائے دنیا کو بڑبولوں اور بڑے بڑے دعوے کرنیوالوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا چُپ شاہوں نے پہنچایا ہے۔ چانکیہ کا دور گیا آج کی دنیا نمائندگی، شفافیت اور Overt یاعلانیہ سیاست کی ہے، وقت کی نبض کو پہچانیں اور اگر واقعی کچھ اچھا کرنا چاہتے ہیں تو کھلے عام میدان میں آکر اپنے نظریے اور ترامیم کی وکالت کریں دلائل دیں اور ثابت کریں کہ ان سے ملک میں کیا بہتری آئے گی۔ وگرنہ چانکیہ کو تاریخ کی گرد میں دفن ہی رہنے دیں۔