پاکستان کی برآمدات میں کمی کے حوالے سے ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ نے تشویشناک حقائق آشکار کئے ہیں۔ اس رپورٹ میں نہ صرف پاکستان کی برآمدات میں کمی کی وجوہات کا احاطہ کیا گیا ہے بلکہ اسکی وجہ سے قومی ترقی کو درپیش خطرات سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا صنعتی شعبہ گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل مشکلات کا شکار ہے اور اسکی شرح نمو میں اضافے کی بجائے تنزلی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ مالی سال میں بھی حالات زیادہ بہتر نہیں رہے بلکہ مالی سال 25-2024ء میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کے شعبے کی شرح نمو میں مالی سال 24-2023ء کے مقابلے میں مزید ڈیڑھ فیصد کی کمی دیکھی گئی ۔ تاہم ان مشکل حالات کے باوجود ٹیکسٹائل سیکٹر نے بہتری دکھائی جسکی بڑی وجہ ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں اضافہ ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کا سب سے بڑا جزو ہے اور اس شعبے میں ملک کی سب سے زیادہ افرادی قوت کام کرتی ہے۔ اس لحاظ سے ٹیکسٹائل سیکٹر کو ملک کی معیشت کا انجن قرار دیا جا سکتا ہے جسے رواں رکھنے میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز اہم کردار ادا کرتے ہیں۔میرے اس کالم کے مستقل قارئین اس بات کے گواہ ہیں کہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو درپیش مسائل اور انکے حل کیلئے میں گزشتہ کئی برس سے مسلسل لکھ رہا ہوں۔ علاوہ ازیں اس موضوع پر حکومتی زعما اور دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتوں میں بھی برآمدات کو بڑھانے کیلئے اقدامات پر زور دیتا رہا ہوں۔ تاہم حکومت کی طرف سے بار بار وعدوں، یقین دہانیوں اور اعلانات کے باوجود تاحال کوئی نمایاں پیشرفت نہیں ہو سکی ۔ ان حالات میں رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کی برآمدات کے اعداد و شمار اس لحاظ سےمزید تشویش کا باعث ہیں کہ ان مہینوں میں یورپ اور امریکہ کے سب سے بڑے تہوار کرسمس کے باوجود پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں وہ گہما گہمی نظر نہیں آ رہی جو پہلے ہوتی تھی۔ موجودہ حالات کے برعکس ماضی میں کرسمس سیزن کے دوران ٹیکسٹائل انڈسٹری سمیت تمام برآمدی شعبوں کو بڑے پیمانے پر برآمدی آرڈرز ملتے تھے جسکی وجہ سے نہ صرف پاکستان کو زرمبادلہ ملتا تھا بلکہ روزگار اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے سے معیشت بھی مستحکم ہوتی تھی۔ تاہم گزشتہ چند سال کے دوران بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے، انٹرسٹ ریٹ اور ٹیکسز کی شرح خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی برآمد کنندگان عالمی منڈیوں میں مسابقت کی دوڑ سے بالکل ہی باہر ہو چکے ہیں۔
حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بڑے بڑے ٹیکسٹائل گروپ اپنے پیداواری یونٹ بند کرنے پر مجبور ہیں جبکہ میڈیم اور اسمال اسکیل انڈسٹری بھی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ان حالات میں ورلڈ بینک نے بھی اپنی رپورٹ میں حکومت کو یہ تجویز دی ہے کہ اپنے دس بڑے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ تجارتی معاہدوں کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کیلئے طے شدہ اور لچکدار شرح مبادلہ کو یقینی بنایا جائے اور پائیدار اقتصادی ترقی کیلئے تین دہائیوں سے گرتی ہوئی برآمدات کو کم کرنے کیلئے توانائی اور دیگر مداخل کی لاگت کو کم کرنےکیلئے فوری اصلاحات متعارف کروائی جائیں۔ ورلڈ بینک نےیہ نشاندہی بھی کی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی ممالک نے پائیدار ترقی کا ہدف حاصل کیا ، اس میں برآمدات میں اضافے نے اہم کردار ادا کیا۔واضح رہے کہ 1990 کی دہائی میں پاکستان کی برآمدات مجموعی قومی پیداوار کا 16 فیصد تھیں جبکہ 2024 میں یہ شرح کم ہو کر 10 فیصد پر آ چکی ہے اور رواں مالی سال کے دوران اس میں مزید کمی کا اندیشہ ہے۔ ورلڈ بینک کے اندازے کے مطابق پاکستان کی ایکسپورٹ انڈسٹری کو درپیش مسائل کی وجہ سے گزشتہ تین دہائیوں میں تقریباً 60 ارب ڈالر کی برآمدات کم ہوئی ہیں۔ ورلڈبینک نے برآمدی شعبوں بالخصوص ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدی مسابقت کو بہتر بنانےکیلئے انرجی ٹیرف، انٹرسٹ ریٹ اور ٹیکسز کی شرح میں کمی کو ضروری قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں برآمد کنندگان کے مشورے سے طویل المدت پالیسی متعارف کروانے پر بھی زور دیا گیا ہے تاکہ انڈسٹری کا اعتماد بحال ہو اور وہ بین الاقوامی منڈیوں میں عالمی خریداروں سے پائیدار شراکت داری یقینی بنا سکے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں جیسے جیسے شرح نمو تیز ہوتی ہے اور درآمدات بڑھنے لگتی ہیں تو زرمبادلہ کے ذخائر دبائو کا شکار ہو جاتے ہیں جس پر حکومت ادائیگیوں کا توازن بحال رکھنے کیلئے برآمدی شعبے پر پابندیاں عائد کرنا شروع کر دیتی ہے۔
اس سے نہ صرف سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے بلکہ برآمدی شعبوں میں نئی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں سرکاری محکموں بالخصوص ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، کسٹم اور پورٹ و شپنگ کے حکام کی جانب سے سرخ فیتے کی پالیسی اور بیجا مداخلت و پابندیاں کاروبار کو مزید مشکل بنا دیتی ہیں۔ برآمدکنندگان کو درپیش مشکلات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سیلز ٹیکس ریفنڈز کی 72 گھنٹوں میں واپسی یقینی بنانےکیلئے چند سال قبل تشکیل دیا گیا’’فاسٹر‘‘نظام اپنے قیام سے آج تک مقررہ مدت میں ریفنڈز کی ادائیگی کرنے میں ناکام ہے۔ آج بھی برآمدکنندگان سالہا سال سے پھنسے ہوئے ریفنڈز کے اجرا کیلئے سرکاری دفتر وں کے چکر لگانے پر مجبور ہیں۔ اسلئے اگر حکومت نے برآمدات میں اضافہ یقینی بنانےکیلئے ایکسپورٹ انڈسٹری بالخصوص ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کے ذیلی شعبوں نٹ وئیر، گارمنٹس اور بیڈوئیر سیکٹرز کو درپیش مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل نہ کئے تو برآمدات بڑھانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔