• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اِن دنوں جتنا امن پسند نظر آتا ہوں ایک زمانہ تھا، ایسا نہیں ہوتا تھا۔دست بدست لڑائیاں بھی ہوتی تھیں اور قلمی جنگ بھی زوروں پر رہتی تھی ۔ایک دفعہ نذیر قیصرنے میری لڑائی قابل احترام بزرگ شاعر ظہیر کاشمیری سے کرا دی۔میں نے انکے خلاف کالم لکھ دیا۔ایک دن سر راہے ان سے ملاقات ہوئی تو میرے اس کشمیری اور امرتسری بزرگ نے مجھے صرف گھور کے دیکھا ۔ایک لڑائی امجد اسلام امجد نے کراچی کے ایک رائٹر سے کرا دی۔جسکے حواریوں نے لکھا تھا کہ امجد کا شاہکار ڈرامہ وارث اسکے ایک افسانے کا چربہ تھا ۔مستنصر حسین تارڑ کیلئے تو میں نے بہت سی لڑائیاں مول لیں۔جن میں مسعود اشعر ہی تھے جنہوں نے کہیں لکھ دیا تھا کہ مستنصر کے سفرنامے تاریخی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔وہ تو ان ملکوں میں گیا ہی نہیں یہ تو خیر معمولی جھڑپیں تھیں۔باقاعدہ جنگ منو بھائی اور ظفر اقبال سے الگ تھلگ ہوئی حالانکہ یہ سب لوگ میرے لیے بہت قابل احترام تھےاور ہمیشہ رہیں گے۔ میں نے گورنر پنجاب مصطفیٰ کھر کے خلاف کالم لکھا تھا۔جس پر منو بھائی نے مجھ پر چڑھائی کر دی اور یہ بات اتنی بڑھ گئی کہ احمد ندیم قاسمی نے دونوں کو سمجھا بجھا کر یہ جنگ پلاسی ختم کرائی ۔اللہ جانے اپنے بہت پیارے ظفر اقبال نے کیا کہہ دیا تھا کہ میں نے ان کے اخبار میں اپنا جوابی کالم چھپوایا ،لاحول ولا قوۃ۔ دراصل میں بہت لائی لگ رہا ہوں اور اسکے علاوہ اپنے دوستوں پر کوئی آنچ نہ آنے دینے والوں میں سے تھا۔ اپنے ان پیارے دوستوں کے علاوہ کئی لڑائیاں دست بدست بھی لڑنا پڑیں اور یہ ادبی نہیں اخلاقی بنیادوں پر تھیں ۔ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک شخص بس میں ایک لڑکی کے بالکل پیچھے کھڑا ہے ایک تو اسکی وجہ بے محابا رش اور دوسرے اس بد بخت کی بد نیتی تھی۔ایک وقت وہ آیا کہ اسکول کی بچی کی قمیص بھیگ گئی اور اس کے ساتھ ہی بس رکنے پر وہ خبیث جلدی سے باہر نکل گیا۔میں دروازے کے ساتھ بیٹھا تھا چنانچہ میں بھی نیچے اترا ،پہلے اسے تین چار گھونسے مارے اور پھر اسے زمین پہ لٹا کر اپنے جوتے کی نوک اس کی پسلیوں میں ماری۔لوگوں نے وجہ پوچھی تو میرے بتانے پر انہوں نے بھی اپنا فرض ادا کیا ۔ایک اور واقعہ مجھے نہیں بھولتا ،وہ عید قربان کا دن تھا۔میں قربانی کا گوشت تقسیم کرنےکیلئے اپنے ڈرائیور جس کا نام بہادر تھا گھر سے نکلا۔جب ہم منصورہ کے قریب پہنچے مجھے چلتی گاڑی میں یہ شک گزرا کہ سڑک کی دوسری جانب ایک چالیس پینتالیس سالہ شخص ہر قدم پر ایک بارہ تیرہ سالہ بچی کو ٹھڈے مارتا ہے۔وہ گر پڑتی ہے اور جب اٹھتی ہے تو وہ دوبارہ یہی حرکت کرتے ہوئے اسے اٹھاتا ہے اور پھر تشدد کرنے لگتا ہے۔ہم آگے نکل آئے تھے مگر میں نے بہادر سے کہا واپس چلو چنانچہ ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہم عین اس جگہ پر پہنچ گئے۔جہاں وہ بچی اور شیطان صفت شخص تقریباً ہمارے قریب پہنچ گئے تھے۔اس خبیث کو اس بات کی پروا نہیں تھی کہ میرے سمیت اور بھی کئی لوگ اس مکروہ اور مردار شخص کی حرکات دیکھ رہے ہیں تاہم جونہی وہ میرے قریب آیا مجھ سے پہلے بہادر نے پوری قوت سے اس کے منہ پر گھونسا دےمارا۔پتہ نہیں وہ کس کیفیت میں تھا کہ اسے گھونسے کا احساس تک نہ ہوا تب دو چار گھونسے میں نے اسے رسید کیے تو اس کے حواس واپس آئے۔اس دوران وہ بچی میرے گھٹنوں سے لپٹ گئی اور زارو قطار روتے ہوئے کہنے لگی۔’’اسے کچھ نہ کہو یہ میرا گھر والا ہے‘‘۔جب میں اور بہادر اس خبیث شخص کی دھلائی میں مشغول تھے۔پرے کھڑے دس بارہ لوگ یہ تماشا دیکھتے رہے۔جب ہم نے ایک حد تک اپنا غصہ نکال لیا تو کہا ’’ اس بچی کو اس کے گھر چھوڑ کر آؤ۔میں تمہیں دیکھ رہا ہوں اگر تم نے اب اس پہ تشدد کیا تو تمہیں جیل بھیجوا کر دم لوں گا ‘‘جب وہ گیا تو جو سب سے گھٹیا جملہ میں نے سنا وہ ان بے غیرتوں میں سے ایک کا تھا جو یہ تماشا دیکھ رہے تھےکہ’’دیکھیں سر جی ! وہ اس کی بیوی ہے اس پر بازار میں اس طرح تشدد کرنے کی بجائے گھر پہنچ کر کرتا۔‘‘میرا جی چاہا میں اس شخص کو اس کے اس جملے کا مطلب سمجھاؤں مگر گرمی کے دن تھے گوشت بھی تو صحیح حالت میں عزیزوں کے گھر پہنچانا تھا۔یہ سب واقعات میری بھر پور جوانی کے ہیں۔مگر اب میں جوان رعنا تو کیا جوان بھی نہیں رہا۔میری ہڈیاں دن بدن کمزور سے کمزورہوتی چلی جا رہی ہیں۔اِن دنوں مجھے غصہ آتا ہے صرف خود پر بھی،آپ پر بھی کہ ہم اس سے بھی زیادہ ظالم دنیا کے حکمرانوں اور بالا دست افراد کے ہاتھوں اس سے کہیں بڑے مظالم روزانہ دیکھتے اور سنتے ہیں۔ان پر احتجاج صرف گورے کرتے دیکھتے ہیں ۔غیر مسلم جہنمی ،ہم بخشے بخشائے لوگ ہمیں ان پھڈوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے،میری نصیحت ہے کہ آپ بھی نہ پڑیں،خوشگوار زندگی کو انجوائے کریں ۔بس کسی بابے کے آستانے پر حاضری دیتے رہیں ۔رام بھلی کرے گا۔

تازہ ترین