آج میں نے ’’کلیات اقبال‘‘ سے فال نکالنے کی کوشش کی۔صفحہ 489کھلا۔عنوان ہے ’’سیاست ‘‘
'اس کھیل میں تعین مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں ہے پیادہ
بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ '
ایک ایک حرف واشنگٹن، اسلام آباد، پنڈی پر صادق آرہا ہے۔ مراتب کا تعین بھی ہو رہا ہے شاطر عالم کی عنایات جاری ہیں۔ چھ سے سات اور اب سات سے آٹھ ہو گئے ہیں۔ فرزیں پیادے مہرے سب آپ کے ارد گرد ہیں۔ کھیل عالمی ہے شطرنج کی چالیں غزہ تل ابیب دوحہ واشنگٹن نیویارک کوالا لمپور میں بچھی ہوئی ہیں۔ دلی والے بھی اپنے فرزیں لیے بیٹھے ہیں ۔مگر شاطر کے ارادے فرزیں سے بھی پوشیدہ ہیں ۔اپنے ارادے پوشیدہ رکھنے کا سلسلہ درجہ بدرجہ ہے۔ عالمی بھی علاقائی بھی اور مقامی بھی۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ کوئی بھی فرزیں پیادہ شاطر کے ارادے جاننا بھی نہیں چاہتا ۔کیونکہ سب کو خوش گمانی ہے کہ شاطر ہم پر مہرباں ہے۔ اسلئے اسکے ارادے نیک ہی ہونگے۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں ،بہووں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اولادوں کے سوالات کے جوابات بہت احتیاط سے دینے کا دن ۔یہ نہ سمجھیں کہ وہ بچے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ وہ ہم سے زیادہ باخبر ہیں۔ سوشل میڈیا کا جام جہاں نما ان کے ہاتھ میں ہے ۔جہاں ہر سوال کا جواب مل جاتا ہے۔ یہ ان کی مہربانی ہے کہ وہ اپنے والدین کو یہ موقع دیتے ہیں اور ان کی باتیں سنتے ہیں ۔اقبال تو پہلے ہی کہہ گئے تھے۔
'خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
اقبال تو ہر روز ہی یاد کی جانے والی ہستی ہیں۔آج تو 9نومبر ہے ۔ان کی سالگرہ۔پہلے ہم ان کو 21 اپریل کو یاد رکھتے تھے ان کا یوم وفات۔لیکن اس کے ساتھ ہمیں 16 اکتوبر قائد ملت لیاقت علی خان کا یوم شہادت بھی یاد رکھنا پڑتا تھا۔اس لیے نو نومبر چلی آئی۔اب نو نومبر 19نومبر کے تناظر میں اور معنی خیز ہو گئی ہے۔اقبال تو یہ بھی کہتے تھے '’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘ مگر اب تو وہ دن چلے گئے اب تو افغانوں کے پاس بھی امریکہ کا چھوڑا ہوا اسلحہ ہے اور وہ اسے چلانا بھی سیکھ چکے ہیں۔ افغان بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی غیر معمولی اہمیت رکھتے تھے۔ اب سو سال بعد 21ویں صدی کی تیسری دہائی میں ان کی وقعت اور بڑھ گئی ہے ۔کوہسار باقی، افغان باقی ۔کلیات اقبال کے اوراق سے گزریں تو آپ کو افغان مفکروں شاعروں اور درویشوں کے افکار سے روشناس ہونے کا موقع ملتا ہے۔ بہت سے اہم اشعار جو اقبال کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں انکے بنیادی افکار بعض افغان مفکروں کے ہی ہیں۔ اقبال صرف شاعر نہیں تھے فلسفی بھی تھے مولانا رومی کے جوہر شناس اور مغربی فلسفیوں کے خوشہ چین۔ اقبال فکر کو اسلامی معاشرے میں غزالی سے لیکر آگے بڑھے لیکن اقبال کے بعد پھر فکر کے آگے ناکے لگ گئے۔ وہ خود کہہ گئے تھے۔دگر دانائے راز آید نہ آید۔ ان کے فرزند جناب جاوید اقبال نے 1963ءمیں مجھے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ علامہ کہا کرتے تھے :
Nations are born in the minds of poets and they collapse in the hands of politicians .
ہم یہ مشاہدہ خود کر رہے ہیں۔مشرق وسطیٰ میں کیا ہوا ۔تحریک پاکستان میں جو قوم اس خطے کو میسر آئی تھی ۔اقبال کے ذہن میں نمو پانے والی ۔وہ کیسے بتدریج سیاست دانوں کے ہاتھوں میں دم توڑتی رہی ۔
'تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ٹی وی چینلوں کا دور شروع ہوا تو اینکر پرسن ہمارے نا خدا بن گئے ۔ کسی سال کی 21 اپریل ہی تھی اس وقت کے ایک مقبول اینکر پوچھنے لگے کہ علامہ اقبال تو پاکستان بننے سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے میں نے کہا کہ جی ۔کہنے لگے وہ مفکر پاکستان پھر کیسے کہلا سکتے ہیں ۔جب پاکستان تھا ہی نہیں ۔میں انکی سوچ پر ماتم ہی کر سکتا تھا۔ غضب یہ ہوا کہ رات کو اپنے شو میں انہوں نے اسی صداقت کا برملا اظہار بھی کر دیا ۔اب جو قائدین ہمارے سامنے ہیں ان میں سینیٹر عرفان صدیقی کے علاوہ کوئی بھی شاید اقبال کا ایک شعر بھی درست پڑھ سکے ۔ہو سکے تو تجربہ کر کے دیکھ لیجئے ۔اقبال نے کہا تھا
'جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہ افلاک
اقبال کی شاعری ہو یا ان کے خطباتِ مدراس جو انگریزی اور اردو میں دستیاب ہیں۔یہ بیسویں صدی کے صرف اس دور کی نہیں بلکہ تاریخ اسلام کے ہر دور کی ایک تجزیاتی تصویر ہمارے سامنے لے آتے ہیں۔ جاوید نامہ، ساقی نامہ،شکوہ جواب شکوہ اور دوسری نظموں میں امت مسلمہ کے زوال کے اسباب بھی ملتے ہیں اور ان بحرانوں سے نکلنے کا راستہ بھی ۔مشینوں کی حکومت کیسے مروت کا احساس چھین لیتی ہے ۔مغرب کی جمہوریت ،یورپ کی تہذیب ان سب تبدیلیوں کے بارے میں وہ راہ راست دکھا چکے تھے۔
'پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطان سے بیزار ہے
یہ بھی کہا :
'فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
اک بندہ صحرائی ایک مرد کہستانی '
ہم ان دنوں ان دونوں سے متصادم ہیں اور یہ بھی ملاحظہ ہو
'یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہان شہر میرے خلاف '
اور یہ تو آپ بھی بار بار پڑھتے سنتے ہیں ۔
'خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
اقبال عشق رسول میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس عشق نے ہی ان کے ذہن پر نئے عالمی آفاق کے دروازے وا کئے۔ایک کالم کا دامن تو اتنا وسیع نہیں ہوتا کہ اس میں سارے موتی یکجا کر لیے جائیں ۔کلیات اقبال تو ہر گھر میں ہوتی ہے آپ اس میں صفحات 218اور 219نکال لیں’’بانگ درا‘‘ میں’’شمع اور شاعر‘‘کا مطالعہ کر لیں۔وہ مجھے اور آپ کو مخاطب کر رہے ہیں۔
'آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تورہرو بھی تو رہبربھی تو منزل بھی تو
کانپتا ہے دل ترا اندیشہ طوفاں سے کیا
نا خدا تو 'بحر تو 'کشتی بھی تو ساحل بھی تو
وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا
مےبھی تو 'مینا بھی تو 'ساقی بھی تو محفل بھی تو
آخر میں یہ دعا
'یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
احساس عنایت کر آثار مصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشہ فردا دے