انسٹاگرام جیسی خباثت جہاں وقت ضائع کرنے کے کام آتی ہے وہیں اِس کا ایک فائدہ بھی ہے کہ ہم جن حرکتوں کی وجہ سے خواہ مخواہ شرمندہ رہتے تھے، انسٹاگرام پر لوگوں نے بتایا کہ وہ بھی انہی حرکتوں کا ارتکاب کرتے رہے ہیں۔ لاہور سے ریاض جانے والی پرواز جب صبح پانچ بجے ریاض کے ہوائی اڈے پر اُتری تو وہ انسٹارِیل یاد آئی جس میں ایک بندہ سستی ٹکٹ بُک کروانے کے چکر میں یہ بھول جاتا ہے کہ ہوٹل چیک اِن کا وقت دوپہر دو بجے ہے اور اُس وقت تک وہ کھانے پینے پر پیسے خرچ کرنے کے علاوہ خواری بھی کاٹ چکا ہوتا ہے۔ خیر، ہم اپنے تئیں کچھ سیانے بھی ہیں اسی لیے ہوٹل کو ای میل بھیج دی تھی کہ ہم صبح سات بجے وارد ہوں گے تو مہربانی فرما کہ جلدی چیک اِن کروا دیجیے گا، اُن کا شکریہ کہ بغیر اضافی پیسوں کے یہ عنایت کر دی۔ کمرہ دیکھا تو بہت عمدہ تھا مگر ہوٹل والوں کی کرم نوازی دیکھ کر خیال آیا کہ کیوں نہ انہیں اپ گریڈ کی درخواست بھی جمع کروا دی جائے۔ ریسپشن پر جب ایک نقاب پوش حسینہ نے بار بار پوچھا کہ آپ کا قیام کیسا ہے، کوئی تکلیف تو نہیں، ہم نے کہا کہ ویسے تو سب ٹھیک ہے مگر کمرہ ہماری امیدوں پر پورا نہیں اُترا، کچھ چھوٹا ہے۔ وہ معذرت کرکے اپنی منیجر کو بلا لائی، اُس نے بھی بلاوجہ معافی مانگی اور پھر بِن مزید کچھ مانگے ہمیں ایک سویٹ میں منتقل کر دیا۔ ویلکم ٹو ریاض!
ریاض میں آج تیسرا دن ہے اور سچ پوچھیں تو شاید یہ دنیا کا واحد شہر ہے جہاں آ کر مجھے بوریت محسوس ہو رہی ہے، اِس میں شہر کا نہیں میرا اپنا قصور ہے، نہ جانے کیوں دل پاکستان میں اَٹکا ہے۔ ایک ہی قسم کے شاپنگ مالز دیکھ دیکھ کر میں اُکتا چکا ہوں، وہی کپڑوں، جوتوں، پرفیومز اور برینڈڈ بیگز کی دکانیں، ایک سنے پلیکس اور اُس کے ساتھ فوڈ کورٹ۔ لیکن ریاض کو یوں ایک سطر میں بیان کرنا بھی زیادتی ہے۔ شہر کے چپے چپے سے امارت ٹپکتی ہے، گاڑیوں کے شوروم اور عالیشان ہوٹل ہر جگہ پھیلے ہیں، اور کھانے پینے کے ٹھکانے تو خیر ایسے ایسے ہیں کہ بندہ حیران پریشان رہ جاتا ہے، لیکن آخر بندہ کتنا کھا سکتا ہے، ہوٹل کے ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک مسلسل ایک ہی کام۔ عرب ممالک کی ایک بات مجھے بہت پسند ہے کہ یہاں انگریزی کے ساتھ ساتھ ہر جگہ، دکان، ہوٹل اور ریستوران کا نام عربی میں بھی لکھا ہوتا ہے، حتّیٰ کہ دکانوں کے اندر جہاں سیل کے اشتہارات لگے تھے وہاں سیل کو عربی میں ”تخفیف“ لکھا دیکھا، روح خوش ہو گئی، اِسی طرح اسپیشل آفر کو ”عَرضِ خاص“ لکھا تھا۔ اپنے یہاں تو اچھے بھلے اردو الفاظ کو خواہ مخواہ انگریزی میں بولنے اور لکھنے کی عادت ہو گئی ہے۔ ریاض میں موسم خوشگوار ہے، صبح اور رات کو خُنکی ہو جاتی ہے، لیکن دوپہر میں ذرا سی گرمی مگر ایسی بھی نہیں ائیر کنڈیشنر چلایا جائے، لیکن یہاں لوگ ہر وقت اے سی چلا کر رکھتے ہیں، بجلی کا استعمال ایسے ہے جیسے مفت ملتی ہو، بادشاہوں کا ملک ہے، اُن کی باتیں وہی جانیں، ہمیں کیا پتا ’انار کلی دیاں شاناں‘۔ بولیوارڈ ورلڈ شہر کی مشہور جگہ ہے، کسی حد تک یہ دبئی کے گوبل ویلیج کی طرح ہے، ویک اینڈ میں یہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، تاحّدِ نگاہ گاڑیاں ہی گاڑیاں۔ ریاض میں ویسے بھی ٹریفک کا رَش بہت زیادہ ہے، سڑکیں رن وے کی طرح کشادہ ہیں مگر اِس کے باوجود دفتری اوقات میں ٹریفک رینگ رینگ کر چلتی ہے۔ عورتوں پر حجاب یا برقع لینے کی پابندی نہیں، جو مزاجِ یار میں آئے۔ کسی نے سیاہ برقع لے کر نقاب کیا ہوا ہے تو کوئی بغیر نقاب کے ہے، کسی نے عبایا پہن کر چہرہ کھلا رکھا ہے تو کوئی مغربی لباس میں ہے۔ کام کرنے کے معاملے میں سُست ہیں، کسی قسم کی کوئی جلدی نہیں، بے نیاز ہیں، اُس امیر آدمی کی اولاد کی طرح جو نوکری تو کرے مگر اسے علم ہو کہ ’پیسہ بڑا ہے‘! غریب ملکوں کے لوگ یہاں بھی غریب ہیں اور چھوٹی موٹی نوکریاں کرکے پیسے گھر بھجواتے ہیں، اُن کے وہی تمام دکھ ہیں زمانے میں، محبت کے سوا!ریاض کچھ کچھ دبئی سے دبتا ہوا نظر آیا، جو شان و شوکت اور چکا چوند دبئی کی ہے وہ ریاض کی نہیں، یا شاید میرا موڈ ٹھیک نہیں۔ مجھے بھی چاہئے کہ ایک سکہ بند سفرنامہ نگار کی طرح ریاض کے بارے میں پوری کتاب لکھ ماروں، حالانکہ یہاں میرا قیام فقط تین دن کا ہے۔ یار لوگ اِس فن میں یکتا ہیں، کہیں ایک رات بھی گزار آئیں تو سو صفحے چھاپ دیتے ہیں۔ اُس کُلیے کے تحت ریاض کا سفرنامہ بھی کتابی صورت میں شائع کروایا جا سکتا ہے۔ نمونہ ملاحظہ ہو: ”ریاض میں ہر شخص گاڑی چلاتا ہوا نظر آیا حتّیٰ کہ ساربان بھی اونٹ کو سائیڈ پر باندھ کر گاڑی ہی چلا رہا تھا۔ مجھے بھی بچپن سے گاڑیاں چلانے کا شوق ہے، ہماری پاس چھوٹی سی سوزوکی ایف ایکس ہوا کرتی تھی، کہیں بھی لے جاؤ دوڑتی ہوئی جاتی تھی، کئی مرتبہ ہم اُس میں مرَی گئے۔ مری کی کیا ہی بات ہے، یونہی اِس کا نام ملکہ کُہسار نہیں۔ ملکہ سے یاد آیا، ملکہ ترنم نور جہاں سے ایک مرتبہ ملاقات ہوئی تو کہنے لگیں آج کل گانے والیاں بہت زیادہ ہو گئی ہیں مگر سُر تال کی سمجھ کسی کو نہیں، پھر اپنے مخصوص لہجے میں پنجابی میں گالی دے کر بولیں کہ اُس کو تو یہ بھی نہیں پتا کہ کون سا گانا کس راگ میں ہے۔ کیا بات تھی ملکہ ترنم کی، اُس جیسی عورت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ وقت بھی عجیب چیز ہے، کب گزرتا ہے پتا ہی نہیں چلتا، آج میں ریاض میں ہوں تو کل کہیں اور....“ امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے اِس تکنیک کو بروئے کار لا کر اُس جگہ کا سفر نامہ بھی لکھا جا سکتا ہے جہاں سے آپ کبھی گزرے بھی نہ ہوں اور میں تو پھر بقائمی ہوش و حواس ریاض میں ہوں۔آج جدہ کی فلائٹ ہے اور وہاں سے مکّہ معظّمہ۔ ظاہر ہے کہ عمرے کا ارادہ ہے۔ کچھ لوگوں کو بتایا تو انہوں نے حیرت سے کہا کہ میاں اتنے بڑے ہو گئے اور اب تک عمرہ ہی نہیں کیا۔ اب بندہ اِس بات کا، سوائے اِس کے کیا جواب دے کہ کبھی بلاوا ہی نہیں آیا۔ حالانکہ بقول قبلہ والد صاحب، اپنے ہاں کچھ لوگوں کو بلاوے نہیں آتے بلکہ اُن کی پیشی ہوتی ہے۔ مجھے بھی وہاں جا کر ہی پتا چلے گا کہ میرا بلاوا ہے یا پیشی!