الحمرا آرٹس کونسل میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی تھی جس میں مجھے بھی کتاب پر اظہار خیال کرناتھا۔میراشیڈول بہت ٹائٹ تھا لہٰذا دعوت نامے پردیے گئے وقت کے مطابق ہال میں پہنچ گیا لیکن پتا چلا کہ حسب معمول تقریب تاخیرکاشکارہے کیونکہ ابھی تو بمشکل چھ لوگ آئے ہیں۔ مجبوراً ہال کے باہر کھڑے ہوکرچھ لوگوں سے گپیں ہانکنا شروع ہوگیا۔ یہ چھ لوگ میرے جاننے والے تھے اور ادیب برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک صاحب نے باتوں باتوں میں ایک ایسی بات کہی کہ میں لرز اٹھا۔ نئی نسل کے حوالے سے کوئی بات ہورہی تھی جسکے دوران انہوں نے انتہائی دکھ سے بتایا کہ انکی اپنے جوان بیٹے سے 6ماہ سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ بیٹاگھر میں موجود ہے،پاکٹ منی بھی لیتا ہے، کالج کی فیس بھی ادا کی جاتی ہے لیکن باپ سے نالاں ہے اور یوں باپ بیٹے کی گفتگو منقطع ہے۔یہ گھرگھر کا مسئلہ ہے۔ لوگ عموماً اسے والدین کی غلط تربیت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں حالانکہ اس کا تربیت سے کوئی تعلق نہیں۔باپ گھر کی ہر ضرورت پوری کرتاہے لیکن اکثر بچے پھر بھی باپ کو ہی نفرت کانشانہ بناتے ہیں۔اس میں کئی دفعہ تربیت سے زیادہ ماں کی یکطرفہ داستانوں کا زیادہ کردار ہوتاہے جو عموماً بچے کو باپ کی طرف سے سننے کو نہیں ملتیں سو بچہ یہی سمجھتاہے کہ باپ ظالم ہے اورماں مظلوم۔تربیت ایک خاص عمرتک کی جاسکتی ہے، اس کے بعد بچہ باہر کے ماحول سے سیکھتاہے اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں باپ کی حیثیت ایک اے ٹی ایم سے زیادہ نہیں سمجھی جاتی۔بچے ماں سے ناراض ہوں تو شام تک ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن باپ سے ناراض ہوں تو یہ ناراضی اکثر مہینوں تک محیط ہوجاتی ہے۔باپ نہ روٹی بنا سکتا ہے، نہ کھانا بناسکتاہے، نہ گھر کے کام کاج کرتا نظر آتاہے لہٰذااولاد کو لگتاہے کہ یہ تو بس خرچہ پورا کرنے والا فرد ہے جو صبح جاتاہے اور شام کو آجاتاہے، ایسے بندے کو صرف گھر کے اخراجات پورے کرنے چاہئیں۔ باپ کیسے پیسا کماتاہے، کیسے گھر سنبھالتاہے، یہ اکثر بچے نہیں جاننا چاہتے کیونکہ اُنہیں صرف یہ پتاہے کہ ماں کے پیروں تلے جنت ہے، ماں عظیم ہے اور ماں ہی مقدم ہے۔
٭٭٭
وزیردفاع خواجہ آصف کے مطابق اِس وقت پاک افغان مذاکرات بلانتیجہ ختم ہوچکے ہیں اوراگلے دور کا ابھی کوئی پروگرام نہیں۔ اِن مذاکرات پرڈیڈ لاک تب پیدا ہوا جب افغان حکومت نے تحریری طور پر کوئی معاہدہ کرنے سے انکار کیا۔مطلب ایک ہی تھا کہ دِلوں میں کھوٹ ہے۔ یہ معاہدہ نہ ہونے کا خود افغانستان کو نقصان ہے کیونکہ اب پاکستان کی افواج بھی آزاد ہیں کہ وہ افغانستان کی طرف سے ہونے والی کسی بھی جارحانہ کارروائی کا پورا جواب دینے کا حق رکھتی ہیں۔افغان حکومت یہ توچاہتی ہے کہ اس پر حملہ نہ کیا جائے لیکن افغانستان سے پاکستان پر ہونے والاحملہ انہیں منظورہے۔اب کی بار ایسانہیں ہوگا۔افغان رجیم اور افغان عوام کو یادرکھناچاہیے کہ روس کے ساتھ جنگ میں مجاہدین کی شکل میں ہماری کس قدر حمایت اور عملی مددافغانستان کوحاصل تھی۔پاکستان خطے میں نہایت اہمیت کاحامل ملک ہے جو منظم فوج اور بہترین اسلحے سے لیس ہے۔کابل روایتی جنگ کے قابل نہیں، یہ تب ہی مخالفین سے جیت سکتا ہے جب وہ اِس کے علاقے میں موجود ہوں۔جنگ میں جگاڑ نہیں چلتے۔آپ کسی جگہ خود کش حملہ کرکے تو لوگوں کو ہلاک کرسکتے ہیں لیکن آسمان سے آتے ہوئے میزائل کو روکنے کیلئے نہ بندوقیں کام آتی ہیں نہ غلیلیں۔پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ سیز فائرتب تک قائم ہے جب تک افغان سرزمین سے کوئی جارحیت نہیں ہوتی، اگر ایساہوتاہے تو اینٹ کا جواب پتھر سےآئے گا اور پتھر بھی بارود بھرا۔فی الحال تو تجارتی راہداری بند ہونے سے ہی دوسری طرف کے ہوش اڑے ہوئے ہیں۔ سندر خانی انگور اچھے ہوتے ہیں لیکن ایسی بات بھی نہیں کہ ان کے بغیر گزارا نہ ہوسکے۔
٭٭٭
ستائیسویں ترمیم کے شورمیں وزیر مملکت قانون و انصاف بیرسٹرعقیل ملک نے ایک اہم بیان دیاہے کہ اٹھائیسویں ترمیم بھی آسکتی ہے۔ترامیم کرنا پارلیمنٹ کا آئینی حق ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو ہردورمیں ترامیم یا قانون آتے ر ہتے ہیں اور ہر دور میں مخالفین اس پر اعتراض کرتے رہتے ہیں۔ جس طرح عدالتوں کو فیصلوں کا حق ہوتاہے اسی طرح پارلیمنٹ کو آئین میں ترامیم کاحق ہوتاہے۔ یہ ترامیم قانون سے بالاتر ہوں تب تو ان پر اعتراض کی وجہ سمجھ آتی ہے لیکن اگر یہ پورے پراسس کے مطابق ہورہی ہیں تو کوئی کیسے اِنہیں روک سکتاہے۔ ہمارے ہاں ہراپوزیشن کو لگتا ہے کہ وہ مظلوم ہے اور حکومت ظالم حالانکہ ہر وہ اپوزیشن جوحکومت میں رہ چکی ہووہ اپنے وقت کی ظالم ہوتی ہے لیکن ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتی۔میں نے بہت سے لوگوں کو گزشتہ دور میں فیصلہ سازوں کے حق میں پرجوش دلائل دیتے دیکھا ہے لیکن آج جب وہ خود مسائل میں گھرے ہوئے ہیں توفیصلہ سازوں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔کسی سے محبت اورعقیدت حد سے بڑھ جائے تو دوسروں کی خوبیاں بھی خامیاں نظر آنے لگتی ہیں۔
٭٭٭
پاکستان میں سینماانڈسٹری بدترین بحران کاشکار ہے اورحکومت کی خواہش ہے کہ یہ پھر سے اپنے پیروں پر کھڑی ہو۔تو اس سلسلے میں حکومت سے گزارش ہے کہ فلم ڈائریکٹرز کوصرف اتنی سہولت دے دیں کہ وہ جس لوکیشن پر فلم کے سین فلمانا چاہتے ہیں وہاں حکومت ذاتی دلچسپی لے کر ان کی سہولت کیلئے مفت اقدامات کرے تو بہت سے لوگ بہت اچھی فلمیں بنانے پر آمادہ ہوجائیں گے۔