• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگریزوں نے اپنی آمد کے بعد بر صغیر میں سب سے زیادہ توجہ تعلیم، صحت، مواصلات خصوصاََ ریلوے کے نظام اور اری گیشن کے شعبوں پر دی۔ انگریزوں کے قائم کردہ تعلیمی ادارے آج بھی کام کر رہے ہیں بلکہ کئی تعلیمی اداروں کو اپ گریڈ بھی کیا گیا ۔اور کچھ تعلیمی اداروں کا ستیا ناس مار دیا گیا۔گوروں نے فنون لطیفہ خصوصاََ دستکاری کی تعلیم و تربیت پر بھی خاص توجہ دی۔ لاہور کے تاریخی شہر میں میو ا سکول آف انڈسٹریل آرٹس کے نام سے ایک شاندار ادارہ بنایا اور یہ ادارہ 1875 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ بر صغیر اور پاکستان کا پہلا تعلیمی ادارہ ہے جہاں پر فنون لطیفہ اور دستکاری کی تعلیم دی جاتی ہے۔ گزشتہ ہفتےسے میواسکول آف انڈسٹریل آرٹس موجودہ این سی اے کی 150 سالہ تقریبات کا آغاز ہوا۔آر ٹ ہمیشہ انسان کے اندر ایک خوبصورت حس پیدا کرتا ہے اس شعبہ سے وابستہ لوگ بڑے مستقل اور نرم مزاج ہوتے ہیں۔ این سی اے کے موجودہ ہر دلعزیز وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری اور ان کی اہلیہ فاطمہ جعفری نے اس ادارے میں کئی نئی روایات کی داغ بیل ڈالی۔ اس سال نومبر کے پورے ماہ این سی اے کی 150 ویں سالگرہ کی تقریبات کا سلسلہ شروع کیا۔ فنون لطیفہ کے وہ شعبے اور آلات موسیقی جو اب آہستہ آہستہ لوگوں نے سننے کم کر دیے ہیں اور نئی نسل کو ان آلات موسیقی اور روایتی چیزوں کا پتہ نہیں ان سے آگاہ کرنے کے لیے بڑے احسن اقدام کیے ہیں مثلاََسارنگی کے بارے میں آج کی نوجوان نسل کو بہت کم علم ہے چنانچہ این سی اے میں 150 ویں سالگرہ تقریبات میں سارنگی نواز فنکاروں کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد نے سارنگی اور ستار کا مظاہرہ دیکھا اور بہت پسند کیا ۔دکھ کی بات یہ ہے کہ جس شخصیت نے 40 سال ہوم اکنامکس کالج (اب یونیورسٹی)میں ہزاروں طالبات کو ستار کی تعلیم دی اور ستار بجانا سکھایاان کو حکومت اور کالج دونوں نے ہی نہیں پوچھا۔استاد سلیم خاں پونچھ والے کے آج بے شمار شاگرد ہیںاور وہ ستار بجانے کے فن میں کمال رکھتے ہیں ۔ہوم اکنامکس کالج والوں نے ان کی بالکل قدر نہیں کی ۔جس طرح این سی اے والے قدیم آلات موسیقی کو نوجوان نسل سے متعارف کرا رہے ہیں وہ قابل ستائش ہے ،دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور میں بلکہ پاکستان میں پہلی مرتبہ کسی تعلیمی ادارے میں اس طرح کی رنگا رنگ تقریبات منائی جا رہی ہیں اور پھر پورے ایک ماہ تک یہ تقریبات جاری رہیں گی۔ بعض حوالوں سے یہ کالج پہلے کہیں گھوڑا ہسپتال موجودہ یونیورسٹی آف اینیمل سائنسز کے قریب قائم ہوا تھا گھوڑا ہسپتال والی عمارت کبھی بینک آف بنگال کی عمارت تھی یہ بڑی خوبصورت عمارت ہے جو لال اینٹ کی بنی ہوئی ہے ۔آئندہ کسی کالم میں ہم اس تاریخی عمارت کے بارے میں کئی دلچسپ باتیں بیان کریں گے ۔میو اسکول آف انڈسٹریل آرٹس گھوڑا ہسپتال کے بعد ٹولنٹن مارکیٹ والی عمارت میں آگیا اس عمارت پر کبھی انڈسٹریل آرٹ کی نمائش ہوا کرتی تھی۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے پھر اس عمارت میں کئی جنرل اسٹورز، فروٹ سبزی مارکیٹ ،مچھلی اور مرغی مارکیٹ بن گئی اور دو ریسٹورنٹس بھی یہاں بن گئے تھے۔ خیر چند سال قبل یہ خوبصورت اور تاریخی عمارت دوبارہ میو اسکول آف انڈسٹریل آرٹس موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس کے حوالے کر دی گئی اس وقت اس تاریخی عمارت کی حالت بہت خستہ ہو چکی تھی۔ این سی اے کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری جن کو پرانی عمارات اور آرٹ سے ہماری طرح بہت لگاؤ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تاریخی عمارت کو اس کے اصل فن تعمیر کے ساتھ ری اسٹور کیا جائے اور پھر اس پر کام شروع ہو گیا۔

آج یہ قدیم اور تاریخی عمارت اپنے اصل فن تعمیر کے ساتھ نظر آتی ہے۔آج اس تاریخی عمارت میں اب این سی اے کا سالانہ ڈگری شو بھی ہوتا ہے اور ایک ہال میں کئی کھڈیاں بھی لگا دی گئی ہیں جہاں پر روایتی انداز میں کپڑا اور کھدر تیار کیا جاتا ہے ۔کاش ماضی کی حکومتیں اس قسم کےمزید ادارے قائم کرتیں ۔ این سی اے کے وائس چانسلر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری نے سوچا کہ ہمارے ادارے میں طلبہ و طالبات گلگت ،اسکردو اور اس کے نزدیک علاقوں سے لاہور پڑھنے آتے ہیں کیوں نا این سی اے کا ایک کیمپس راولپنڈی کے بعد اب گلگت میں بھی قائم کر دیا جائے۔ سوچیں گلگت اور اس کے قریبی علاقوں کے ا سٹوڈنٹس کو وہاں تعلیم کی بہترین سہولتیں میسر آگئی ہیں۔ اب کراچی میں اس سال کے آخر تک این سی اے کا ایک کیمپس قائم ہو جائے گا اور کام شروع کر دے گا ۔این سی اے کا راولپنڈی کیمپس 2006 میں اور گلگت ،بلتستان کیمپس 2023میں قائم کیا گیا۔این سی اے نے اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے کسب کمال کن اور ٹرئینالے 2025کا ایک زبردست پروگرام مرتب کیا ہے اور ہر تین سال بعدٹرئینالے ہوا کرے گا اس مرتبہ 200 سے زائد مقامی اور بین الاقوامی فنکار حصہ لے رہے ہیں غیر ملکی فنکار اپنے ملک کی ثقافت اور روایات کا ذکر کریں گے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان فنکاروں کو کسی ہوٹل میں نہیں بلکہ این سی اے کے ہوسٹل میں ٹھہرایا گیا ہے جہاں پر وہ بڑا لطف اٹھا رہے ہیں۔’’ کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی‘‘کے خوبصورت الفاظ این سی اے کی عمارت کے مرکزی دروازے پر نصب ہیں۔ 150 تقریبات میں اس موٹو کو سامنے رکھ کر آغاز کیا گیا ہے۔آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہوگی کہ آ ج بھی این سی اے کے اندر بے شمار اشیا اور کمرے ایسے ہیں جہاں پر ڈیڑھ سو برس قدیم لوہے کے گارڈر پریس اور دیگر اشیاء موجود ہیں۔ یقین کریں این سی اے کی چھتیں ڈیڑھ سو برس گزرنے کے باوجود مزید 200 برس تک کام دے سکتی ہیں ۔ ( جاری ہے)

تازہ ترین