زہران ممدانی نے نیویارک میٔر کے انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی۔ ان کے والد ہندوستانی گجراتی کھوجا جبکہ والدہ فلم پروڈیوسر میرا نائر ہندو ہیں۔ بیگم شامی اسماعیلی ہیں تاہم زہران سیکولر خیالات کے ترقی پسند مانے جاتے ہیں۔ سیاسی طور پر ان کا نظریاتی جھکاؤ سوشلزم کی جانب ہے۔ ان کی فتح میں مسلمانوں، یہودیوں، ہندوستانیوں اور نیویارک کے پِسے ہوئے طبقے کا بڑا ہاتھ ہے۔ 2018 میں امریکی شہریت اختیار کرنے والے زہران سیاست میں آنے سے پہلے بطور "ریپر" موسیقی کے شعبے سے منسلک تھے۔ اپنی کامیابی کی تقریر میں انہوں نے جواہر لال نہرو کی 1947 کی تقریر کا حوالہ دیا جبکہ وہ خود کو ہندوستانی کہتے ہیں۔ 2020 میں نیویارک کی ریاستی پارلیمان میں منتخب ہوئے، پھر 2022 اور 2024 میں بِلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ عوام کو مفت بس سروس، بچوں کی کفالت، گھروں کے کرایوں کے بڑھنے پر پابندی، ہم جنس پرستوں کے حقوق کا تحفظ اور ایک ملین ڈالر سے زائد آمدنی والی کمپنیوں پر اضافی ٹیکس جیسے ناقابلِ عمل اور ناممکن وعدوں پر زہران نے یہ انتخاب جیتا ہے۔ یوکرائنی صدر زولنسکی کی طرح انکا اتنی جلدی، اتنی شہرت اور مقام تک پہنچنا انتہائی مشکوک ہے۔ ایک گانا گانے والا نوجوان جس کا خاندانی پس منظر امریکہ میں ہندوستانیوں اور مسلمانوں کے خلاف مجموعی طور پر نفرت آمیز روئیوں کے باعث قابلِ قبول نہیں، کیسے اتنا بڑا انتخاب، اتنے مارجن سے جیتا؟ ان کی انتخابی مہم میں اپنی ڈیموکریٹک جماعت کے اراکین بھی کِھچے کِھچے رہے کیونکہ زہران ہر اس سوچ اور نظریے کے مخالف ہیں جس پر ڈیموکریٹک جماعت دہائیوں سے قائم ہے۔ میڈیا نے ان کے منشور کو بہت اُجاگر کیا جیسے انہیں کہیں سے اشارہ اور مالی مفاد مل رہا ہو۔ بعینی ممدانی کی فتح کے پیچھے ٹرمپ کا بھی ہاتھ نظر آتا ہے جنہوں نے پہلے اپنے مقام سے گر کر ممدانی کو موضوعِ بحث بنا کر اٹھایا اور جیتنے پر جمہوریت کی اعلیٰ اقدار کے نعرے لگاتے ہوئی صلح کا ہاتھ بڑھا دیا۔ فلسطینیوں سے ہمدردی اور "موذی" کے خلاف بیانات نے اس کی جھولی میں ہندوستانیوں کے علاوہ مسلمان اور یہودی ووٹ بھی ڈالے جو ٹرمپ کی غزہ جنگ بندی کے وعدوں پر ریپبلکیں جماعت کو ملے تھے۔ ممدانی کی فتح ماضی میں کئی مسلمان سیاست دانوں جیسی لگتی ہے جنہوں نے عوامی خواہشات کے مطابق امریکہ اور مغرب کے خلاف خوب نعرے لگائے لیکن بعد ازاں امریکہ کی غلامی میں پیش پیش نظر آ ئے۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر "پین عرب ازم" کا نعرہ لگا کر عرب ممالک کے لیڈر بن کر ابھرے، اپنی تقاریر میں مغرب کی ایسی تیسی کرتے رہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ تقاریر خود امریکی سی آئی اے اپنے ہی خلاف انہیں لکھ کر دیا کرتی تھی۔ اسی طرح سابق وزیرِاعظم عمران خان جلسوں میں خط لہرا لہرا کر امریکہ کو برا بھلا کہتے رہے، اپنی حکومت کو ختم کرنے کا الزام امریکہ پر لگاتے رہے،" ہم کوئی غلام ہیں" کے اپنے پیرو کاروں سے نعرے لگواتے رہے اور اب امریکی سی آئی اے کے افسر کے انکشاف سے پتہ چلا کہ یہ سب امریکی آشیرباد سے کیا گیا تھا۔
پاکستان، افغانستان کے معاملات کسی طور بہتری کی جانب نہیں جا رہے۔ بار بار مذاکرات بے نتیجہ ہونے پر دوبارہ مذاکرات کا ڈول کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ کسی ذی شعور کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ان مذاکرات کا مطلب صرف وقت حاصل کرنا ہے جو "دال میں کچھ کالا" کے مترادف ہے۔ اس کا مقصد دباؤ ڈلوا کر ٹرانزٹ ٹریڈ کھلوانا اور اس دوران ایران کی بندر گاہ سے ڈرون، اسلحہ اور ٹیکنیکل ماہرین کی کھیپ لانا ہے ۔افغان طالبان ہٹ دھرمی پر قائم ہیں تو ہمیں بھی یکسو ہو کر اپنے مفاد میں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ افغان وزیر نور اللہ نوری نے اپنے زہریلے بیان میں پاکستان کو دھمکاتے ہوئے روس اور امریکہ کا انجام یاد کرایا اور کہا کہ ہماری سرحدیں متصل ہیں، ہم کراچی، لاہور اور اسلام آباد کو(خون سے) لال کر دیں گے اور اسلام آباد پر اپنا سفید جھنڈا لہرا کر گریٹر افغانستان بنائیں گے۔ مذاکرات کے دوران افغان وفد نے اس بیان کا ڈھٹائی سے دفاع کیا ۔ یوں انکی نیت میں کسی شک و شبہہ اور خوش گمانی کی گنجائش نہیں رہتی کہ پاکستان میں تمام تر دہشتگردی انکی مرضی اور پشت پناہی سے کی جا رہی ہے۔ استنبول میں حالیہ مذاکرات کے دور میں پاکستانی وفد کے افغانستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کے الزامات پر افغان وفد کے صاف انکار پر جب انہیں ثالثوں کی موجودگی میں بی ایل اے جس پر پاکستان، امریکہ، برطانیہ، ایران، چین اور یورپی یونین میں بطور دہشت گرد تنظیم پابندی ہے کے دہشت گرد سربراہ زیب بشیر کی سیٹالائیٹ تصاویر اور دہشت گردوں کے رہائشی مقامات اور انکی کارروائیوں کے حوالے سے شواہد پیش کئے گئے تو وہ لا جواب ہو گئے۔ البتہ افغان وفد کا کسی قسم کی ضمانت اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا معاہدہ لکھنے کے بجائے صرف زبانی یقین دہانی کرانے پر اصرار صاف ظاہر کرتا ہے کہ 2021 سے کئی مرتبہ جھوٹی یقین دہانیوں کی طرح اس مرتبہ بھی یہ یقین دہانی اسی روایت پر منتج ہو گی۔ ہمیں افغان حکومت سے لڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ افغانستان میں دہشتگردوں کے خلاف گرم تعاقب کر کے ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا چائیے۔ ایسے میں عبوری حکومت کے سر اس کا الزام بھی نہ آئے گا کیونکہ پورے افغانستان پر ان کا عملاً کوئی کنٹرول نہیں ہے باوجود کہ وہ اس حقیقت کو منانے سے انکاری ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ افغانوں کے اس معاندانہ رویے کے پیچھے ہندوستان ہے جو انہیں پاکستان کو دوھرے محاذ پر لڑانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ہمیں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کسی صورت بحال نہیں کرنی چائیے اور جلد از جلد بفر زون قائم کر کے اپنی سرحد کو محفوظ بنانا چائیے ۔ ویسے بھی پاکستان کے ہاتھوں ہندوستان کا بندوبست اور افغانوں کے بلند و بانگ دعوؤں کے زمین بوس ہونے پر حالات بدل جائیں گے۔
پاکستان اپنی بقاء و سلامتی اور تابندہ مستقبل کے لیے چو مکھی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک جانب اسے دہشت گردی ، کمزور معیشت، عدم استحکام کا سامنا ہے تو دوسری جانب ہندوستان اور اس کے پراکسی افغانستان سے بیرونی حملوں اور دہشت گردوں سے نمٹنا ہے۔ ہر محاذ پر سوشل میڈیا کے منفی روئیوں کو جھیلنا پڑتا ہے ۔ قوم سوشل میڈیا کی رسیا، منفی خبروں و پراپیگنڈے کا شکار ہے۔ شتر ِبے مہار کی طرح میڈیا قوم کو بد گمانی، بے یقینی سے دوچار کر رہا ہے۔ ہماری میدان میں جیتی بازیاں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ہاری جا رہی ہیں۔ حکومتِ وقت و اربابِ اختیار کو اپنی حالیہ روش تبدیل کرنا ہو گی اور اپنے عوام کو فراخ دلی سے بِنا شک و شبہ اعتماد میں لیتے ہوئے اپنے مؤقف پر مضبوطی سے قائم رہنا چائیے۔ انشااللہ فتح ہماری ہو گی!
؎اے ا ہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شَے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا