پاکستان کے عوام عشروں سے یہ خوش خبریاںسن رہے ہیں کہ پاکستان معدنی دولت سے مالا مال ہے ۔ قیمتی دھاتوں اور دیگر معدنیات پر مشتمل کھربوں ڈالر مالیت کے یہ ذخائر ملک کو تمام معاشی مشکلات سے نجات دلا سکتے ہیں، لیکن ان خوش خبریوں کا کوئی عملی نتیجہ سامنے نہ آنے کی وجہ سے اب لوگ ان دعووں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، اور اگر ان پر اعتبار کر بھی لیں تو حکومتی نظام میں کرپشن اور بد انتظامی کا راج ہونے کے باعث سمجھتے ہیں کہ یہ دولت زمین سے باہر آ جائے تب بھی بدعنوان مقتدر طبقات ہی اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور عام آدمی کی حالت زار میں کوئی بہتری واقع نہیں ہوگی۔ تاہم ملک میں بیش بہا معدنی دولت موجود ہونے کے یہ دعوے غیر حقیقی اور بے بنیاد نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان میں ان ذخائر کی موجودگی کو تسلیم کیا جارہا ہے ۔ حال ہی میں ممتاز امریکی جریدے فارن پالیسی نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے معدنی ذخائر برطانیہ سے دوگنا رقبے پر محیط ہیں اور اعلیٰ عالمی معیار کے ہیں۔ پاکستان کے معدنی ذخائر میں دنیا کے دوسرے بڑے نمک کے ذخائر، پانچویں بڑے تانبے اور سونے کے اور کوئلے کے وافر ذخائر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جپسم ،یاقوت، پکھراج، اور زمرد جیسے قیمتی پتھروں کے بڑے ذخائر بھی ملک میں موجود ہیں جو برآمداتی آمدنی کا زبردست ذریعہ بن سکتے ہیں۔ماضی کی حکومتیں دعووں کےباوجود ان ذخائرکے سلسلے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کرسکیں جس کااندازہ بلوچستان میں سینڈک اور ریکوڈک کی صورتحال سے لگایا جاسکتا ہے ۔ تاہم موجودہ دور میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت عالمی سطح پر اس ضمن میں عملی اقدامات کیلئے کوشاں نظر آتی ہے۔رواں سال اپریل کے مہینے میںدو روزہ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم کا انعقاد اس حوالے سے خاص طور پر قابل ذکر ہے جس میں امریکہ، چین، سعودی عرب، روس، فن لینڈ اور ترکیہ سمیت دیگر کئی ممالک شریک ہوئے۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر اپنے خطاب میں صراحت کی کہ ’’پاکستان میں کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر ہیں۔ یہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کیلئے فائدے کا سودا ہے کہ وہ پاکستان سے معدنیات نکالیں اور خام مال حاصل کریں۔ہم مل کر پاکستان کو دنیا کا عظیم ملک بنائینگے اور طے پانے والی مفاہمتی یاد داشتوں کو معاہدوں میں تبدیل کرینگے۔‘‘ وزیر اعظم کا یہ عزم اگرچہ بہت قابل قدر ہے لیکن معدنی ذخائر کے معاملے میں اب تک کئی عشروں کے دوران کارکردگی کی جو رفتار رہی ہے، اس کے پیش نظر نہیں کہا جاسکتا کہ یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ فی الوقت تو کیفیت یہ ہے کہ ملک میں کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر موجود ہونے کے باوجود مستند معلومات کے مطابق قومی معیشت میں معدنیات کاحصہ محض تین فی صد ہے۔ تاہم حال ہی میں ملک کی ایک اہم کاروباری شخصیت کی جانب سے ایسا حیرت انگیز اور دھماکہ خیز انکشاف سامنے آیا ہے جو اگر درست ہو تو معدنی دولت کے محض ایک ذریعے سے قومی معیشت کو قرضوں کے جنجال سے نکال کر مستحکم ترقی کی راہ پر ڈالا جاسکتا ہے۔ چند روز پہلے کراچی پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو میںچیئرمین ائیر کراچی اور معروف بزنس مین حنیف گوہر کے مطابق تربیلا ڈیم کی مٹی میں 636 ارب ڈالر مالیت کے سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ دعویٰ کسی سنی سنائی پر مبنی نہیں بلکہ باقاعدہ ان کے ادارے کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ حنیف گوہرنے تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ تربیلا ڈیم کی مٹی میں سونے کی موجودگی کی تصدیق کیلئے ہم نے غوطہ خوروں کے ذریعے سے ڈیم کے اندر مٹی کے نمونے حاصل کیے، ان نمونوں کا لیبارٹری میں تجزیہ کیا گیا ، اس میں سونے کی آمیزش کی شرح نکالی گئی، اس شرح کو سونے کی آمیزش والے علاقے کی کیوبک فٹ مٹی سے ضرب دیا گیا تو یہ نتیجہ سامنے آیا کہ یہاں 636 ارب ڈالر مالیت کا سونا موجود ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے وزیراعظم اور آرمی چیف کو آگاہ کیا کہ تربیلا ڈیم میں سونے کے ذخائر موجود ہیں اور ڈیم کی مٹی نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔ تربیلا ڈیم کو بنے ساٹھ برس ہوگئے اور ایک بار بھی اس کی مٹی نہیں نکالی گئی۔ حنیف گوہر کے بقول آرمی چیف نے یہ کام خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے سربراہ جنرل سرفراز کے سپرد کیا اور انہوں نے چیئرمین واپڈا کو معاملہ آگے بڑھانے کی ذمے داری دی۔ حنیف گوہر کا کہنا تھا کہ چیئرمین واپڈا یہ کام خود کرنا چاہیں تو کرلیں بصورت دیگر ہماری کمپنی موجود ہے ہم سرمایہ کاری بھی خود کریں گے اور سارا سونا نکال کر ملک کے حوالے کردیں گے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ڈریجنگ کا سب سے بہتر کام ہالینڈ میں ہوتا ہے اور وہ ہالینڈ میں اس سلسلے میں بات کرکے آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایمسٹرڈیم اور کینیڈا میں ہمارے پارٹنر موجود ہیںجن سے میٹنگ کرچکا ہوں، حکومت ہمیں اجازت دے تو ہم اس پروجیکٹ کو پورا کرنے کیلئے بالکل تیار ہیں، تربیلا کے یہ سونے کے ذخائر ملک کا سارا قرضہ اتار دیں گے۔
تربیلا کی مٹی میں 636 ارب ڈالر مالیت یعنی ملک پر واجب الادا مجموعی بیرونی قرضوں سے کہیں زیادہ کے سونے کے ذخائر اگر واقعی موجود ہیں اورملک کی ایک ممتاز کاروباری شخصیت نے ذاتی دلچسپی لے کر ان کو نکالنے کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی پوری تیاری کررکھی ہے تو بظاہر کوئی وجہ نہیں کہ انکی پیشکش کو حکومت قبول نہ کرے۔ ہمارے سرکاری نظام میں کرپشن اور سرخ فیتے کا چکر اور بیوروکریسی کی سست رفتاری کوئی راز نہیں جبکہ نجی شعبے کی کارکردگی میں یہ رکاوٹیں حائل نہیں ہوتیں اسلئے اگر یہ پیشکش قبول نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں تو یہ بات عین قومی مفاد میں ہوگی کہ یہ کام انکے سپرد کرکے حکومت کی جانب سے شفافیت کے مکمل اہتمام کیساتھ اسکی نگرانی کی جائے ، پوری قوم کو بھی اس کی پیش رفت سے باخبر رکھا جائے اور منصوبے کو کم سے کم ممکنہ مدت میں مکمل کرکے قومی معیشت کی پائیدار ترقی اور استحکام کی راہیں کشادہ کی جائیں۔