آپ کو لگے گا کہ بات پرانی ہے۔ مگر دراصل بات اتنی پرانی بھی نہیں ہے جتنی کہ لگتی ہے۔ یہ کوئی موہنجودڑو کے دور کی کہانی نہیں ہے۔ یہ آپ کے اور میرے دور کی کہانی ہے۔ ہوتا کچھ اس طرح ہے کہ جب کوئی کہانی نسل در نسل مروج ہونے لگتی ہے تب ایسی کہانی پرانی محسوس ہونے لگتی ہے اور پُرانی مانی جاتی ہے ایسی کہانیوں کا موازنہ قبل از مسیح کی کہانیوں سے کہا جاتا ہے۔ اس میں قصور نہ کہانی کا ہے، قصور نہ آپ کا ہے، اور نہ میرا ہے۔ یہ کہانی تقسیم ہند کے زمانے سے چل پڑی تھی اور آج تک انہماک سے سنی اورسنائی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہانی پاکستان کی عمر کے برابر ہے ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اس کہانی کی عمر پون صدی ہے ۔ پچیس برس بعد یہ کہانی ایک سو برس کی ہوجائے گی۔ ایک سو پچیس برس بعد یہ کہانی دوسو برس کی ہوجائےگی۔ گنتی کا حساب کبھی ختم نہیں ہوتا۔
پاکستان میں سیانوں کی کمی نہیں ہے۔ افلاطون قسم کے لوگ پاکستان پر چھائے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ ملک چلانے کیلئے ایک عدد آئین بناتے ہیں۔ بنائے ہوئے آئین کو توڑتے مروڑ تے ہیں اس میں ترمیمیں کرتے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پاکستانی افلاطونوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ قیامت تک نسل درنسل پاکستانی بچے وہی کام کریں گے جو کام ان کے آبائو اجداد روزِ اول سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ یعنی، پاکستان میں پیدا ہونیوالے بچے اپنے ماں باپ کے نقشِ قدم پرچلتے رہیں گے۔ وراثتی چال چلن میں وہ ٹس سے مس نہیں ہوںگے۔ آپ میری بات سمجھ رہے ہیںنا؟ آپ تیور مت چڑھائیں۔ آپ بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ میں نے کب کہا ہے کہ پولیس والے کا بیٹا پولیس والا بنے گا۔ چور کے بیٹے کے پاس افراط ِ زر اور دولت کے انبار دیکھ کر ایک ایماندار پولیس آفیسر کا بیٹا چور بننے کا فیصلہ کرسکتا ہے اور کامیاب چور اچکا بن کر دکھاتا ہے۔
سیانے اور افلاطون اپنے فیصلوں میں بڑی لچک رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آئے دن اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرتے رہتے ہیں۔ کسی کو بھی کسی نوعیت کی آئینی ڈھیل نہیں دیتے۔ بچے والدین کے نقشِ قدم پر چلتے رہیں گے،اکثریتی فیصلہ تھا۔ یہ فیصلہ ملک کے دبنگ زمینداروں، وڈیروں، سرداروں اور جاگیرداروں نےکیا تھا۔ اس طرح کا فیصلہ کرنے کا حق انکے پاس تھا۔ مت بھولئے کہ پاکستان بنیادی طور پر زمینداروں، سرداروں ، جاگیرداروں ، وڈیروں اورچوہدریوں نے بنایا تھا۔ اس لحاظ سے وہ سب ہمارے مائی باپ کہلوانے میں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً پون صدی سے سرداروں ، زمینداروں ، ڈویروں اور جاگیرداروں کے بیٹے والدین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سردار، زمیندار، جاگیردار، وڈیرے،چوہدری بنتے چلے آرہے ہیں۔ قانون سازی کرتے ہیں۔ اپنی جاگیروں کی طرح ملک چلاتے ہیں۔ دعوتیں کھانے اور کھلانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اس فیصلےکی بنیاد کہ بچے والدین کے نقشِ قدم پر چلتے رہیں گے، انہوں نے بڑی مضبوط بنیاد رکھی ہے۔ کسٹم آفیسر کا بیٹا چاہے ایم بی بی ایس کرکے ڈاکٹر بن جائے ، مگر موقع ملتے ہی وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسٹم آفیسر بن بیٹھتا ہے۔ آپ نے کبھی بھی کسی ڈاکٹر کو ڈاکٹری چھوڑ کر پرائمری ٹیچر بنتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا۔ مگر آپ کو ایسے انیک اشخاص ملیں گے جو ڈاکٹری چھوڑ چھاڑ کر ایس ایس پی یعنی پولیس کے اعلیٰ عہدوں پر لگے ہوئے نظر آئینگے ۔ کئی ڈاکٹر آپ کو فارن منسٹری میں اعلیٰ عہدوں پر لگے ہوئے دکھائی دینگے۔ وہ ایمبسیڈر بن جاتے ہیں۔ وہ ہائی کمشنر لگ جاتے ہیں۔ وہ اپنا اور اپنے والدین کا خواب پورا کرتے ہیں۔
آپ نے آج تک ایسا کوئی کلرک نہیں دیکھا ہوگا جس نے اپنے لاڈلے کے کلرک بننے کا خواب دیکھا ہو۔ آپ کی ملاقات کبھی کسی ایسے پرائمری ٹیچر سے نہیں ہوئی ہوگی جس نے اپنے بیٹے کو پرائمری ٹیچر بنانےکا خواب دیکھا ہو۔ پرائمری ٹیچر بننے کا خواب بڑا بھیانک ہوتا ہے۔ کوئی پرائمری ٹیچر ایسا بھیانک خواب دیکھنا نہیں چاہتا۔ ہم کاتب تقدیر کی بات نہیں کرتے۔ معاشرے پر مسلط افلاطونوں نے لکھ دیا ہے کہ پرائمری ٹیچر کا بیٹا پرائمری ٹیچر بنے گا ۔وہ کمشنر نہیں لگے گا۔ چپراسی کا بیٹا چپراسی بنے گا۔ رکشا چلانے والے کا بیٹا رکشا چلائے گا۔ بس ڈرائیور کا بیٹا بس چلائے گا۔ سیکریٹری صاحب کے اردلی کا بیٹا اردلی بنے گا۔ بیگم صاحبہ کی سرکاری خادمائیں اور انکی آنے والی نسلیں زندگی بھر خادمائیں رہیں گی۔
افلاطونی فیصلوں کے مطابق سیاستدانوں کے ولی عہد اور شہزادے صرف سیاست کریں گے۔ کبھی وزیر ، کبھی وزیراعلیٰ ، کبھی وزیر اعظم اور کبھی پریذیڈنٹ بنتے رہیں گے۔ سیاسی کھلواڑ میں وہ اسمبلی کے اسپیکر بھی بن جاتے ہیں فارن منسٹر بھی لگ جاتے ہیں۔ اور ملک کا بیرونِ ملک نام روشن کرتے ہیں۔
کوئی بھی سیاستدان اپنے بیٹے کو سپر اسٹار دیکھنے کی تمنا نہیں کرتا۔