’’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘ میں ابنِ انشا لکھتے ہیں کہ ”ہم نے بہت کوشش کی کہ ہمارے چین جانے کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو لیکن تدبیر کُند بندہ، تقدیر زَند خندہ۔ یہ بات نہیں کہ ہم چھپ چھپا کر بھیس بدل کر چین جا رہے تھے، یا مغربی دنیا سے اِس امر کو چھپانا مقصود تھا بلکہ محض دوستوں اور ہمسایوں سے تعلقات خوشگوار رکھنے کیلئے۔ تفصیل اِس اجمال کی یہ ہے کہ ہم جب ایران گئے تو ہماری جیب میں دوستوں، رشتہ داروں اور ہمسایوں ماں جایوں کی فرمائشوں کی ایک لمبی لِسٹ تھی...“ کچھ ایسا ہی حال ہمارا بھی ہے۔ ہمیں کسی نے شاپنگ لِسٹ تو نہیں تھمائی البتہ جس نے بھی سنا کہ ہم عمرہ کرنے جا رہے ہیں تو کہا دعاؤں میں یاد رکھنا۔ یہ بے حد مناسب بات تھی مگر اِکّا دُکّا کرم فرما ایسے بھی تھے جنہوں نے حکم دیا کہ خانہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی میرے لیے دعا کرنا، مِنجملہ: ” اللہ نے ایک بیٹا دیا ہے، دعا کرنا جوڑی بنا دے۔ آپ کی بھابی نے بوتیک کھولا ہے، دعا کریں لہریں بہریں (نہ جانے اِس کا کیا مطلب ہے) ہو جائیں۔ میرا باس بے حد خونخوار ہے، دعا کرنا اُس کا تبادلہ ہو جائے...“ اسی طرح کی بیسیوں دعائیں اور بھی تھیں جنہیں فرداً فرداً یاد رکھنا ممکن نہیں تھا لہٰذا میں نے مختصر لیکن جامع دعا کر دی کہ یا اللہ سب کی مشکلیں آسان کردے۔ آخری خبریں آنے تک خونخوار باس کا تبادلہ تو نہیں ہوا البتہ میرے دوست کی ٹرانسفر ہو گئی۔ شروع سے شروع کرتے ہیں۔ پہلا مرحلہ احرام باندھنے کا تھا، فلائٹ چونکہ ریاض سے جدہ کی تھی اِس لیے ریاض کے ہوٹل سے ہی احرام باندھنا لازم تھا، میں نے کافی کوشش کی کہ کسی لبرل قسم کے مولوی سے فتویٰ لے لوں کہ کیا یہ احرام مکہ مکرمہ میں جا کر باندھا جا سکتا ہے مگر ایسا شرعاً ممکن نہیں تھا کیونکہ احرام مکے کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے باندھنا لازم ہے، اور جہاز چونکہ مکہ معظمہ کی حدود سے گزرتا ہے اِس لیے میقات سے پہلے احرام میں ہونا ضروری تھا۔ احرام باندھے کی بہت سی ویڈیوز یوٹیوب پر موجود ہیں، اُن میں سے ایک مردِ عاقل نے ایسی خوبصورتی سے احرام باندھنا سکھایا کہ اُس کے بعد کھولنے کو دل ہی نہیں کیا ورنہ پہلے دھڑکا ہی لگا ہوا تھا کہ کہیں دھوتی کی طرح باندھ لیا تو کھل ہی نہ جائے۔ جہاز میں ایک مصری ہمارا ہمسفر تھا، اُس نے جوتے دیکھے تو کہنے لگا آپ نے جرابیں پہنی ہیں، میقات سے پہلے یہ بھی اتار دیں، احرام میں اجازت نہیں، احتیاطاً خود بھی چیک کیا تو پتا چلا کہ اِس بارے میں احادیث موجود ہیں، ہم نے سر جھکا کر تعمیل کی۔جدہ سے مکے کا فاصلہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا، جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا اسے حرم کی حدود میں ہی سمجھنا چاہیے کہ کمرے سے مسجد الحرام کا بیرونی حصہ اور اُس کے مینار نظر آتے تھے۔ چیک اِن کرتے ہی ہم نے اپنا سامان کمرے میں پھینکا اور لِفٹ سے نیچے آ گئے۔لِفٹ سے باہر نکلے تو سامنے لوگوں کا جمِ غفیر، ہمیں رَش کا اندازہ تو تھا مگر اتنا نہیں۔ ارد گرد نظر دوڑائی تو سب سے پہلے کے ایف سی اور میکڈونلڈز دکھائی دیے، اِس سے آگے رولیکس کی ’دکان‘ تھی، بغل میں عظیم الشان شاپنگ مال اور پھر قطار اندر قطار مختلف برینڈڈ اسٹورز! میں تو چکرا کر ہی رہ گیا، دل میں سوچا یااللہ تیرا گھر کدھر ہے۔ ایک بچہ لوگوں کی تصویریں بناتا پھر رہا تھا، اُس سے پوچھا، کہنے لگا کہ وہ سامنے گیٹ نمبر 79 ہے، وہاں سے مسجد الحرام میں داخل ہو جاؤ۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ مسجد الحرام میں داخلے کیلئے دروازے بنے ہیں جن پر نمبر لگے ہیں، 79 نمبر دروازے کا نام شاہ فہد گیٹ ہے۔ لوگوں سے پوچھتے ہوئے بالآخر ہم وہاں پہنچ ہی گئے جہاں سے ہمیں خانہ کعبہ کی جھلک دکھائی دی مگر اِس دوران عشا کا وقت ہو گیا تھا اور وہاں موجود محافظ، عورتوں کو اُس جگہ سے اندر داخل ہونے سے روک رہے تھے، جہاں ہم موجود تھے، انہوں نے بتایا کہ نماز کے بعد آپ لوگ اندر جا سکیں گے۔ اِس دوران عشا کی اذان ہوئی، ہم نے نماز ادا کی، امام کعبہ نے چار رکعتیں پچیس منٹ میں ختم کیں۔ بالآخر وہ گھڑی آ ہی گئی جس کا ہمیں مدتوں سے انتظار تھا۔ خانہ کعبہ ہمارے سامنے تھا اور ہمیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ہم اُس جگہ موجود ہیں جہاں آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ کے آخری نبیﷺ نے اپنے مبارک قدم رکھے تھے۔ میں نے کبھی زندگی میں نہیں سوچا تھا کہ مجھ ایسے گناہگار کے حصے میں بھی یہ سعادت آ سکتی ہے۔ ہم کچھ دیر ساکت کھڑے رہے۔ ہر رنگ، نسل اور قوم کے لوگ یہاں موجود تھے، عورتیں، مرد، بوڑھے، جوان۔ لوگوں نے چھوٹے چھوٹے بچے گود میں اٹھائے ہوئے تھے اور اُنکی کوشش تھی کہ کسی طرح خانہ کعبہ کے پردے کو ہاتھ لگا سکیں۔ کوئی بیساکھیوں کی مدد سے طواف کر رہا تھا تو کسی نے اپنی بوڑھی ماں کو سہارا دیا ہوا تھا۔ لوگ خانہ کعبہ کو دیکھتے تھے اور دعائیں کرتے جاتے تھے۔ ہم نے بھی طواف شروع کیا مگر رَش اِس قدر تھا کہ مشکل سے ایک چکر ہی لگا سکے۔ میں نے بیگم صاحبہ کو کہا کہ ابھی واپس چلتے ہیں، رات کے پچھلے پہر دوبارہ آئیں گے، اُن کی مہربانی کہ وہ مان گئیں۔ کمرے میں پہنچے تو رات کے دس بج چکے تھے، مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں کب سویا مگر یہ یاد ہے کہ پورے دو بجے اٹھ کھڑا ہوا، اڑھائی بجے ہم پھر مسجد الحرام میں تھے۔ اِس مرتبہ قدرے آسانی کے ساتھ کعبے تک پہنچ گئے اور اللہ کا نام لے کر طواف شروع کیا، رات کے اِس پہر بھی بے حد رَش تھا مگر عشا کے وقت سے کم۔ ہم طواف کرتے ہوئے کعبے کے قریب پہنچ گئے مگر بہت کوشش کے باوجود اسے چھُو نہ سکے، تاہم طواف آسانی سے ہو گیا۔ اگلا مرحلہ صفا مروا کی سعی کا تھا۔
حرم میں داخل ہوتے وقت ہماری نظر ایک کاؤنٹر پر پڑی تھی، لکھا تھا، گالف کارٹ دستیاب ہے، اُس وقت تو ہم نے غور نہیں کیا، اب دیکھا تو پتا چلا کہ صرف طواف ہی نہیں بلکہ سعی کرنے کیلئے بھی گاڑی دستیاب ہے، بالکل اسی طرح جیسے گالف کے میدان میں ہوتی ہے۔ دو بندوں کی ٹکٹ دو سوریال تھی، ایک ایپ کے ذریعے وہ ٹکٹ خریدی اور برقی سیڑھیوں کی مدد سے حرم پاک کی تین منزلیں چڑھ کر اوپر گئے۔ وہاں ایک کے بعد ایک گاڑی آ رہی تھی اور لوگ اُس میں سوار ہو کر سعی کیلئے جا رہے تھے، ہم بھی بیٹھ گئے۔ تقریباً پندرہ منٹ میں سعی مکمل ہو گئی۔ ہم نے تھوڑی دیر وہیں آرام کیا، اتنے میں فجر کی اذان ہو گئی۔ میں نماز کیلئے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا، نہ جانے اُس لمحے کیوں ایسا لگا جیسے مجھ گناہگار کا عمرہ قبول ہو گیا ہے۔ باقی روداد اگلے کالم میں۔