ترکیہ اور قطر کے بعد ایران بھی اس خواہش کا برملا اظہار کر رہا ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے مابین کشیدگی کو ماضی بنانے کی غرض سے کردار ادا کیا جائے ۔ اس میںکسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ پاکستان امن قائم ہونے سے اپنے ملک کی خوشحالی اور شہریوں کی سلامتی کے مقصد کو حاصل کر سکتا ہے مگر جیسا کہ دنیا جانتی ہے کہ تالی صرف ایک ہاتھ سے نہیں بج سکتی، اسی طرح خطے میں امن بھی صرف پاکستان کی یکطرفہ خواہش سے حاصل نہیں ہو سکتا اور دو طرفہ خواہش افغان طالبان کی جانب سے کیوں نہیں، اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ گزشتہ ہفتے جب ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر قالیباف پاکستان تشریف لائے تو ایرانی سفیر نے مجھے ان سے اسلام آباد آ کر ملاقات کرنے کی دعوت دی مگر بد قسمتی سے میرے بیٹے موسیٰ کا بازو ای ایم ای کلب کی جانب سے فٹ بال کھیلتے ہوئے ٹوٹ گیا اور میں ایرانی اسپیکر سے ملاقات کیلئے نہ جا پایا ، انڈونیشیا کے قومی دن کی تقریب میں بھی شرکت نہ کر سکا ۔البتہ لاہور میں جرمن سفیر کی جانب سے منعقدہ پروگرام میں شریک ہوا۔جرمن سفیر محترمہ اینا لیپل سے گزشتہ بیس برس سے شناسائی ہے اور برلن میں انکے گھر مہمان بھی رہا ہوں ۔مقدم الذکرمقامات پر غیر حاضری کا قلق رہا ، میرا ارادہ تھا کہ ایرانی اسپیکر سے پاک افغان طالبان کے مذاکرات پر انکے خیالات جانوں گا ۔پاکستان نے حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں جو کردار ادا کیا ہے اس نے ایران کی حکومت اور مقتدرہ پر اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کی انکو ضرورت ہے اور پاکستان کسی موقع پرستی کو سامنے رکھتے ہوئے آنکھیں نہیں پھیرتا ہے بلکہ اسکے سامنے طویل تاریخی اور اسٹرٹیجک حقیقتیں تھیں اور پاکستان نے اسی لیےایران کی مدد کی ۔ سوال یہ ہے کہ ایران پاکستان کی افغان طالبان سے ثالثی کی پیشکش کن امور کو سامنے رکھتے ہوئے کر رہا ہے ۔ حالانکہ ترکیہ اور قطر اس حوالے سے پہلے ہی بہت متحرک ہیں اور اب تو ترکیہ کا اعلیٰ سطحی وفد بھی پاکستان آ رہا ہے ۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ افغانستان میں اپنا کردار بڑھانے کیلئے ترکیہ طویل عرصے سے متحرک ہے ۔ امریکہ کے ہمراہ اسکی مختصر فوج بھی افغانستان میں تھی جسکی بھرپور کوشش رہی کہ افغان طالبان سے براہ راست مدبھیڑ نہ ہو اور وہ افغانستان میں اپنے کردار کے حوالے سے اتنا سنجیدہ تھا کہ جب امریکہ نے افغان طالبان سے دوحہ معاہدہ کیا تو اسکے بعد ترکیہ اس کوشش میں تھا کہ کابل ایئر پورٹ کی سیکورٹی مستقل طور پر اسکے حوالے کردی جائے ۔ اس حوالے سے صدر جو بائیڈن اور صدر اردوان کی ملاقات بھی ہوئی تھی جس کے بارےامریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا تھاکہ دونوںرہنمائوں کی ملاقات کے دوران اس بات پر اتفاق ہوا کہ کابل ایئر پورٹ کو محفوظ بنانے کا اہم کام ترکیہ کے حوالے ہو گا مگر افغان طالبان اس پر متفق نہ ہو سکے چنانچہ ایسا نہ ہو سکا ۔ اُن دنوں انقرہ میں قائم فارن افیئرز انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ حسین باچی نے دو بہت کام کی باتیں کی تھیں اول تو یہ کہ انقرہ اپنی حیثیت کا اندازہ لگانے میں خوش فہمی کا شکار ہے ، دوئم یہ کہ طالبان اقتدار کے قریب آنے کیوجہ سے اب ان کیلئے پاکستان اور قطر کی اہمیت ختم ہو جائیگی، اور یہ سب سچ ثابت ہوا ۔ ایران کے حوالے سے یہ امر دلچسپی کا حامل ہے کہ افغان طالبان اور ایران کی معاشی قربتیں بڑھتی دیکھی گئی ہیں ۔ ایران میں طالبان کے سفیر ملا فضل حقانی نے چاہ بہار فری ٹریڈ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر سعید اربابی سے ملاقات کی ، اس ملاقات میں افغان طالبان کے چاہ بہار میں دفتر کھولنے پر اتفاق ہوا ، سب سے اہم یہ کہ ایران افغانستان مشترکہ بینک کے قیام پر اتفاق کیا گیااور اس بینک کے قیام کے حوالے سے انڈیا کے اعلیٰ کاروباری طبقہ میں بہت خوشی دیکھنے میں آئی ، بھلا کیوں ؟ وہ اسلئے کہ انڈیاکے ان کارو باری حضرات کا ارادہ ہے اور اس سبب سے ہی وہ افغان طالبان کو بہت ہلہ شیری بھی دے رہے ہیں کہ افغان طالبان ایران سے سستا پیٹرول خریدیں اور آگے فروخت کردیں ، افغان طالبان اپنا کمیشن رکھیںجبکہ انڈین زبر دست منافع حاصل کریں۔
ممکن ہے کہ کوئی اس پر کسی پابندیوں وغیرہ کا ذکر کرے تو جہاں چاہ وہاں راہ کے مصداق اس کیلئے راستے تلاش کئے جا رہے ہیں اور جب تک کوئی پابندیاں مؤثر ہونگی اس وقت تک انڈین سرمایہ کار اربوں ڈالرز کما چکے ہونگے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورتحال میں ایران پاکستان اور افغان طالبان کے مابین کوئی مثبت کردار ادا کر سکتا ہے تو اس کا جواب مثبت ہی آئیگا کیونکہ ایران اپنے امور کو بھی معاشی تعلقات کے ذریعے درست کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، جیسا کہ ایرانی سپیکر نے پاکستان کے حوالے سےکہا ہے کہ اگر سرحدی مارکیٹس کو ترقی دی جائے اور پاکستان کے ساتھ تجارت کو فروغ ملے تو دونوں ممالک کے درمیان غیر محفوظ صورتحال اور سرحدی چیلنجز کا ایک بڑا حصہ یقینی طور پر حل ہو جائیگا، کیونکہ جب سرحدیں قانونی اور بڑے پیمانے پر اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بن جائیں گی تو اسمگلنگ اور غیر محفوظ صورتحال کم ہو جائیگی۔ یہی دباؤ ایران طالبان پر بھی ڈال سکتا ہے کہ ایران کے مفاد میں یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی سے محفوظ رہے تا کہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو اور اقتصادی سرگرمیاں زور پکڑیں ، چاہ بہار ، مشترکہ بینک تب ہی سود مند ہو سکتے ہیں جب ہر طرف امن ہو ، افغان طالبان اس وقت تیل سے دولت کمانے کے خواب دیکھ رہے ہیں اسلئے ایران کا دباؤ کارگر ہو بھی سکتا ہے ۔ پاکستان کو ترکیہ اور قطر کے ساتھ ساتھ اس آپشن پر بھی بہت احتیاط سے غور کرنا چاہئے ، کیوں کہ امید پر دنیا قائم ہے۔