کینیا کے جنگل میں کا گوا نامی ایک شکاری شیر کے شکار کیلئے گیا جب وہ جنگل میں پہنچا تووہاں اسے ایک انسانی کھوپڑی پڑی نظر آئی وہ اس کھوپڑی کو ٹھوکر مار کر کہنے لگا کہ تم اس ویرانے میں کیسے پہنچی کھوپڑی گویا ہوئی میرا زیادہ بولنا مجھے یہاں لے آیا۔ کھوپڑی سے آتی ہوئی آواز نے کاگوا کو حیرت زدہ کردیا اور وہ وہاں سے بھاگتا ہوا بادشاہ کے دربار میں پہنچا۔ وہ بادشاہ سے کہنے لگا عالی جاہ میں نے جنگل میں بولتی ہوئی ایک کھوپڑی دیکھی ہے، بادشاہ نے حیرانی سے کہا میری سلطنت میں کبھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا، اس نے اپنے دو درباری محافظ کاگوا کے ساتھ جنگل میں بھیجے اور انہیں تاکید کی کہ اگر کاگوا کی بات درست نکلی تو اسے واپس محل لے آنا ہم اسے انعامات سے نوازیں گے اور اگر یہ جھوٹا ثابت ہوا تو وہیں اس کا سر قلم کر دیا جائے، درباری محافظ کاگوا کے ساتھ جنگل میں پہنچے اور کھوپڑی کے پاس جاکر کاگوا سے کہنے لگے کہ وہ کھوپڑی سے بات کرے۔ کاگوا نے کھوپڑی سے سوال کیا کہ تم جنگل میں کیسے پہنچی، کھوپڑی خاموش رہی کاگوا چلایا مگر کھوپڑی خاموش تھی، محافظوں نے کاگوا کا سر قلم کردیا اور چل دیئے۔ اب کھوپڑی کاگوا کے کٹے ہوئے سر سے مخاطب ہوکر بولی تم یہاں کیسے پہنچے کاگوا کے کٹے ہوئے سر سے آواز آئی میرا زیادہ بولنا مجھے یہاں لے آیا۔ وہ خاموش ہے مگر بند ہونٹوں کی صدائیں آرہی ہیں، وہ بولنا چاہتا ہے مگر موسم سازگار نہیں، وہ زیر زمین بہتا دریا ہے اور سمندروں سے بھی گہرا بقول سلطان باہو۔
دل دریا سمندروں ڈونگھے
کون دلاں دِیاں جانے ہو
وہ اپنا راز کسی کو نہیں دیتا، وہ راز اس کے سینے میں کھٹک رہے ہیں اپنے اظہار کیلئے بے تاب مگر وہ بہر صورت راز رہیں گے، راز افشا ہو جائے تو راز نہیں رہتا ۔ماضی میں وہ دل کی بات کہہ بیٹھا مگر رت سازگار نہ تھی اسے بولنا سوٹ نہ کیا وہ پہلی بار 1993ء میں بولا تو صدر غلا م اسحاق خان اوراسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تنازعات شدت اختیار کر گئے ۔بولنے نے سیاسی قربان گاہوں میں اس کی سیاسی بلی چڑھا دی ۔وہ حالات کے بحر کی موجوں سے الجھتا رہا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی سیاسی ناؤ بھنورمیں ہے ہر عہد میں سول برتری کے جنون نے اسے سیاسی اوج ثریا سے زمین پر دے مارا۔دریں اثناء1998میں ایٹمی دھماکے کر کے وہ قوم کا ہیرو ٹھہرا اور پاکستانی عوام نے اسے پلکوں پربٹھا لیا یہی وہ لمحات تھے جب اسے مستقبل کیلئے سیاسی کیرئیر کی مضبوط منصوبہ سازی کرنی تھی، عوامی برتری کا خمارتھا یا اس کی اناآڑے آئی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایٹمی دھماکے کرکے وہ شدت سے پاکستان اور اسلام دشمن کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے اس نے اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کی راہ اپنا لی اور 12اکتوبر 1999کی شام کو اسکے خاندان کے ہمراہ جمہوری گلشن کی آبیاری کی خاطراس کا سیاسی بلیدان ہوگیا ، اسے بے آبرو کر کے وطن عزیزسے نکال دیا گیا مگر اس مٹی کے خمیر سے گندھا ہوا اس کا قلب ووجود ہر لحظہ زخم خوردہ پاکستان کے ساتھ جڑارہا وہ گمنامی اور جلا وطنی کی اندھیری را ہداریوں میں دھیمی چال چلتا رہا اور نشان منزل کھوجتا رہا۔ وہ مقدر کا سکندر ہے گھٹا ٹوپ راہدار یوں میں اسے سراغ منزل مل گیا وہ 2013میں پاکستان کا طاقتور ترین وزیر اعظم بن کر ابھرا اور اس نے اپنے سیاسی کیرئیر کی تیسری بڑی اننگزکا آغاز کیا مگر اس بار انداز اس قدر جارحانہ تھا کہ چند مہینوں ہی میں پاکستانی معیشت ہندوستان اور بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کو مات دے گئی ۔عالمی اداروں کا کہنا تھا اگر تعمیر وترقی کا یہ سفر جاری رہا تو پاکستان 2050تک دنیاکی اٹھارہویں بڑی معیشت بن جائیگا۔ 2016میں اس نے آئی ایم ایف کو بھی الوداع کہہ دیا ۔اسی اثناء میں ایکسٹینشن کی ضرب نے اسلام آباد کے سیاسی قلعوں کی اساس ہلا ڈالی۔ سیاسی افق پر ایسا منہ زور طوفان اٹھا کہ منظر نامہ ہی تبدیل ہوگیا غیر ملکی جریدے گارڈین نے 6نومبر1916کو ایک رپورٹ شائع کی کہ اہم مبصرین کا کہنا ہےایک منصوبے پر کام شروع کردیاگیا ہے جسکے تحت وزیر اعظم نوازشریف کو وسط 2017تک اپنے عہدے سے برطرف کردیا جائیگا اور عدالت عالیہ یہ کارہائے نمایاں سر انجام دے گی ،نواز شریف کو کرپشن کا مرتکب قرار دے کر پانامہ پیپرز کی آڑ لی جائے گی اس رپورٹ کی اشاعت کے 234دن بعد اٹھائیس جولائی 2017کو سپریم کورٹ نے پانامہ کے بہانے نواز شریف کو نہ صرف برطرف کیا بلکہ تاحیات نااہلی کی زنجیروں میں جکڑ دیا، اس بار اگر وہ تحمل سے کام لیتا تو یقیناً وہ پاکستان کا طیب اردوان ہوتا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ وہ وطن بدر رہا یا سیاست سے کنارہ کش بہرصورت وہ مقدر کا سکندر ٹھہرا جس قدر ذلت ورسوائی کے گہرے داغ اور بے آبرو کر کے اسے کوچہ جاناں سے نکالا گیا اس سے کہیں بڑھ کر شان سے وہ واپس لوٹا ،ماضی کی طرح وہ بولا مگر خاموش کر وادیا گیا ،زبان گنگ ہو گئی ،اس کے اندر انتقام کی آگ تھی، دکھ بھری وہ داستان تھی جو اس نے سنائی ہی نہیں جتنے دکھ اس نے دکھا دیے اس سے کہیں بڑھ کر چھپارکھے ہیں ۔اس پر گہری خاموشی ہے اس کی طویل خاموشی اور وقفے کا دورانیہ کب تک چلے گا یہ تو وہی جانتا ہے وہ سیاسی حالات کا مسلسل جائزہ لے رہا ہےوہ تب ہی بولے گا جب اسے سوٹ کرے گا یا پھر دختر پنجاب مریم نواز کی وزارت عظمیٰ کیلئے اسلام آباد کی راہیں ہموار کرنے کی خاطر اسے اپنے بیانیے پر خاموشی کی گہری چھاپ لگانی پڑے گی۔