کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی تاکہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا حالانکہ وہ ان سے کہیں زیادہ طاقتور اور زمین میں نشانات بنانے کے اعتبار سے بہت بڑھ کر تھے تو جو کچھ وہ کرتے تھے وہ ان کے کچھ کام نہ آیا۔ (مضامین قران حکیم۔ مرتبہ زاہد ملک ۔صفحہ 627 سورۃ المومن آیت 82)
تاریخ برہم ہے ۔جغرافیہ دانتوں میں زبان دبائے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسائے ہوئے ہے۔ہم شروع سے یہ تجزیے کرتے آئے ہیں کہ قائد اعظم صرف ایک سال زندہ رہے۔ اس لیے پاکستان مستحکم نہیں ہو سکا۔ بہت سی مشکلات سر اُٹھاتی رہیں۔ ان کے دست راست قائد ملت لیاقت علی خان بھی تین سال بعد قتل کر دیے گئے ۔اس لیے حالات بہتر نہ ہو سکے۔ ہم شخصیات پر اعتبار کرتے ہیں۔ فراموش کر دیتے ہیں کہ شخصیات تو سب فانی ہیں، آنی جانی ہیں۔ہر ایک کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کوئی بھی آخری امید نہیں ہو سکتی ۔نہ جانے کتنی آخری امیدیں منوں مٹی تلے دبی ابدی نیند سو رہی ہیں ۔پھر بھی یہ عظیم مملکت چل رہی ہے ۔
پاکستان اوراس کے رہنے والے کتنے سخت جان ہیں۔ کیسے کیسے بھیانک تجربات ان پر ہوئے ہیں۔ جن کی گواہی کہیں شاہی قلعہ، کہیں اٹک ،کہیں مچھ جیل ،کہیں منٹگمری ،کہیں کوٹ لکھپت ،کہیں اڈیالہ جیل دے رہی ہے۔ پھانسی کے تختوں سے پوچھ لیں کال کوٹھڑیوں میں جھانک لیں۔ہم یہ کیوں سوچتے ہیں کہ ہماری بات صرف اسی وقت سنی جاتی ہے جب ہم کسی اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہوتے ہیں ۔یہ خدشہ کیوں ہوتا ہے جب ہم عہدے پر نہیں ہوں گے تو ہماری بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی ۔ اس پر عمل نہیں ہوگا ۔ہم ایسے کام کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ جن پر مواخذہ ہو سکتا ہے۔ مقدمے قائم ہو سکتے ہیں۔ سزائیں مل سکتی ہیں۔ ہم استثناء میں ہی اپنی بقا کیوں سمجھتے ہیں۔ ہمارے پاس آخری آسمانی کتاب قران کریم موجود ہے ۔جس میں ہر لمحے کی رہنمائی ہے ۔ہم احادیث کے امین ہیں ۔اور سب سے بڑھ کر پیغمبر آخر الزماںﷺکا اسوہ حسنہ ہمارے پاس امانت ہے۔ پھر دنیا کی تاریخ ہے مسلمانوں کے مختلف ادوار کی مستند روایات ہیں۔ ہم ان سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔
ہر صاحب اقتدار یہ کیوں سمجھتا ہے کہ اسے اگر مسلسل 20 سال مل جائیں تو وہ پاکستان کو ایک ناقابل تسخیر ریاست بنا سکتا ہے۔ وہ اپنے افکار ایک دستاویزی شکل میں کیوں نہیں دے سکتا۔ کیونکہ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں۔ اپنی 78 سالہ تاریخ کے بحرانوں ،قیامتوں اور شورشوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہر مقتدر خود کو ہی مسیحا قرار دیتا دکھائی دیتا ہے۔ اپنے ارد گرد بے شمار درباری جمع کر لیتا ہے ۔جو اس کے لیے کالم لکھتے ہیں۔ وی لاگ کرتے ہیں ۔ٹاک شوز میں اس کی فضیلتیں گنواتے ہیں ۔پوری تاریخ سے گزر جائیں۔ اخبارات دیکھ لیں ایک ایک صفحے کے اشتہارات، قدآدم تصاویر شائع کی جاتی رہیں ۔کسی دور میں کسی شخصیت نے اپنے آپ کو منہا کر کے مملکت کو اہمیت نہیں دی ۔ہر شخص کو فنا ہے۔ بقا صرف ریاست کو ہے۔ آئین اس لیے متفقہ طور پر منظور کیے جاتے ہیں کہ ماہ و سال آئیں گے۔ دہائیاں گزریں گی ۔صدیاں اپنی جولانیاں دکھا کر چلی جائیں گی ۔نسلیں آئیں گی جائیں گی۔ آئین کے تحت ایک نظام ہوگا جو کروڑوں جانوں کو تحفظ دے گا۔ جب کسی مملکت میں سب سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر کوئی آئین منظور کر لیتی ہیں تو آنے والی نسلوں کو اس پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اگر آئین میں کوئی خلا نظر آتا ہے تو اس پر حکمران پارٹی پہلے اپنے ارکان اسمبلی کارکنوں سے مشاورت کرتی ہے ۔پھر اپوزیشن سے پارلیمنٹ میں ہفتوں بحث ہوتی ہے ملک کے مفاد میں ایک ایک شق کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ جب ایک اتفاق رائے حاصل ہو جاتا ہے پھر آئینی ترامیم پیش کی جاتی ہیں ۔آئین 1956 ہمارے سامنے ہے اس کے تحت جب انتخابات کا وقت آیا تو پہلا مارشل لا مشرقی اور مغربی پاکستان میں نافذ کر دیا گیا ۔ آئین کو منسوخ کر دیا گیا۔ پھر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے 1962 کا آئین تشکیل دیا ۔جس کا محور و مرکز صدر ہی صدر تھا۔ 1969سے 1972 تک پاکستان ایک Legal Framework Order کے تحت چلتا رہا۔ کوئی آئین نہیں تھا۔ پاکستان کی 78 سالہ زندگی میں قومی سیاسی جماعتوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جبکہ مقتدرہ نے ہر بحران سے بہت کچھ سیکھا اور اپنی اصلاح کی۔ 1958 کے مارشل لا کا طریقہ مختلف تھا 1969 کا اس سے الگ پھر 1977 کےمارشل لا کے انداز بھی مختلف تھے۔ 1999 کی فوجی حکومت نے اپنے آپ کو مارشل لا نہیں کہا۔ ہر مارشل لا کو عوام کی مزاحمت اور بین الاقوامی دنیا کے دباؤپر رخصت ہونا پڑا ۔مگر جاتے جاتے حفظ ما تقدم کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ آٹھویں ترمیم میں جنرل ضیا کے مارشل لا کو تحفظ دیا گیا ۔ہم قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے لیتے ہیں اسی طرح آئین میں گزشتہ ترامیم کو ختم کرنے کیلئے بھی نئی ترامیم لاتے ہیں۔ آٹھویں آئینی ترمیم کو جب میاں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت ملی تو ایک نئی ترمیم کے ذریعے ختم کیا گیا ۔پھر ان ترامیم کے اثرات کے خاتمے کے لیے جنرل مشرف نئی ترامیم لائے ۔ پھر اٹھارویں ترمیم آئی۔ دعویٰ کیا گیا کہ 1973 کا آئین اصل حالت میں بحال کر دیا گیا ہے۔ اس ترمیم کے اختیارات کے خاتمے کے لیے 19 سے 27ویںترمیم تک کے مراحل کیسے کیسے انداز سے طے کیے گئے یہ تاریخ کا حصہ ہے ۔
1973 کا آئین اس لحاظ سے تو خوش قسمت ہے کہ اسے 1956 اور1962کے دساتیرکی طرح بالکل منسوخ نہیں کیا گیا البتہ کئی بار سرد خانے میں رکھا جا چکا ہے۔ آئین ہوتا ہے مگر اس پر عمل ضروری نہیں ہوتا۔ استثنیٰ مل جاتا ہے اور پھر سپریم کورٹ ہی اس میں مدد کرتی ہے۔ شریف الدین پیرزادہ ایوب، یحییٰ، ضیاء ' ،مشرف سب کو قانونی مدد کے لیے دستیاب رہے۔ انہیں آئینی جادوگر کہا جاتا تھا۔ اب بھی ایسا کوئی سامری در پردہ موجود ہے اسے ہم سلیوٹ کرتے ہیں۔ہر دور میں ہر مقتدر کو یہ خوف ہوتا تھا کہ بعد میں ان کو عدالتوں میں نہ طلب کیا جائے اس لیے آئین میں ترامیم کر کے استثنیٰ حاصل کر لیا جاتا تھا۔27ویں کے بعد 28 ویںترمیم بھی آ سکتی ہے مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ اس کے بعد غربت کی لکیر کے نیچے سے نکل کر اوپر کتنے لوگ آئے ہیں۔ پاکستان کی فی کس آمدنی میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔بے روزگاری کتنے فیصد کم ہوئی ہے؟ برامدات کتنی بڑھی ہیں؟ تعلیم صحت کے اشاریے کتنے بہتر ہوئے ہیں ؟اگر ایسا نہیں ہوتا تو سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارہ۔