• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹر عرفان صدیقی سے پہلی ملاقات ہیلی کا پیڑ میں ہوئی تھی۔ یہ 1997 ء کی بات ہے ۔ سیاچن کا محاذ کافی گرم تھا۔ اس محاذ کو دیکھنے کیلئے میں ہوائی جہاز سے اسکردو پہنچا تو وہاں سے فوجی ہیلی کاپٹر میں ایک برفانی چوٹی پر جانا تھا ۔ ہیلی کاپٹر میں میرے علاوہ ایسوسی ایٹڈ پریس کی کیتھی گینن اور عرفان صدیقی بھی موجود تھے ۔ اُن دنوں عرفان صدیقی کراچی کے ہفت روزہ تکبیر سے وابستہ تھے ۔ واپسی پر اسکردو سے اسلام آباد کیلئے پی آئی اے کی پرواز منسوخ ہو گئی ۔ ہم نے سڑک کے راستے واپسی کا فیصلہ کیا اور یوں اس طویل سفر میں عرفان صدیقی صاحب سے باقاعدہ تعارف ہوا ۔ وہ سرسید کالج راولپنڈی میں اُردو پڑھاتے رہے تھے اور اب درس و تدریس سے صحافت کی طرف آگئے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ صدر پاکستان رفیق تارڑ کے پریس سیکرٹری مقرر ہو گئے ۔ ایک دن صدر مملکت نے ملاقات کیلئے بلایا تو وہاں عرفان صدیقی صاحب بھی مل گئے ۔ ملاقات کے بعد وہ مجھے اپنے دفتر میں لے گئے ۔ اُن کے دفتر کی دیوار پر علامہ اقبال کی ایک مشہور رباعی آویزاں تھی ۔ میں نے اس رباعی کو بلند آواز میں پڑھنا شروع کر دیا

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر

روزِ محشر عذر ہائے من پذیر

ور حسابم را تو بینی ناگزیر

از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر

ترجمہ (اے رب ذوالجلال ! تیری ذات اقدس دونوں جہانوں سے غنی ہے اور میں ایک فقیرِ خستہ جاں ہوں ۔ حشر کے دن میری گزارشات کو پذیرائی بخشتے ہوئے میری معافی قبول فرما لینا اور اگر میرے نامہ اعمال کو دیکھنا لازم ہی ٹھہرے تو مجھ پر اتنا کرم کرناکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نگاہ سے مجھے چھپائے رکھنا ) اس فارسی رباعی میں میری دلچسپی دیکھ کر عرفان صدیقی صاحب نے پوچھا کہ کیا آپکو فارسی سے بھی شغف ہے ؟ میں نے بتایا کہ یہ رباعی میرے والد وارث میر صاحب کو بھی بڑی پسند تھی اور انہوں نے اسے اپنے ڈرائنگ روم کی دیوار پر سجا رکھا تھا ۔ چند دن بعد عرفان صدیقی صاحب نے اس رباعی کو فریم کروا کر مجھے بطور تحفہ عنائت کیا اور یوں پہ رباعی میرے گھر کی ایک دیوار کی زنیت بن گئی ۔ اکتوبر 1999 ء میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے نکال کر حکومت پر قبضہ کر لیا ۔ کچھ عرصے کے بعد رفیق تارڑ صاحب کو بھی صدر مملکت کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا ۔ عرفان صدیقی صاحب نے کالم نگاری شروع کر دی ۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے اے آر ڈی بنالی تھی۔ وہ اسلام آباد آتے تو اُنکے ہاں عرفان صدیقی سے بھی ملاقات ہو جاتی ۔ ہم اُن سے پوچھا کرتے کہ نوابزادہ صاحب آپ نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ایک اپوزیشن اتحاد میں اکٹھا کر دیا ہے اگر یہ دونوں جماعتیں کسی حکومت میں بھی اکٹھی ہو گئیں تو پھر اپوزیشن کون کرے گا؟ نوابزادہ صاحب حقے کا کش لگا کر مسکراتے ہوئے فرماتے’’ میں مرگیا ہوں کیا ؟‘‘2003میں نوابزادہ صاحب دنیا سے رخصت ہو گئے تو عرفان صدیقی صاحب نے کالم لکھا ’’میں مرگیا ہوں کیا؟‘‘ وقت گزرنے کے ساتھ عرفان صدیقی پہلے تو میاں نواز شریف کی تقریریں لکھنے لگے اور پھر وہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر بن گئے۔ 2012میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست کے ذریعے میں نے میڈیا کے احتساب اور میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق بنانے کا مطالبہ کیا ۔ اس درخواست کی کئی سال تک سماعت ہوئی ۔ 2015 ء میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے حکومت کو حکم دیا کہ میڈیا کی نمائندہ تنظیموں کے ساتھ بیٹھ کر ایک ضابطہ اخلاق تشکیل دیں اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے ذریعے اسے نافذ کریں۔ حکومت نے ایک کمیٹی بنادی جسکے سربراہ عرفان صدیقی تھے اور ضابطہ اخلاق کی تیاری شروع ہو گئی ۔ ضابطہ اخلاق کے ڈرافٹ پر کبھی حمید ہارون اور کبھی میں اعتراض کر دیتا لیکن آخر کار ایک ڈرافٹ پر اتفاق ہو گیا اور سپریم کورٹ نے ایک آرڈر کے ذریعے اسے نافذ کر دیا اور یہ آج پیمرا کا ضابطہ اخلاق ہے جسکی تشکیل میں عرفان صدیقی صاحب نے اہم کردار ادا کیا ۔ کچھ عرصہ بعد سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نا اہل کر دیا ۔ 2018 ء میں عمران خان وزیر اعظم بن گئے ۔ مجھے آج بھی وہ رات یاد ہے جب ڈاکٹر جمال ناصر نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ عرفان صدیقی کو اُن کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ میں نے فوری طور پر اس گرفتاری کے خلاف ٹویٹ کر دی ۔ کچھ دیر بعد مجھے اُسوقت کے وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی نعیم الحق کا فون آیا اور انہوں نے گرفتاری کی تفصیلات پوچھیں ۔ انہوں نےدعویٰ کیا کہ وزیر اعظم کو اس معاملے کی کوئی خبر نہیں ۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ بھی عرفان صدیقی کی گرفتاری سے بے خبر تھے ۔ عرفان صدیقی جمعہ کی شب گرفتار ہوئے ۔ ہفتہ کی صبح انہیں ایک عدالت میں پیش کیا گیا اور پولیس نے 14 دن کا ریمانڈ لیکر انہیں اڈیالہ جیل بھیج دیا ۔ اب میں نے نعیم الحق سے کہا کہ آپ تو اس گرفتاری سے لا تعلقی ظاہر کر رہے تھے اب تو آپ کی پولس نے 14 دن کا ریمانڈ لیکر عرفان صدیقی کوجیل بھجوا دیا ہے یہ سب کس کے حکم سے ہو رہا ہے ؟ نعیم الحق اپنے موقف پر قائم تھے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عرفان صدیقی کی گرفتاری سے خوش نہیں اور یہ گرفتاری ہمارے لئے بہت بڑا ٹیسٹ کیس بن گئی ہے ہم عرفان صدیقی کو کل تک جیل سے نکال لیں گے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ کل تو اتوار ہے ۔ نعیم الحق خاموش رہے اور پھر اگلے دن اتوار کو عرفان صدیقی کی ضمانت بھی ہوئی اور انہیں اتوار کے دن اڈیالہ جیل سے رہائی بھی ملی ۔ عرفان صدیقی کی گرفتاری پر میڈیا کا رد عمل غیر معمولی تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ جب موجودہ حکومت نے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 ء منظور کرانے کی ٹھانی تو ہمیں عرفان صدیقی صاحب سے توقع تھی کہ وہ ہماری آواز بنیں گے۔ اس سیاہ قانون کی منظوری پر مجھ سمیت بہت سے صحافی دوستوں کو عرفان صدیقی سے شکوے شکائتیں تھیں۔ سیاستدان بننے کے بعد وہ کئی صحافی دوستوں سے دور ہو گئے لیکن اب وہ دنیا سے رخصت ہو چکے ۔ اللہ پاک انکی مغفرت فرمائے ۔ دنیا سے چلے جانے والوں کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا چاہئے ۔ ہم سب میں بہت سی کمزوریاں ہیں ۔ ہم سب غلطیاں اور کوتاہیاں کرتے ہیں ۔ ہم جب دوسروں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کل کو ہم نے بھی دنیا سے چلے جانا ہے ۔ ہمیں کوئی ایسا کام کام ضرور کرنا چاہئے جسے ہمارے مرنے کے بعدبھی لوگ یاد رکھیں ۔میری ناچیز رائے میں عرفان صدیقی صاحب کی ایک کتاب انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی جس کا نام ہے’’جو بچھڑ گئے‘‘ ۔ اس کتاب میں انہوں نے علامہ اقبال کی مشہور فارسی رباعی کے پس منظر سے لیکر اپنی والدہ سمیت کئی بچھڑ جانے والوں پر کالم اکٹھے کر دیئے تھے ۔عرفان صدیقی کو علامہ اقبال سے محبت اپنی والدہ کے ذریعے ملی تھی کیونکہ انکی والدہ اکثر انہیں فرمائش کرتیں کہ اقبال کی نظم’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ سناؤ اور جب انکی والدہ کا انتقال ہوا تو اُن کا یہ کالم بڑا مشہور ہوا جس کا عنوان تھا ’’آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے “۔

تازہ ترین